جواب
رسول اللّٰہ ﷺ کے مشاہدے اور صوفیانہ تجربے (mystic experience) کا فرق آپ کو ترجمان({ FR 1439 }) میں شائع شدہ سورۂ النجم کی تفسیر سے اور بھی زیادہ واضح طور پر معلوم ہوجائے گا۔ اس سلسلے میں غارِ حرا کے غوروفکر کی نوعیت کے متعلق میں اپنے رسالے دینیات میں کچھ وضاحت کرچکاہوں اور آگے تفہیم القرآن میں جب سورہ الضحی اور الم نشرح اور سورۂ اقرأ کی تفسیر آئے گی اس وقت اور زیادہ وضاحت کردُوں گا۔ دراصل غارِ حرا میں حضورﷺ کا وہ غوروفکر اس بات پر تھا کہ جاہلیت کے رسوم و عقائد اور مذہبی اعمال تو آپ کو سراسر لغو نظر آتے تھے۔ اہلِ کتاب (یہود و نصاریٰ) جس مذہب کی نمائندگی کرتے تھے وہ بھی آپؐ کے ذہن کو اپیل نہیں کرتا تھا۔ پھر آپ کی قوم جن شدید اعتقادی اور اخلاقی و معاشرتی خرابیوں میں مبتلا تھی اسے دیکھ دیکھ کر بھی آپؐ سخت پریشان ہوتے تھے اور کوئی راہ آپﷺ کو ایسی نہ سوجھتی تھی جس سے آپؐ دین کی ایک مکمل قابلِ اطمینان تعبیر بھی پالیں اور ان خرابیوں کی اصلاح بھی کرسکیں جن میں آپؐ کو اپنا معاشرہ اور گردوپیش کی قوموں کا معاشرہ مبتلا نظر آتا تھا۔ اسی کیفیت کو سورۂ الم نشرح میں اس طرح بیان کیا گیا ہے کہ وَوَ ضَعْنَا عَنْکَ وِزْرَکَ الَّذِیْ اَنْقَضَ ظَھْرَکَ (الم نشرح:۲-۳ ) ’’ہم نے تمھارے دل کا وہ بوجھ دور کر دیا جو تمھاری کمر توڑے ڈال رہا تھا۔‘‘ اور اسی کیفیت کو سورہ الضحیٰ میں یوں فرمایا گیا کہ وَوَجَدکَ ضَآلًّا فَھَدٰی (الضحٰی:۷) ’’تمھارے رب نے تم کو ناواقفِ راہ پایا اور تمھیں راستہ بتایا۔‘‘ ضالّ عربی زبان میں اُس شخص کو کہتے ہیں جو راستہ نہ جاننے کی وجہ سے حیران کھڑا ہو اور اس پریشانی میں مبتلا ہو کہ کدھر جائوں ۔
(ترجمان القرآن، مارچ ۱۹۶۷ء)