غارِ حرا میں نبی ﷺ کے غوروفکر کی حیثیت

آپ نے غالباً تفہیم اور بعض دوسرے مقامات پر پہلی وحی کی بہت عمدہ کیفیت بیان کی تھی اور یہ نقشہ کھینچا تھا کہ یہ کوئی داخلی (subjective) تجربہ نہ تھا جس کے لیے پہلے سے کوشش اور تیاری کی گئی ہو بلکہ دفعۃً خارج سے فرشتے اور وحی کا نزول ہوا تھا جو ایک قطعی غیر متوقع تجربہ تھا اور آں حضورﷺ کو اس سے ایک ایسا اضطراب لاحق ہوا تھا جیسا کہ ایک اچانک رونما ہونے والے واقعے سے ہوتا ہے۔ گیان دھیان، مراقبہ اور وحیِ نبوت کے مابین واضح خطِ امتیاز یہی ہے کہ نبی کا مشاہدہ بالکل ایک خارجی اور معروضی (objective) حقیقت سے تعلق رکھتا ہے۔ لیکن اس سلسلے میں ایک سوال سامنے آتا ہے کہ غارِ حرا میں نبی ﷺ کے غوروفکر کی حیثیت کیا تھی؟ معترض کہہ سکتا ہے کہ یہ بھی داخلی اور قلبی واردات کے اکتساب کی کوشش ہی تھی۔
جواب

رسول اللّٰہ ﷺ کے مشاہدے اور صوفیانہ تجربے (mystic experience) کا فرق آپ کو ترجمان({ FR 1439 }) میں شائع شدہ سورۂ النجم کی تفسیر سے اور بھی زیادہ واضح طور پر معلوم ہوجائے گا۔ اس سلسلے میں غارِ حرا کے غوروفکر کی نوعیت کے متعلق میں اپنے رسالے دینیات میں کچھ وضاحت کرچکاہوں اور آگے تفہیم القرآن میں جب سورہ الضحی اور الم نشرح اور سورۂ اقرأ کی تفسیر آئے گی اس وقت اور زیادہ وضاحت کردُوں گا۔ دراصل غارِ حرا میں حضورﷺ کا وہ غوروفکر اس بات پر تھا کہ جاہلیت کے رسوم و عقائد اور مذہبی اعمال تو آپ کو سراسر لغو نظر آتے تھے۔ اہلِ کتاب (یہود و نصاریٰ) جس مذہب کی نمائندگی کرتے تھے وہ بھی آپؐ کے ذہن کو اپیل نہیں کرتا تھا۔ پھر آپ کی قوم جن شدید اعتقادی اور اخلاقی و معاشرتی خرابیوں میں مبتلا تھی اسے دیکھ دیکھ کر بھی آپؐ سخت پریشان ہوتے تھے اور کوئی راہ آپﷺ کو ایسی نہ سوجھتی تھی جس سے آپؐ دین کی ایک مکمل قابلِ اطمینان تعبیر بھی پالیں اور ان خرابیوں کی اصلاح بھی کرسکیں جن میں آپؐ کو اپنا معاشرہ اور گردوپیش کی قوموں کا معاشرہ مبتلا نظر آتا تھا۔ اسی کیفیت کو سورۂ الم نشرح میں اس طرح بیان کیا گیا ہے کہ وَوَ ضَعْنَا عَنْکَ وِزْرَکَ الَّذِیْ اَنْقَضَ ظَھْرَکَ (الم نشرح:۲-۳ ) ’’ہم نے تمھارے دل کا وہ بوجھ دور کر دیا جو تمھاری کمر توڑے ڈال رہا تھا۔‘‘ اور اسی کیفیت کو سورہ الضحیٰ میں یوں فرمایا گیا کہ وَوَجَدکَ ضَآلًّا فَھَدٰی (الضحٰی:۷) ’’تمھارے رب نے تم کو ناواقفِ راہ پایا اور تمھیں راستہ بتایا۔‘‘ ضالّ عربی زبان میں اُس شخص کو کہتے ہیں جو راستہ نہ جاننے کی وجہ سے حیران کھڑا ہو اور اس پریشانی میں مبتلا ہو کہ کدھر جائوں ۔
(ترجمان القرآن، مارچ ۱۹۶۷ء)