میرے ایک قریبی اعلیٰ تعلیم یافتہ ساتھی ہیں جو لاٹری کو ناجائز نہیں سمجھتے۔ انھیں میں نے بہت سمجھانے کی کوشش کی لیکن وہ یہی کہے جاتےہیں کہ جوئے سے اس کی کیا مماثلت ہے؟ اور لاٹری کیوں ناجائز ہے۔ آپ نے ’زندگی‘ کے کسی شمارے میں ایک سوال کے جواب میں تفصیلی روشنی ڈالی تھی۔ لیکن وہ شمارہ میری فائل میں موجود نہیں ہے۔ کوئی صاحب پڑھنے کو لے گئے اور آج تک واپس نہیں کیا۔ اگروہ پرچہ موجود ہوتاتو موصوف کو پڑھنے کو دیتا ہے۔ مجبوراً زحمت دے رہا ہوں کہ شرعی اور عقلی دونوں طریقے سے لاٹری کے ناجائز ہونے کی وضاحت کریں تاکہ اس بلا اور وبا سے مسلمان اور دوسرے لوگ محفوظ رہیں۔
جواب
میں نے نومبر ۱۹۶۳ء کے شمارے میں ’معمہ بازی کا کاروبار ناجائز ہے‘ کے عنوان سے ایک سوال کے جواب میں قمار کی اصل بیان کرکے معمہ بازی پرتھوڑی تفصیل سے لکھاتھا اور ضمنی طورپر اس میں لاٹری کاذکر بھی آیا تھا۔ میں نے لکھاتھا
’’تعجب ہے کہ لاٹری کو تو لوگ جواسمجھتے ہیں اور معمہ بازی کےجوا ہونے میں شک کرتے ہیں۔ ‘‘
اب یہ کیا پتاتھا کہ کچھ ایسے اعلیٰ تعلیم یافتہ مسلمان موجود ہیں جو لاٹری کو بھی جو انہیں سمجھتے اور معلوم نہیں کتنے ہی ایسے تعلیم یافتہ مسلمان ہوں گے جو اسے جوا نہ سمجھتے ہوں گے۔آپ کے ساتھی کو توجوااور لاٹری میں مماثلت بھی نظر نہیں آتی۔یہ معلوم نہیں کہ آپ کے ساتھی کے نزدیک جواکس چیز کانام ہے اوروہ اس کی کیا تعریف کرتے ہیں۔ لیکن دنیا کے علما،فضلا اوراہل لغت کے نزدیک اس کی تعریف یہ ہے
’’جوا،ہارجیت کے ان کھیلوں کو کہتے ہیں جن میں ہارنے جیتنے کا دارومدار محض بخت واتفاق پرہوتا ہے۔ قسمت یا اتفاق سے کچھ لوگ جیت جاتے ہیں اور قسمت یا اتفاق ہی سے ہار جاتےہیں۔ ‘‘
عرب میں جو اعام طورسے پانسوں اورتیروں کے ذریعے کھیلا جاتاتھا اوراب عام طور سے یہ تاش کے پتوں کے ذریعے کھیلا جاتاہے۔ لیکن پانسے یا تیریاتاش اس کےلازمی ذرائع اورطریقے نہیں ہے۔ ان کے علاوہ بھی مختلف طریقوں سے کھیلا جاسکتا ہے۔ انھیں مختلف طریقوں میں اب ایک طریقہ لاٹری کا رواج پاگیا ہے۔ اس میں بھی کام یاب ہونے یا محروم رہ جانے اوراپنی رقم گنوابیٹھنے کا دارومدار بخت و اتفاق ہی پر ہوتاہے۔ جواکی اصل روح یہ ہے کہ محنت ومشقت اورکام کیے بغیر اپنی ایک قلیل رقم صرف کرکے دوسروں کی کثیر رقم پر ہاتھ صاف کیاجائے۔ لاٹری میں جوئے سے صرف مماثلت ہی نہیں پائی جاتی بلکہ صریحی طورپر وہ جوئے ہی کی ایک قسم اوراس کا ایک طریقہ ہے۔ کوئی شخص ریس کے گھوڑوں پراپنی رقم لگائے یا تاش کے پتوں سے قسمت آزمائی کرے یا نمبرپڑے ہوئے ٹکٹ خریدکر دولت مند بن جانے کے خواب دیکھے، جوا کی حقیقت اوراس کی تعریف میں کوئی فرق واقع نہیں ہوتا۔ فتاویٰ دارالعلوم دیوبند میں لاٹری کے بارے میں ایک سوال کا یہ جواب دیاگیاہے
’’یہ قمارہے،شرعاً جائز نہیں ہے۔ جس کا نام نکلا اس کو وہ روپیہ لینا درست نہیں ہے، اور نہ مالک کمپنی کو کمیشن لینا درست ہے، بلکہ جس جس کا روپیہ ہے وہ اس کو واپس کرنا چاہیے۔ کسی کارخیر میں اس کا صرف کرنا درست نہیں ہے اور کبھی ایسا معاملہ نہ کیاجائے۔جس جس شخص نے ایک ایک روپیہ دیا ہے وہ اسی کو واپس کیاجائے وہ نہ ہو تو اس کے ورثا کو دیاجائے۔‘‘ (جلدہفتم وہشتم،مطبوعہ کتب خانہ امدادیہ دیوبند،ص ۲۳۶)
مولانا ابوالاعلیٰ مودودی نے تفہیم القرآن میں جوئے وغیرہ کی حرمت پرگفتگو کرتے ہوئے لکھاہے
’’جوے کی قسم کے وہ سارے کھیل اور کام جن میں اشیاکی تقسیم کامدار،حقوق اور خدمات اور عقلی فیصلوں پررکھنے کے بجائے محض کسی اتفاقی امر پر رکھ دیا جائے مثلاً یہ کہ لاٹری میں اتفاقاً فلاں شخص کا نام نکل آیا ہے لہٰذا ہزارہا آدمیوں کی جیب سے نکلا ہوا روپیہ ایک شخص کی جیب میں چلا جائے یا یہ کہ علمی حیثیت سے ایک معمہ کے بہت سے حل صحیح ہیں مگر انعام وہ شخص پائے گا جس کا حل کسی معقول کوشش کی بناپر نہیں بلکہ محض اتفاق سے اس حل کے مطابق نکل آیا ہو جو صاحب معمہ کے صندوق میں بند ہے۔‘‘(ج۱،ص۴۴۲)
لاٹری کو جوا کی ایک قسم صرف مسلمان علماوفقہا ہی قرار نہیں دیتے بلکہ غیرمسلم اہل علم بھی اسے جواسمجھتے ہیں۔ ’سنڈے اسٹینڈرڈ‘ ۲فروری ۱۹۶۹ء میں ایک غیرمسلم اہل علم جی ایل بابت کا ایک مضمون لاٹریوں پرشائع ہواتھا۔ اس مضمون کا ترجمہ بقلم جناب شریف احمد خاں صاحب ’زندگی‘ اپریل۱۹۶۹ءمیں چھاپا گیاتھا۔ اس مضمون میں جی۔ایل۔ بابت لکھتے ہیں
’’لغت میں قماربازی کےمعنی یہ ہیں روپیہ کی خاطر ایسے کھیلوں میں حصہ لینا جن کے نتائج کامدار بخت یا اتفاق پرہو۔‘‘
اور اسی مضمون میں لاٹری کے بارے میں وہ لکھتے ہیں
’’لاٹری کامفہوم لغت میں یہ ہے ’’لاٹری وہ قماربازی ہے جس میں ٹکٹوں کے فروخت سے حاصل شدہ رقم کا ایک جز ٹکٹوں کے خریداروں میں بذریعہ قرعہ اندازی تقسیم کردیا جائے۔‘‘
لاٹری کی یہ لغوی تعریف اپنے اعلیٰ تعلیم یافتہ ساتھی کو ضرور پڑھوادیجیے۔ اس میں صراحت کے ساتھ لاٹری کو قماربازی کی ایک قسم قراردیا گیاہے۔ اس مضمون میں وہ لاٹری کی خرابیاں واضح کرتے ہوئے لکھتے ہیں
’’انسائیکلوپیڈیا برٹانیکا ۱۹۴۶ء،جلد۱۰،صفحہ ۱۲ پر ہمیں لاٹری کے بارے میں یہ مواد بھی ملتا ہے لاٹریوں پرسب سے بڑا اعتراض یہ ہے کہ وہ غریبوں کو تباہ کرنے والی ہیں جو اپنے افلاس سے تنگ آکر غلط توقعات کی بناپر سب سے زیادہ اس کے خریدار بنتے ہیں۔ ‘‘ اس قابل قدر مضمون میں یہ بھی دکھایا گیا ہے کہ لاٹری صرف قماربازی نہیں بلکہ دھوکابازی بھی ہے۔ وہ لکھتے ہیں
’’انسائیکلوپیڈیا برٹانیکا کی طرف پھر رجوع کرنے پر ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ یہ شکایت اورزیادہ حق بجانب ہے کہ لاٹری کھولنے کےوقت ٹکٹ خریدنے والوں کی بہت تھوڑی تعداد موجود رہتی ہے اور موجود لوگ یہ بھی اطمینان نہیں کرسکتے کہ کھولتے وقت سارے نمبر اس میں شامل کرلیے گئے ہیں۔ اس لیے لاٹری کو دھوکا بازی سے پاک رکھنا بہت دشوارامر ہے۔‘‘
اسی طرح کی بے شمار خرابیوں کی وجہ سے برطانیہ میں ہرقسم کی پبلک لاٹریاں خلاف قانون ہیں اور امریکہ میں بھی اب تک اس کو قانونی جواز عطانہیں کیاگیاہے۔
ملک کے معمر سیاست داں اورمحترم رہ نما راج گوپال آچاری نے بھی ریاستی لاٹریوں کے خلاف آواز اٹھائی ہے۔ ان کے مضمون کا ترجمہ ’دعوت‘ دہلی یکم جولائی ۱۹۷۰ء میں شائع ہواتھا۔اس میں وہ لکھتے ہیں
’’میں انتہائی رنج کے ساتھ اپنے اس یقین کا اظہارکرتاہوں کہ ہماری تمام ریاستیں جولاٹریاں چلارہی ہیں ہمارے عوام کو قماربازوں کی ذہنیت کی صفوں میں تبدیل کررہی ہیں۔ ‘‘
اپنے اسی مضمون میں انھوں نے صراحت کے ساتھ لکھا ہے
’’دائوپر لگائی جانےوالی مجموعی رقم کا بڑا حصہ جیتنے کے لیے چھوٹی سی رقم دائو پرلگانا قمار بازی کے علاوہ اور کچھ نہیں ہے۔‘‘
قمار بازوں کی ذہنیت اور چوروں، ڈاکوئوں، رہزنوں اورجیب تراشوں کی ذہنیت میں بنیادی طورپر کوئی فرق نہیں ہے۔ عمل میں صرف اتنا فرق ہے کہ یہ سب کام ذرا دشوارہیں اور قماربازی کا عمل بہت آسان ہے، اس کے ذریعے بڑی آسانی کے ساتھ دوسروں کی دولت لوٹی اور ان کی جیب تراشی جاسکتی ہے۔ ایک فرق اوریہ ہے کہ چوروں اوراچکوں کو معاشرے میں برا سمجھاجاتاہےاور لاٹری کا ’انعام ‘ پانے والوں کو مبارک باد کے تارویے جاتے ہیں۔
قماربازی چوں کہ سود خوری اورشراب نوشی ہی کی طرح انسانی معاشرے کو حددرجہ بگاڑنے والی چیزہے، اس لیے اسلام نے اس کو حرام قراردیاہے اور بہت سختی کے ساتھ اس سے منع کیا ہے۔
سورہ المائدہ،آیت ۹۰،میں فرمایاگیاہے
’’اے مومنو! بلاشبہ شراب اورجوا اوربتوں کے تھان اورپانسوں کے تیرگندگی اور شیطانی کام ہیں توان سے بالکل الگ رہو تاکہ تم فلاح پائو‘‘
ان چیزوں سے بالکل الگ وہی لوگ رہ سکتے ہیں جن کےدلوں میں خدا کا خوف اور آخرت کاڈر ہو۔ رہے وہ لوگ جن پر دولت مند بننے کی دھن سوار ہے خواہ ذریعہ کوئی بھی ہو، وہ لاٹری کی بلااور وبا سے نہیں بچ سکتے۔ (اکتوبر ۱۹۷۰ء،ج۴۵،ش۴)