مختلف فیہ گمراہ امام کے پیچھے نماز

ایک صاحب نے ہمارے ایک سوال کے جواب میں آپ کا حوالہ دیتے ہوئے یہ بتایا ہے کہ غیر صالح العقیدہ لوگوں کے پیچھے بھی عام مسلمانوں کے ساتھ نماز پڑھ لینی چاہیے اور تفرقے سے اجتناب کرنا چاہیے۔ہمیں یاد ہے کہ آپ نے ایک خط میں ایسے ہی ایک سوال کے جواب میں یہ فرمایا تھا کہ جس شخص کے متعلق مشرکانہ عقائد رکھنا بالکل متحقق ہوجائے اس کے پیچھے تو نماز پڑھنے سے احتراز کرنا چاہیے ،مگر جس شخص کے عقائد کی حقیقت معلوم نہ ہو اس کی امامت میں نماز پڑھنا چاہیے۔ان دونوں جوابات میں جو فرق ہے اس کی وجہ سے یہاں بہت پیچیدگی پیدا ہوگئی۔ ذرا وضاحت کے ساتھ صحیح مسلک کی نشان دہی فرمایئے۔
جواب

آ پ کوجو جواب یہاں سے دیا گیا تھا وہ یہ تھا کہ کوئی صریح مشرکانہ فعل یا قول یا عقیدہ جس کے لیے تأویل کی قطعاً گنجائش نہ ہو اور جس کے ماننے والے یا کرنے والے کے لیے یہ فیصلہ کیے بغیر چارہ نہ ہو کہ وہ دائرۂ اسلام سے خارج ہے،ایسے قول یا فعل کے مرتکب کے پیچھے نماز نہ پڑھنی چاہیے۔ لیکن عام طور پر مسلمانوں کے مختلف گروہوں کے درمیان بحثوں اورمناظروں اور نزاعو ں نے یہ کیفیت پیدا کردی ہے کہ ہر گروہ دوسرے کو گمراہ ٹھیرانے اور اس سے دُور بھاگنے کے لیے دلیلیں ڈھونڈتا ہے اور بات بات پر فرقے بنتے ہیں ،مسجدیں الگ ہوتی ہیں اور شادی بیاہ کے تعلقات منقطع ہوتے ہیں ۔یہ کوئی اچھی بات نہیں ہے۔جو لوگ سب کی اصلاح کے لیے اُٹھے ہوں ، ان کے لیے صحیح طریقہ یہی ہے کہ وہ سب مسلمانوں کے ساتھ نماز پڑھیں اور ان میں جو اخلاقی اور اعتقادی خرابیاں پائیں ،ان کو ہم دردی اورمحبت کے ساتھ دُور کرنے کی کوشش کریں ۔ورنہ نمازیں الگ کرلینے کا فائدہ بجز اس کے اور کچھ نہ ہوگا کہ ہم بھی ایک فرقہ بن کر رہ جائیں گے اور ہمارے اور عام مسلمانوں کے درمیان ایک دیوارکھڑی ہوجائے گی، جسے عبور کرنا محال ہوجائے گا۔
رہا یہ اندیشہ کہ جس شخص کو آپ اپنے نزدیک گمراہی اور شرک میں مبتلا پاتے ہیں اس کی نماز چوں کہ آپ کے عقیدے کے مطابق مقبول نہیں ہے اس لیے اگر آپ اس کے پیچھے نماز پڑھیں گے تو آپ کی نماز نہ ہوگی،تو یہ اصلاًغلط ہے۔اوّل تو آپ یہ فیصلہ کرنے کے مجاز ہی نہیں ہیں کہ کس کی نمازمقبول ہوگی اور کس کی نہ ہوگی۔ ایسے فیصلے کرنے کے بجاے زیادہ بہتر یہ ہے کہ آپ اپنی نماز کی مقبولیت کے لیے بھی دعا کریں اور دوسروں کی نماز کی مقبولیت کے لیے بھی ۔دوسر ے یہ کہ جماعت کے ساتھ نما ز پڑھنے کا مفہوم یہ نہیں ہے کہ پوری جماعت کی نماز امام کی نماز کے ماتحت ایک مجموعے کی شکل میں اﷲتعالیٰ کے سامنے پیش ہوتی ہو، اور اگر امام کی نماز مقبول نہ ہو تو سارے مقتدیوں کی نماز بھی غیر مقبول ہوجائے۔ جماعت کی پابندی تو مسلمانوں کو ایک اُمت بنانے کے لیے ہے۔ورنہ حقیقت یہ ہے کہ ہر فرد کی نماز انفرادی حیثیت ہی سے خدا کے حضور پیش ہوتی ہے، اور اگر وہ مقبول ہونے کے قابل ہو تو بہرحال مقبول ہوکررہتی ہے، خواہ امام کی نماز مقبول ہو یا نہ ہو۔
(ترجمان القرآن،نومبر،دسمبر ۱۹۴۴ء)