مرتد کی سزا کا مسئلہ

اگر ایک اسلامی ریاست میں ایک مرتدواجب القتل ہے تو پھر کیا یہ دین میں جبر کا استعمال نہیں ہے؟کیونکہ قرآن کہتا ہے: لَآ اِكْرَاہَ فِي الدِّيْنِ ({ FR 2176 }) (البقرہ:۲۵۶)
جواب

مرتد کے بارے میں اسلام کا قانون بظاہر اس آیت کے خلاف محسوس ہوتا ہے لیکن درحقیقت وہ اس کے خلاف نہیں ہے۔ آیت کا تعلق ان لوگوں سے ہے جو اسلام میں داخل نہ ہوئے ہوں ۔انھی کے متعلق یہ فیصلہ کیا گیا ہے کہ انھیں داخل ہونے پر مجبور نہ کیا جائے گا۔ اس کے برعکس مرتد کے بارے میں اسلامی قانون کا تعلق ان لوگوں سے ہے جو اسلام میں داخل ہوکر پھر اس سے نکلنا چاہیں ۔ ان لوگوں پر جبر کے استعمال کی اصل غرض یہ نہیں ہے کہ ان کو دین میں رکھا جائے، بلکہ یہ ہے کہ اسلامی سوسائٹی کو، جو ریاست کی بنیاد ہے، انتشار (disintegration) سے بچایا جائے۔ اسلامی قانون جس طرح ایک مسلمان کو اس کی اجازت نہیں دیتا کہ وہ اسلامی ریاست کے اندر رہتے ہوئے علانیہ اسلام کو چھوڑ دے،اسی طرح وہ ایک غیرمسلم ذمی({ FR 2137 }) کو بھی اس کی اجازت نہیں دیتا کہ وہ ریاست کے حدود میں رہتے ہوئے اس کی وفا داری سے علانیہ انکار کردے۔ اور جہاں تک مجھے معلوم ہے کوئی ریاست بھی اپنے اجزاے ترکیبی کے انتشار کو گواراکرنے کے لیے تیار نہیں ہوتی۔اس معاملے میں سب ہی’’داخل نہ ہونے والے‘‘اور’’ داخل ہوکر نکل جانے والے‘‘ کے درمیان فرق کرتے ہیں اور دونوں کے ساتھ ایک سا معاملہ کوئی بھی نہیں کرتا۔ کیا امریکی شہریت یا برطانوی قومیت اختیار نہ کرنے والے،اور اختیار کرکے چھوڑ دینے والے کی پوزیشن ایک ہے؟ کیا امریکی وفاق میں شامل نہ ہونے والی ریاست اور شامل ہوکر نکل جانے والی ریاست کے ساتھ آپ ایک ہی معاملہ اختیار کریں گے؟ ( ترجمان القرآن ،اکتوبر۱۹۵۵ء)