آپ نے ’زندگی‘ جنوری ۱۹۶۷ء میں ’موزوں پرمسح‘ کے عنوان سے رسائل ومسائل میں ثابت کیاتھا کہ پتلے اورباریک موزوں پرمسح کرنا جائز نہیں ہے۔ آپ نے مولانا مودودی کا جواب بھی دیاتھا اور لکھا تھا کہ اگر مولانا نے اس مسئلہ پر نظر ثانی کی تو ان کی رائے اتنی مطلق باقی نہیں رہے گی جتنی اب ہے۔ فروری ۱۹۶۸ء کے ترجمان القرآن میں زندگی کے حوالے سے اس مسئلے پرپھر بحث کی گئی ہے۔ جواب مولانا نے نہیں بلکہ جناب ملک غلام علی نے لکھا ہے۔ امید ہے کہ ترجمان القرآن آپ کی نظر سے گزرا ہوگا اور اس کی بحث سے مطمئن ہوگئے ہوں گے۔ جس چیز میں سہولت ہے کیا اس کو اختیار کرنا بہتر نہ ہوگا؟ میری طرح دوسرے قارئین زندگی بھی منتظر ہوں گے کہ اب آپ کیا کہتے ہیں ؟
جواب
محض اتفاق سے فروری ۱۹۶۸ء کا ترجمان القرآن دفتر زندگی میں پہنچ گیا ورنہ کئی سال سے ہندوستان کا ڈاک خانہ یا پاکستان کا ڈاک خانہ ہم تک اسے پہنچنے نہیں دیتا۔ میں خود نزلے اور تنفس کا مریض ہوں۔ اگر باریک موزوں پرمسح کرنا صحیح ثابت ہوجائے تو شخصی طورپر مجھے بھی سہولت حاصل ہو، لیکن میرے نزدیک ابھی تک یہ صحیح ثابت نہیں ہوسکا ہے۔ آپ ہوں یا کوئی بھی دوسرا شخص ہو اس کو اس رائے پرعمل کرنا چاہیے جس کے دلائل سے وہ مطمئن ہوگیا ہو۔ یہ ضروری نہیں ہے کہ اگر مجھ حقیر کو اطمینان نہ ہوتو کسی کو اطمینان نہ ہو۔ وضو میں پائوں دھونے کا حکم چوں کہ قرآن کریم کا ایک منصوص حکم ہے اس لیے آخری طورپر ایک بارپھر میں اپنا نقطۂ نظر واضح کررہاہوں، کسی بحث کا دروازہ کھولنا ہرگز مقصود نہیں ہے۔ ویسے علمی بحثیں اگر اپنی حدود کے اندر ہوں تو مضرنہیں ہوتیں۔ مولانا مودودی مدظلہ چوں کہ بہت اہم کاموں میں مشغول ہیں۔ اس لیے میرا خیال ہے کہ خود ان کو اس مسئلے پر نظر ثانی کا موقع نہیں ملا۔ محترم ملک غلام علی صاحب نے تو میری بحث کی اصل بنیاد کا اپنے جواب میں ذکر تک نہیں کیا۔ میرا خیال ہے کہ جن لوگوں نے میرے پیش کردہ مباحث کو سمجھ کرپڑھا ہوگا وہ بھی محترم ملک صاحب کے جواب سے مطمئن نہ ہوں گے۔ جواب کا صحیح طریقہ یہ تھا کہ یا تو یہ لکھ دیا جاتا کہ مولانا مودودی کے دیے ہوئے دلائل پر زندگی میں جوکچھ لکھا گیا ہے اس کے پڑھنے کے بعد بھی مولانا کی رائے میں کوئی تبدیلی نہیں ہوئی ہے، یا پھر زندگی میں جو بحث کی گئی ہے اس کی اصل بنیاد پر اظہار خیال کیا جاتا اور مولانا مدظلہ کے دلائل پر جوکچھ لکھا گیاہے اس کا جواب دیاجاتا۔ لیکن ملک صاحب نے نہ تو پہلا طریقہ اختیارکیااور نہ دوسرا۔
میری بحث کی اصل بنیادیہ ہے کہ وضومیں دونوں پائوں دھونا قرآن کاایک منصوص حکم ہے اور صحیح ترین قولی وفعلی احادیث سے بھی ثابت ہے اوراس قدرموکد ہے کہ غفلت کی بناپر اپنی ایڑی خشک چھوڑدینے والے کےلیے آگ کی وعید سنائی گئی ہے۔ ایک ایسے منصوص او رموکد حکم کے خلاف وضو میں پائوں پرمسح کرنا صرف اسی وقت صحیح ہوگاجب ایسا کرنا صحیح ترین قولی وفعلی احادیث سے ثابت ہو۔ ضعیف یا مختلف فیہ احادیث سے ثبوت پیش کرنا صحیح نہیں ہے۔ یقین کو چھوڑکر احتمال پرعمل کرنا غلط ہے۔ ہم خفین پرمسح کو صحیح اسی لیے کہتے ہیں کہ ان پر مسح کرنا ایسی احادیث سے ثابت ہے جو مشہور بلکہ بمنزلہ متواتر ہیں۔ اگر خفین پرمسح کرنے کی حدیث بھی ویسی ہی ہوتی جیسی جو ربین والی ہے تو ہم خفین پرمسح کرنے کو بھی جائزقرار نہ دیتے۔ یہ ہے میری بحث کی بنیاد اوراسی پرمیرے مباحث کی پوری عمارت تعمیر ہوئی ہے۔ لیکن محترم ملک غلام علی صاحب نے اپنے جواب میں اس کا ذکر تک نہیں کیا۔اگر میرا یہ نقطۂ نظر صحیح نہیں ہے تو انھیں اس کے صحیح نہ ہونے کود لائل سے ثابت کرنا چاہیے تھا اور اگر میرا یہ نقطۂ نظر صحیح ہے اور میں سمجھتا ہوں کہ یہ ایک مسلمہ دینی اصول ہے تو پھراسی کی روشنی میں ان کو جواب لکھنا چاہیے تھا۔انھوں نے اپنے جواب کا آدھا حصہ صرف یہ بتانے پرصرف کردیا کہ بغیر کسی شرط کے جرابوں میں مسح کے قول میں مولانا مودودی منفرد نہیں ہیں بلکہ ان سے پہلے ابن حزم، ابن تیمیہ اورابن قیم بھی یہ قول اختیارکرچکے ہیں۔ (اس موقع پر ابن تیمیہ کانام پیش کرنا صحیح نہیں ہے۔ تفصیل آگے آرہی ہے۔) ترجمان القرآن میں جن صاحب کا سوال شائع ہواہے وہ اگر مزید نام دیکھ کر مطمئن ہوجائیں تو ٹھیک ہے، لیکن ان ناموں کا اضافہ میری بحث کا جواب نہیں ہے۔ میں نے اپنی بحث میں، دلائل کے ساتھ نعلین (جوتوں ) پرمسح کرنے کی صحیح مراد بھی واضح کی تھی۔ میری غرض یہ تھی کہ جس طرح نعلین پرمسح کرنے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ صرف چپلوں پرمسح کرلیاجائے، اسی طرح جوربین پرمسح کامطلب یہ نہیں ہے کہ کوئی شخص باریک ساموزہ چڑھا کر اس پر مسح کو جائز قراردے لے۔ لیکن جواب کو آخر کون شخص ’زندگی‘ کے مباحث کاجواب قراردے گا؟
اس مسئلے میں سب سے پہلی لغزش۔اللہ انھیں معاف کرے علامہ ابن حزمؒ (متوفی ۴۵۶ھ) سے ہوئی۔ ان سے پہلے ائمۂ مجتہدین اورائمہ حدیث اس پرمتفق تھے کہ جرابوں پرعلی الاطلاق مسح جائز نہیں ہے۔ ائمہ اربعہ اوردوسرے ائمہ فقہ وحدیث میں سے کوئی ایسا نہیں ہے جس نے جرابوں پربغیر کسی شرط کے مسح جائز قراردیاہو۔ چارسوبرس کے بعد علامہ ابن حزم غالباً پہلے شخص ہیں جنہوں نے اس سے اختلاف کیا اور اس حد تک آگے بڑھے کہ اگر کوئی شخص ایسے سوتی یاکسی چیز کے بنے ہوئے دریدہ موزے پہنے ہوئے ہوکہ دونوں پائوں آدھے سے زیادہ باہر نکلے ہوئے ہوں تو ان موزوں یا جرابوں پربھی مسح جائزہے۔ اس لغزش کا سبب، ان کی اس سے بڑی ایک دوسری لغزش ہے اور وہ یہ ہے کہ ان کے نزدیک پائوں دھونے کا حکم قرآن سے ثابت نہیں ہے۔ قرآن نے سر کی طرح پائوں پربھی مسح کرنے کا حکم دیاہے۔ وضو میں پائوں دھونے کا حکم نبی ﷺ نے دیاتھا۔ اب سوال پیداہواکہ جب اللہ نے پائوں پر مسح کر نے کا حکم دیا تو رسولؐ نے اس کے خلاف پائوں دھونے کا حکم کس طرح دیا؟ اس کا جواب انھوں نے یہ دیا ہے کہ غسل رجلین (پائوں دھونا) کی حدیث میں جو حکم ہے وہ قرآن کے حکم پر ز ائد اس کا ناسخ ہے۔ گویا اللہ کے حکم کواس کے رسولؐ نے نہ صرف منسوخ کیا بلکہ اگر غفلت سے کوئی شخص اپنی ایڑی خشک چھوڑ دیا کرے تو اس کو دوزخ کی وعید بھی سنا دی۔ نعوذ باللہ من ہذا القول۔ ظاہر ہے کہ جس شخص کے نزدیک پائوں دھونے کا حکم قرآن میں نہیں ہے اس کے لیے بہت آسان ہے کہ ہر طرح کے موزوں پرمسح کو جائز قراردے، بلکہ موزے آدھے سے زیادہ پھٹے ہوئے ہوں جب بھی ان پر مسح کو صحیح کہے۔ لیکن ہمارے لیے ایسا قول اختیار کرنا آسان نہیں ہے۔ ہمیں یقین ہے کہ اللہ تعالیٰ نے وضو میں پائوں دھونے ہی کا حکم دیا ہے اور یہی صحیح ترین قولی وفعلی احادیث سے بھی ثابت ہے اوراب اسی پر اہل السنتہ والجماعۃ کا اجماع بھی ہے۔ اسی طرح ائمہ مجتہدین اس بات پربھی متفق رہے ہیں کہ جرابوں پربغیر کسی شرط کے مسح کرنا جائز نہیں ہے۔ چارصدیوں تک جس مسئلے پراتفاق رہااس میں علامہ ابن حزم نے رخنہ ڈالا۔ اگر کوئی اس رخنہ اندازی ہی کو صحیح سمجھتا ہے تو اسے اختیار ہے کہ ململ اور آبرواں کی جرابیں بنواکر پہنے اوران پرمسح کرے۔
ترجمان القرآن فروری ۱۹۶۸ء میں جو سوال وجواب شائع ہواہے اس کے سلسلے میں چند اور باتیں بہت اختصار سے عرض کررہاہوں۔ سوال میں ہےکہ میں نے حضرت مغیرہ بن شعبہؓ کی دوسری حدیث میں جو ربین کے لفظ کو زاید کہاہے۔ میری طرف یہ انتساب صحیح نہیں ہے۔ میں نے لکھا ہے کہ جوربین والی حدیث اکثر ائمہ حدیث کے نزدیک ضعیف ہے۔ اس کی صحت مختلف فیہ ہے، متفق علیہ نہیں ہے۔ میرے نزدیک اس کے ضعف کی وجہ یہ نہیں ہے کہ اس میں جو ربین کا لفظ زاید ہے۔ اس کے علاوہ میں نے لکھا ہے کہ جو حکم قرآن اور صحیح احادیث سے ثابت ہواس کے خلاف رخصت نہ ضعیف حدیث سے ثابت ہوتی ہے اور نہ مختلف فیہ حدیث سے۔ اور اس سے کوئی انکار نہیں کرسکتا کہ حضرت مغیرہؓ کی جوربین والی حدیث کی صحت ائمۂ حدیث کے درمیان مختلف فیہ ہے۔
محترم ملک صاحب کے جواب کے سلسلے میں پہلی گزارش یہ ہے کہ انھوں نے فتاویٰ ابن تیمیہ کے فتوے کی صحیح ترجمانی نہیں کی ہے اور غالباً بھول چوک کی وجہ سے اس کے ایک انتہائی ضروری جملے کا مفہوم ومعنی ان سے چھوٹ گیا ہے۔ علامہ ابن تیمیہؒ نے سوال کے جواب میں جو پہلی سطر لکھی ہے وہ یہ ہے
نعم، یجوز المسح علی الجوربین اذا کان یمشی فیھما، سواء کانت مجلدۃ اولم تکن، فی اصح قولی العلماء (ج۲ص۱۸۸)
’’ہاں، جرابوں پرمسح جائز ہے جب کوئی شخص اس کو پہن کر چل پھرسکتا ہو۔ عام ازیں کہ ان پر چمڑا لگاہوا ہویانہ ہو۔ یہ جواز علماء کے دوقول میں صحیح تر قول کے لحاظ سے ہے۔‘‘
ملک صاحب کے جواب میں ’’اذاکان یمشی فیھما‘‘ کا مفہوم ومعنی بالکل غائب ہے۔ وہ لکھتے ہیں
’’امام ابن تیمیہ کافتاویٰ جلددوم میں ان کا ایک فتویٰ موجود ہے جس میں وہ فرماتے ہیں کہ صحیح تر قول کے مطابق جرابوں پرمسح جائز ہے خواہ ان پرچمڑا ہویا نہ ہو، خواہ وہ اونی ہوں یا سوتی۔‘‘
(ص۵۴)
اس ترجمانی میں ’’اذاکان یمشی فیھما‘‘ کی شرط غائب ہوگئی ہے۔ عربی کا یہ جملہ، جملہ شرطیہ ہی تو ہے۔ پھر یہ کہنا کہ امام ابن تیمیہ جرابوں پر بغیر کسی شرط کے مسح کرنے کو جائز قراردیتے ہیں، کس طرح صحیح ہوگا؟ ان کی عبارت کا مطلب یہ ہے کہ جرابوں پر مسح کے جواز وعدم جواز میں علماء کے دوقول ہیں۔ ایک قول یہ ہے کہ جرابوں پراس وقت تک مسح جائز نہیں جب تک وہ مجلد نہ ہوں اور دوسرا قول یہ ہے کہ مجلد ہونا ضروری نہیں ہے۔ اگر جراب ایسے ہوں کہ ان کو پہن کر چلا پھر اجاسکتا ہوتو ان پر مسح کرنا جائز ہے۔ اہل علم جانتے ہیں کہ خفین اورجوربین کے مسئلے میں انھیں پہن کر چلنے پھرنے کا مفہوم کیا ہے؟ اس کا مفہوم یہ ہے کہ جس طرح جو توں کے بغیر، صرف خفین پہن کر چلتے پھرتے ہیں اور ان کو جوتوں کی جگہ بھی استعمال کیاجاسکتا ہے، اسی طرح اگر جرابیں بھی اسی ہیں کہ ان کو جوتوں کے بغیر پہن کر ان میں چلاپھر ا جاسکتا ہو اور انھیں خفین کی طرح استعمال کیاجاسکتا ہو تو ایسی جرابوں پرمسح کرنا جائز ہوگا۔ اس کے لیے مجلد ہونے کی شرط لگانا صحیح نہیں ہے۔ راقم الحروف عرض کرتا ہے کہ علامہ نے جو ایک شرط لگائی ہے، وہ فقہا کی لگائی ہوئی بہت سی شرطوں کی جامع ہے۔ ملک صاحب لکھتے ہیں
’’اسی طرح جرابوں کا پتلایا ڈھیلاہونا یا بندش کا محتاج ہونا بھی ان کے نزدیک باعث مضائقہ نہیں۔ ‘‘
اس عبارت میں ’پتلا‘ کا لفظ ملک صاحب کا اپنا اضافہ ہے۔ ابن تیمیہ نے نہیں لکھا ہےاور جو شخص اذا کان یمشی فیھما کی شرط لگارہاہوتو وہ پتلے موزوں پرمسح کو کس طرح جائز قراردے سکتا ہے۔ ملک صاحب سے ان کے فتوے کی ترجمانی میں اور غلطیاں بھی ہوئی ہیں لیکن میں اس وقت انھیں واضح کرنا ضروری نہیں سمجھتا۔ میرے لیے اتنی وضاحت کافی ہے کہ جرابوں پرمسح کے مسئلے میں مولانا مودودی اور ابن تیمیہ کے مسلک کو ایک قراردینا غلط ہے۔ کیوں کہ ابن تیمیہ نے اپنے اس فتوے میں جس کا حوالہ انھوں نے دیا ہے، کم سے کم ایک شرط ضرورلگائی ہے۔
حافظ ابن قیم کی تہذیب سنن ابی دائود ہمارے یہاں نہیں ہے۔ اس لیے اس کے بارے میں ابھی کچھ نہیں کہاجاسکتا۔ ویسے خیال ہوتاہے کہ انھوں نے شاید اپنے استاذ ہی کی تائید کی ہوگی اور یہ معلوم ہوچکا کہ امام ابن تیمیہ نے بلاشرط، جرابوں پرمسح کوجائز نہیں کہاہے۔
دوسری گزارش یہ ہے کہ جوربین والی حدیث کی علت دفع کرنے کے لیے جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ وضووطہارت روز مرہ کا کثیر العمل فعل ہے اس لیے یہ کیوں نہیں ہوسکتا کہ حضرت مغیرہؓ کی دونوں حدیثیں دومواقع کی ہوں، وہ اپنی اس تاویل میں کئی باتیں نظر انداز کردیتے ہیں
(الف) جراب توالگ رہی، نبی ﷺ کا خفین پرمسح کرنا بھی کثیرالوقوع نہیں ہے۔ سفر میں حضورؐ کا خفین پرمسح کرنا تو مشہور بمنزلہ متواتر احادیث سے ثابت ہےلیکن بحالت قیام مدینہ منورہ میں حضورؐ کا خفین پرمسح کرنا پوری طرح ثابت شدہ نہیں ہے۔ حضرت عبداللہ بن عمرؓ جیسے شخص جن کا حضورؐ سے اپنے گھر جیسا تعلق تھا، خفین پرمسح کے جوازسے بے خبر رہے۔ انھوں نے حضرت سعد بن وقاصؓ کو عراق میں خفین پرمسح کرتے دیکھا تو انکار کیا اور ان کو اس وقت تک اطمینان نہیں ہوا جب تک خود حضرت عمرؓ نے اس کی تصدیق نہ کردی۔ اگر مدینہ منورہ میں بھی حضورؐ خفین پرمسح کےعادی ہوتے تو حضرت عبداللہ بن عمرؓ اس سے بے خبر نہیں رہ سکتے تھے۔ اس سے آگے کی بات یہ ہے کہ ایک تابعی حضرت شریح بن ہانی ؒ، حضرت عائشہؓ سے خفین پرمسح کے بارے میں پوچھنے گئے تو انھوں نے کہا کہ جاکر علی سے پوچھو اس لیے کہ وہ نبی ﷺ کے ساتھ سفر کیاکرتے تھے۔(مسلم ) اگر حضر میں بھی آپ خفین پرمسح کیاکرتے تو حضرت عائشہؓ اس کے مسائل سے بے خبر نہ رہتیں۔ صرف ایک حدیث ایسی ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ نے ایک بار مدینہ میں بھی خفین پرمسح کیاتھا۔ میں جو کچھ عرض کررہاہوں اس کی غرض صرف یہ ہے کہ نبی علیہ السلام کا خفین پرمسح کرنا بھی کثیر الوقوع نہیں ہے۔
(ب) حضرت مغیرہؓ حضورؐ کے خادم خاص نہ تھے۔ اس لیے وضو وہ طہارت کے کثیرالعمل فعل کے وقت ان کی حاضری کثیر نہ تھی۔ صحیح بات یہی ہے کہ انھوں نے حضورؐ کو خفین پرمسح کرتے ہوئے غزوہ تبوک میں دیکھا تھا اور وہی واقعہ بعض راویوں کے وہم سے بجائے ’خفین ‘ کے ’جوربین ‘ بن گیا۔
(ج) مختلف مواقع کی بات کہہ کر اضطراب کو دور کرنا کوئی ایسا باریک نکتہ نہیں ہے جواس حدیث کو معلل قرار دینے والوں کی سمجھ میں نہ آتا۔
تیسری گزارش یہ ہے کہ ملک صاحب نے چاندی اورسونے کے نصاب کا مسئلہ چھیڑکرخلط مبحث کیا ہے اور یہ خلط مبحث بھی ان کے لیے مفید نہیں ہے۔ اس لیےکہ سونے کے نصاب والی حدیث کے مقابلہ میں کوئی صحیح حدیث موجود نہیں ہے جس کے خلاف عمل لازم آرہاہو۔ نیز یہ کہ اس حدیث کو جمہورائمہ حدیث اور ائمہ مجتہدین نے قبول کرلیا ہے اور آج تک اسی کے مطابق عمل ہوتا چلاآرہاہے۔ یہ بات جوربین والی حدیث کو حاصل نہیں ہے۔ اگرجرابوں والی حدیث کو بھی جمہورائمہ حدیث اور ائمہ فقہ قبول کرلیتے تو بےشک آپ کا یہ خلط مبحث مفید ہوتا اور اوپر معلوم ہوچکا کہ ابن حزم سے پہلے کسی نے بھی علی الاطلاق اس کو قبول نہیں کیاہے۔
چوتھی گزارش یہ ہے کہ دولابی نے الاسماء والکنی میں حضرت انسؓ کے متعلق جو روایت بیان کی ہے اس کو ابن حزم نے نقل نہیں کیا ہے بلکہ المحلی کے محشی نے نقل کیا ہے۔اس کے علاوہ ملک صاحب نے حضرت انسؓ کے قول کی جو تشریح کی ہے وہ یہ ہے
’’البتہ ثخین یاصفیق ہونے کی بناپر یہ خف کے مانند ہیں اور اس صفت سے متصف ہونے کے باعث ان پر مسح جائز ہے۔‘‘ (ص۵۶)
یہ لکھ کر تو ملک صاحب نےاپنے پورے جواب پرخودہی خط نسخ کھینچ دیا۔ راقم الحروف یہی تو کہہ رہاہے کہ ثخین وصفیق ہونے میں جرابوں کا خفین کے مانند ہونا ضروری ہے۔اور ایسے ثخین وصفیق جرابوں پرجو خف کے مانند ہوں، میرے نزدیک بھی مسح کرنا جائز ہے۔ (مئی ۱۹۶۸ءج۴۰ش۵)