غیرمسلم کے لیے دعائے مغفرت جائز نہیں اورعمل صالح کے لیے ایمان شرط لازم ہے

,

میں نے آپ کے پاس دوسوال بھیجے تھے۔ ایک یہ کہ کسی غیرمسلم کے لیےجو مرچکا ہودعائے مغفرت کی جاسکتی ہےیا نہیں ؟

اور دوسرا یہ کہ کافرومشرک کو اس کے نیک عمل پر آخرت میں ثواب ملےگا یا نہیں ؟

آپ نے ڈاک سے پہلے سوال کا جواب یہ بھیجا تھا کہ غیرمسلم میت کے لیے دعائے مغفرت جائز نہیں ہے اوراس کی ممانعت خود قرآن میں موجود ہے۔ اور دوسرے سوال کا آپ نے یہ جواب دیا تھا کہ کافرومشرک کے بظاہر اچھے عمل پر ’عمل صالح ‘ یعنی یعنی نیک عمل کا اطلاق صحیح نہیں ہے اور ان کو ایسے اعمال پرقیامت میں ثواب نہیں ملے گا۔ مہربانی کرکے یہ بتائیے کہ یہ دونوں باتیں قرآن مجید کی کس سورہ اور کس آیت میں ہیں ؟

جواب

پہلی بات سورۂ توبہ آیت ۱۱۳ میں ہے
مَا كَانَ لِلنَّبِيِّ وَالَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا اَنْ يَّسْتَغْفِرُوْا لِلْمُشْرِكِيْنَ وَلَوْ كَانُوْٓا اُولِيْ قُرْبٰى مِنْۢ بَعْدِ مَا تَبَيَّنَ لَھُمْ اَنَّھُمْ اَصْحٰبُ الْجَحِيْمِ۝۱۱۳ (التوبہ۱۱۳)
’’پیغمبرکو اوردوسرے مسلمانوں کو جائز نہیں ہے کہ مشرکین کے لیے مغفرت کی دعا مانگیں۔ اگرچہ وہ رشتہ دارہی ہوں۔ اس امر کے ظاہر ہوجانے کے بعد کہ یہ لوگ دوزخی ہیں۔ ‘‘
(ترجمہ مولانا اشرف علی تھانوی)
اس آیت کے تحت مولانا شبیر احمد عثمانی نےاپنے حاشیے میں لکھا ہے
’’مومنین جب جان ومال سے خدا کے ہاتھ بیع ہوچکے تو ضروری ہے کہ تنہا اسی کے ہوکر رہیں۔ اعداء اللہ سے جن کا دشمنِ خدا اور جہنمی ہونا معلوم ہوچکا ہو، محبت ومہربانی کا واسطہ نہ رکھیں۔ خواہ یہ دشمنانِ خدا ان کےماں، باپ،چچا،تایا اور خاص بھائی بندہی کیوں نہ ہوں۔ جو خدا کاباغی اور دشمن ہے وہ ان کا دوست کیسے ہوسکتا ہے۔ پس جس شخص کی بابت پتہ چل جائے کہ بالیقین دوزخی ہے خواہ وحی الٰہی کے ذریعے سے یا اس طرح کہ علانیہ کفروشرک پراس کی موت آچکی ہو، اس کے حق میں استغفار کرنا اور بخشش مانگنا ممنوع ہے۔ بہرحال شان نزول کچھ ہو حکم یہ ہے کہ کفارومشرکین کے حق میں جن کا خاتمہ کفروشرک پر معلوم ہوجائے استغفار جائز نہیں۔ ‘‘
اسی آیت کے تحت مولانا ابوالاعلیٰ مودودی تفہیم القرآن جلددوم میں لکھتے ہیں 
’’کسی شخص کے لیے معافی کی درخواست لازماًیہ معنی رکھتی ہے کہ اول توہم اس کے ساتھ ہمدردی اور محبت رکھتے ہیں، دوسرے یہ کہ ہم اس کے قصور کو قابل معافی سمجھتے ہیں۔ یہ دونوں باتیں اس شخص کے معاملے میں درست ہیں جو وفاداروں کے زمرے میں شامل ہو اور صرف گنہ گار ہو۔ لیکن جو شخص کھلا ہوا باغی ہواس کے ساتھ ہمدردی مشتبہ ہوجاتی ہے۔ اور اگر ہم محض اس بناپر کہ وہ ہمارا رشتہ دار ہے یہ چاہیں کہ اسے معاف کردیاجائے تواس کے معنی یہ ہیں کہ ہمارے نزدیک رشتہ داری کا تعلق خدا کی وفاداری کے مقتضیات کی بہ نسبت زیادہ قیمتی ہے اور یہ کہ خدا اور اس کے دین کے ساتھ ہماری محبت بےلاگ نہیں ہے اور یہ کہ جو لاگ ہم نے خدا کے باغیوں کے ساتھ لگارکھی ہے ہم چاہتے ہیں کہ خدا خود بھی اسی لاگ کو قبول کرے اور ہمارے رشتہ دارکو تو ضروربخش دے خواہ اسی جرم کا ارتکاب کرنے والے دوسرے مجرموں کو جہنم میں جھونک دے۔ یہ تمام باتیں غلط ہیں، اخلاص اور وفاداری کے خلاف ہیں اور اس ایمان کے منافی ہیں جس کا تقاضا یہ ہے کہ خدا اوراس کے دین کے ساتھ ہماری محبت بالکل بے لاگ ہو، خدا کا دوست ہمارا دوست ہواور اس کا دشمن ہمارادشمن۔ اسی بناپر اللہ تعالیٰ نے یہ نہیں فرمایا کہ ’’مشرکوں کے لیے مغفرت کی دعانہ کرو بلکہ یوں فرمایا کہ تمہارے لیے یہ زیبا نہیں ہے کہ تم ان کے لیے مغفرت کی دعا کرو۔‘‘ یعنی اگر ہمارے منع کرنے سے تم باز رہے تو کچھ بات نہیں تم میں تو خود وفاداری کی حس اتنی تیز ہونی چاہیے کہ جو ہمارا باغی ہے اس کے ساتھ ہمدردی رکھنا اوراس کے جرم کو قابل معافی سمجھنا تم کو اپنے لیے نازیبا محسوس ہو۔
یہاں اتنا اورسمجھ لینا چاہیے کہ خدا کے باغیوں کے ساتھ جو ہمدردی ممنوع ہے وہ صرف وہ ہمدردی ہے جو دین کے معاملے میں دخل انداز ہوتی ہو۔ رہی انسانی ہمدردی اور دنیوی تعلقات میں صلہ رحمی، مواسات اور رحمت وشفقت کا برتائو تو یہ ممنوع نہیں ہے بلکہ محمود ہے۔ رشتہ دار خواہ وہ مومن ہویاکافر،اس کے دنیوی حقوق ضرور ادا کیے جائیں گے۔ مصیبت زدہ انسان کی بہر حال مدد کی جائےگی۔ حاجت مند آدمی کو بہرحال سہارا دیاجائے گا۔ بیماراور زخمی کے ساتھ ہمدردی میں کوئی کسراٹھانہ رکھی جائے گی۔ یتیم کے سرپر یقیناً شفقت کا ہاتھ رکھاجائے گا۔ ایسے معاملات میں ہرگز یہ امتیاز نہ کیاجائے گاکہ کون مسلم ہے اور کون غیرمسلم۔ ‘‘ (تفہیم القرآن ج۲ص۲۴۱)
وَلَا تُصَلِّ عَلٰٓي اَحَدٍ مِّنْہُمْ مَّاتَ اَبَدًا وَّلَا تَقُمْ عَلٰي قَبْرِہٖ۝۰ۭ اِنَّہُمْ كَفَرُوْا بِاللہِ وَرَسُوْلِہٖ وَمَاتُوْا وَہُمْ فٰسِقُوْنَ۝۸۴ (التوبہ۸۴)
’’اور ان میں کوئی مرجائے تو اس پر کبھی نماز نہ پڑھیے اور نہ اس کی قبر پرکھڑے ہوجیسے انھوں نے اللہ اوراس کے رسول کے ساتھ کفر کیا ہے۔ اور وہ حالت کفر ہی میں مرے ہیں۔ ‘‘
(ترجمہ مولانا اشرف علی تھانوی)
اس آیت کے تحت مولانا اشرف علی تھانوی نے بیان القرآن میں دومسئلے لکھے ہیں 
۱- کافر کے جنازے پرنماز اور اس کے لیے استغفار جائز نہیں۔
۲- قیام علی القبر (قبرپر کھڑا ہونا) سے مراد وہ ہے جو بطوراکرام کے ہو خواہ بہ غرض زیارت ہویا بہ غرض دفن اور اگر عبرت اورتذکرموت کے لیے ہو یا ضرورت کے لیے ہو جیسے ہدایہ میں ہے کہ جس کا کوئی کافررشتہ دار مرجائے اور اس کا انتظام اس کے متعلق پر آپڑے تو اس کو بدون رعایت طریقہ مسنونہ کے غسل وکفن دے کر دفن کردے تو اس طرح قیام علی القبر درست ہے لیکن اگر زیارت بہ غرض عبرت میں کوئی مفسدہ دینیہ ہوتوجائزنہیں۔
اس آیت میں بھی کفر ہی کو منافق کی نماز جنازہ نہ پڑھنے کی علت قراردیاگیا ہے اسی لیے مولانا اشرف علی تھانوی نے یہ مسئلہ لکھا کہ کافر کی نماز جنازہ اور اس کےلیے دعائے مغفرت جائز نہیں ہے۔ تفسیر مظہری میں لکھا ہے کہ’’ اس آیت میں صلوٰۃ سے مراد دعا اور استغفار ہے۔ نماز جنازہ بھی دعا اور استغفارہی کی شکل ہے اس لیے منافق کی نماز جنازہ پڑھنے سے منع کردیا گیا ہے۔‘‘
شرک وکفر دوایسے جرم ہیں جن کو اللہ تعالیٰ نے اپنے ساتھ بغاوت قراردیا ہے اوران کے بارے میں قرآن مجید میں صاف اعلان کردیا ہے کہ وہ ان کو معاف نہیں کرے گا اور یہ کہ شرک وکفر کی سزا دوزخ کا ابدی عذاب ہے اور دوزخ اصلاً کافروں ہی کے لیے تیار کی گئی ہے۔ ان باتوں کے لیے مطالعہ کیجیے۔ سورۂ النساء رکوع ۷،آیت ۴۸، ایضاً رکوع ۱۸ آیت ۱۱۶ سورہ ٔ الاعراف رکوع ۵آیت۴۰،۴۱ ایضاً رکوع۶آیت ۵۰،۵۱ سورۂ البقرہ رکوع۲۴، سورۂ الکہف آخری رکوع آیت ۱۰۲۔
اب آپ غور کریں کہ جب شرک وکفر ناقابل معافی جرم ہیں، جنت کافروں پر حرام ہے اور دوزخ اصلاً کافروں ہی کے لیے بھڑکائی گئی ہے تو اس صورت حال میں ان لوگوں کے لیے جو شرک وکفر کی حالت میں مرچکے ہوں دعائے مغفرت کس طرح درست ہوسکتی ہے ؟ اوراس سے کیا فائدہ ان لوگوں کو پہنچ سکتا ہے؟ اگر قرآن میں صراحتاً اس کی ممانعت نہ آتی جب بھی ان لوگوں کے لیے مغفرت کی دعا ایک بے فائدہ عمل ہوتا لیکن اب کہ اللہ نے صراحتاً اس سے روک دیا ہے کسی غیرمسلم میت کے لیے مغفرت کی دعا کرنا نہ صرف یہ کہ ناجائز ہے بلکہ مومن ومسلم کا یہ عمل ایک نازیبا عمل ہوگا۔ اس سے غیرمسلم میت کو توکوئی فائدہ نہیں پہنچے گا۔ البتہ دعا کرنے والے کو یہ نقصان ضرور پہنچ جائے گا کہ وہ اپنے لیے آخرت کی بازپرس کا ایک اور سامان مہیا کرلے گا۔کیوں کہ ایسی دعا فرمانِ الٰہی کی خلاف ورزی کے سوااور کوئی معنی نہیں رکھتی۔
دوسری بات
جومیں نے آپ کو لکھ بھیجی تھی اس کا ذکر قرآن کی بہت سی آیتوں میں ہے۔ میں یہاں چند آیتوں کے ترجمے پیش کرتاہوں 
’’جن لوگوں نے اپنے رب سے کفر کیا ہے، ان کے اعمال کی مثال اس راکھ کی سی ہے جسےایک طوفانی دن کی آندھی نے اڑادیاہو۔ وہ اپنے کیے کا کچھ بھی پھل نہ پاسکیں گے۔یہی پرلے درجے کی گم گشتگی ہے۔‘‘ (ابرہیم ۱۸)
کفارومشرکین کے بظاہر اچھے اعمال کے اکارت اور ضائع ہوجانے کی یہ ایک بہترین تمثیل ہے جس نے اس بات کو پوری طرح واضح کردیا جو اس تمثیل کے بعد کہی گئی ہے۔ یعنی یہ کہ ان لوگوں کو آخرت میں ان کے بظاہر اچھے اعمال کا ذرہ برابر کوئی ثواب نہیں ملےگا۔ علامہ ثناء اللہ پانی پتی رحمۃ اللہ نے تفسیر مظہری میں لکھا ہے کہ ’’اس آیت میں اعمال سے مراد وہ اعمال ہیں جنہیں کفار نیک عمل سمجھ کر کرتے تھے، جیسے صدقہ، صلہ رحمی، مظلوم کی اعانت، غلام آزاد کرنا اور اس طرح کے دوسرے اعمال۔‘‘ سورۂ کہف میں اللہ نے خود فرمایا ہے
’’اے محمدؐ!ان سے کہو، کیا ہم تمہیں بتائیں کہ اپنے اعمال میں سب سے زیادہ ناکام ونامراد کون لوگ ہیں ؟ وہ کہ دنیا کی زندگی میں ساری سعی وجہد را ہ راست سے بھٹکی رہی اور وہ سمجھتے رہے کہ اچھے کام کررہے ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے اپنے رب کی آیات کو ماننے سے انکار کیا۔ اوراس کے حضورپیشی کا یقین نہ کیا اس لیے ان کے سارے اعمال ضائع ہوگئے۔ قیامت کے روز ہم انھیں کوئی وزن نہ دیں گے۔ ان کی سزا جہنم ہے اس کفر کے بدلے جو انھوں نے کیا اور اس مذاق کی پاداش میں جو وہ میری آیات اور میرے رسولوں کے ساتھ کرتے رہے۔‘‘
(الکہف ۱۰۳-۱۰۶)
یہ جو کافروں اورمشرکوں کے تمام اعمال اکارت ہوں گے اس کی وجہ یہی ہے کہ نیکی اور عمل صالح کے لیے ایمان شرط لازم ہے۔ اس ایمان کے بغیر جس کی دعوت قرآن دیتا ہے کسی عمل پرعمل نیک کا اطلاق ہی صحیح نہیں ہے۔ قاضی ثناء اللہ پانی پتی رحمۃ اللہ علیہ ان آیات کی تفسیر میں لکھتے ہیں کہ ’’کفار کو اپنے جن اعمال پرثواب کی امید ہوتی ہے ان پر انھیں کوئی ثواب ان کے کفر کی وجہ سے نہیں ملے گا۔ کیوں کہ 
فَاِنَّ الْاِیْمَانَ شَرْطٌ لِقَبُوْلِ الْحَسَنَاتِ کُلِّھَا
’’اس لیے کہ ایمان تمام نیکیوں کے قبول ہونے کی شرط ہے۔‘‘
یہ شرط اللہ نے اپنے کلام میں متعدد مقامات پرخود لگائی ہے۔ مثلاً سورۂ طٰہٰ، آیت ۱۱۲ میں فرمایا گیا
وَمَنْ يَّعْمَلْ مِنَ الصّٰلِحٰتِ وَہُوَمُؤْمِنٌ فَلَا يَخٰفُ ظُلْمًا وَّلَا ہَضْمًا۝۱۱۲ (طٰہٰ۱۱۲)
’’اور جو شخص کرے کوئی عمل صالح اور وہ ایمان بھی رکھتا ہوتو اس کو ڈر نہیں بے انصافی کا اور نہ نقصان پہنچنے کا۔‘‘
اس آیت میں وَمَنْ يَّعْمَلْ مِنَ الصّٰلِحٰتِ وَہُوَمُؤْمِنٌجملہ شرطیہ ہے اورفَلَا يَخٰفُ ظُلْمًا وَّلَا ہَضْمًا اس شرط کی جزاہے۔
قاضی ثناء اللہ پانی پتی رحمۃ اللہ علیہ آیت کی تفسیر کرتے ہوئے لکھتے ہیں 
یعنی ان الایمان شرط لصحہ الطاعات وقبول الخیرات
شربت روح افزااسی وقت تک روح افز ا ہے جب تک اس میں زہر ملا ہوانہ ہو۔ اگر زہر کی ایک بوند بھی ملادی جائے تو پھر وہ مہلک اور روح فرسا بن جائے گا حالاں کہ دیکھنے میں روح افزاہی رہے گا۔ یہی حال کفارومشرکین کے ان اعمال کا ہے جو بظاہر اچھے معلوم ہوتے ہیں لیکن ان میں شرک وکفر کا زہر مخلوط ہوتا ہے اور خدا کی بارگاہ میں ان کی کوئی قیمت نہیں ہوتی۔ بادشاہت کوئی بھی ہو اس میں باغی سلطنت کے اچھے اعمال بادشاہ کی نظر میں کوئی وقعت نہیں رکھتے۔ اورباغی بغاوت سے بازنہ آئے تو وہ سزا ہی کا مستحق قرارپاتاہے۔
آج کل چوں کہ خدا کی بادشاہت اورآخرت ذہن ودماغ سے غائب ہے اس لیے بہت سے ناواقف مسلمان بھی کفار ومشرکین کے صدقات وخیرات اوران کے رفاہ عامہ کے کاموں کو ’اعمال صالحہ ‘ قراردیتے ہیں حالاں کہ قرآن نے نوع بہ نوع انداز میں پوری طرح واضح کردیا ہے کہ ان باغیوں کے یہ اعمال خدا کی نظرمیں کوئی وقعت نہیں رکھتے اور آخرت میں ان کے تمام اعمال ضائع ہوجائیں گے۔
(مئی ۱۹۷۴ء، ج ۵۲،ش۵)