جواب
آپ اس سے بھی زیادہ بھیانک مثال پیش کرسکتی ہیں ۔ ایک آدمی نابینا ہے یا اپاہج اور معذور ہے۔ خود تعاون اور مدد کا محتاج ہے۔ عورت اس کی خدمت کرتی اور اس کے اخراجات برداشت کرتی ہے تو کیا اس صورت میں بھی مرد کی حیثیت قوّام ہی کی ہوگی؟ اس کا جواب یہ ہے کہ قرآن مجید نے بہ حیثیت نوع مرد کو قوام کہا ہے۔ اس کی دو وجہیں بیان کی ہیں ۔ ایک یہ کہ اللہ نے مرد کو عورت پر فضیلت اور برتری عطا کی ہے۔ یہ برتری جسمانی، ذہنی اور عملی تینوں پہلوؤں سے یا ان میں سے ایک یا دو پہلو سے ہوسکتی ہے۔ اسی برتری کی وجہ سے اسلام نے عورت کے مقابلہ میں مرد پر سیاسی، سماجی اور معاشی ذمے داریاں بھی زیادہ ڈالی ہیں ۔ مرد کے قوّام ہونے کی دوسری وجہ یہ بتائی گئی ہے کہ وہ عورت پر اپنا مال خرچ کرتا ہے۔ یہ ایک عمومی بات ہے۔ استثنائی مثالیں ہر دور میں رہی ہیں ۔ آج بھی موجود ہیں کہ ایک عورت ذہنی اور جسمانی لحاظ سے مرد سے بہتر ہے اور اس کی معاشی حیثیت بھی مستحکم ہے اور وہ شوہر پر خرچ بھی کر رہی ہے۔ اس کے باوجود مرد کے قوّام ہونے کی حیثیت ختم نہیں ہوجائے گی۔ ورنہ مرد اگر اپنے مرد ہونے کی وجہ سے اور عورت اپنی معاشی حیثیت کی وجہ سے باہم ٹکرانے لگیں تو گھر کا نظام درہم برہم ہوکر رہ جائے گا۔ دوسرے یہ کہ قرآن مجید نے مرد کو قوّام کہنے کے ساتھ نیک بیوی کی تعریف کی ہے کہ وہ شوہر کے احکام کی اطاعت کرتی ہے اور اس کی عدم موجودگی میں اپنی عزت و ناموس اور شوہر کے مال و اسباب، اس کے اندرونی معاملات اور رازوں کی حفاظت کرتی ہے۔ (النساء:۳۴) اس لیے قرآن وحدیث کا منشا یہ ہے کہ عورت ہرحال میں مرد کو قوام سمجھے، اس کے احکام کی خلاف ورزی نہ کرے اور اس کے ساتھ ادب و احترام کا رویہ اختیار کرے۔ رسول اللہﷺ نے نیک بیوی کی یہ تعریف فرمائی ہے کہ شوہر اسے دیکھے تو خوش کردے، کوئی حکم دے تو اطاعت کرے اور اپنے نفس اور اس کے مال میں کوئی ایسا رویہ نہ اختیار کرے جو اسے ناگوار ہو۔۱؎