مطالعہ سائنس اور اسلام کی راہ نمائی

سائنس کے مختلف شعبوں کے مطالعہ کرنے کے سلسلے میں اسلام کیا راہ نمائی دیتاہے؟
جواب

سائنس کے مختلف شعبوں کے مطالعے میں اسلام کی راہ نمائی کیا ہے،اس سوال کا جواب ایک مفصل مضمون چاہتا ہے، مگر میں مختصراً آپ کو اس کے لیے چنداشارے دیتا ہوں ۔
سائنس کا جو شعبہ بھی آپ لیں ،وہ بہرحال کائنات کے کسی ایک جز کی ماہیت اور خصوصیات کو اور ان قوانین فطرت کو جو اس میں کارفرما ہیں ،مشاہدے اور تجربے کی مددسے معلوم کرنا چاہتا ہے۔اس تحقیق وتجسس میں دو چیزیں بنیادی اہمیت رکھتی ہیں ۔ایک یہ کہ تحقیق کرنے والا انسان پہلے بحیثیت مجموعی پوری کائنات کا( جس کے کسی جز پر وہ اپنی توجہ مرکوز کررہا ہے)ایک صحیح وجامع تصور رکھتا ہو۔دوسرے یہ کہ وہ خود اپنی حقیقت اور حیثیت کو اور اپنے حدود کو ٹھیک ٹھیک سمجھتا ہو۔ ان دو چیزوں کے بغیر الگ الگ اجزا کی تحقیقات(جو بہرحال صر ف تجربے ومشاہدے میں آنے والے اُمور واقعیہ تک ہی محدود نہیں رہتی بلکہ کسی نہ کسی فلسفیانہ نظریے کی تشکیل بھی کرتی ہے)مشکل ہی سے کسی صحیح نتیجے پر انسان کو پہنچا سکتی ہے۔اس کا حاصل،عملی ایجادات سے قطع نظر، فلسفیانہ حیثیت سے اگر کچھ ہے تو یہ کہ ایسی تحقیقات ہمارے مجموعی تصور کائنات و انسان کو مکمل اور واضح کرنے کے بجاے اُلٹا ناقص اور مسخ ہی کرتی چلی جائیں گی۔
اسلام دراصل ہماری اسی ضرورت کوپورا کرتا ہے۔ وہ ہر قسم کی تحقیقات کے لیے جو نقطۂ آغاز ہم کو دیتا ہے وہ یہ ہے کہ اس کائنات کو بے خدا فرض کرکے یا بہت سے خدائوں کی رزم گاہ سمجھ کر تحقیق کی ابتدا نہ کرو، بلکہ یہ سمجھتے ہوئے اسے دیکھنا شروع کرو کہ یہ ایک خالق کی تخلیق اور ایک قادر مطلق کی سلطنت اور ایک حکیم کی دانائی کا کرشمہ ہے۔ دوسرے یہ کہ اپنے آپ کو(اور فی الجملہ نوع انسانی کو) غیرمحکوم و غیر مسئول، یامجبور محض، یا مختار کل سمجھتے ہوئے مطالعے کی ابتدا نہ کرو، بلکہ اس حیثیت سے مطالعہ شروع کرو کہ تم سلطنت کائنات میں ایک ایسی رعیت ہو جس کی طرف کچھ اختیار منتقل کیا گیا ہے اور اس اختیار کے صحیح وغلط استعمال میں تم مسئول ہو۔
بس یہی ہر مطالعہ و تحقیق کے لیے ایک صحیح نقطۂ آغاز ہے۔رہے دوران تحقیق میں پیش آنے والے وہ بہت سے جزئیات جن سے انسان کو مختلف علمی شعبوں میں سابقہ پیش آتا ہے،تو ان میں اسلام اس کے سوا کسی بات کا تقاضا نہیں کرتا کہ ہمارے اخذ کردہ نتائج ان حقائق سے نہ ٹکرائیں جن کی صراحت کتاب اﷲ میں پائی جاتی ہو۔ اگر بالفرض کسی جگہ بعض حقائق مشہودہ (observed facts) سے ہم کو ایسے نتائج نکلتے نظر آئیں جو تصریحات کتاب سے متصادم ہوتے ہوں ، تو پھر ہمیں غور سے دیکھنا چاہیے کہ کہیں ہمارے مشاہدے، یا طریقۂ استنتاج میں تو کوئی غلطی نہیں ہے۔ یہ خیال رہے کہ تصادم اگر ہوسکتا ہے تو حقائق وواقعات او ر تصریحات کتاب میں نہیں بلکہ نتائج مستخرجہ اور تصریحات کتاب میں ہوسکتا ہے،اور اس صورت میں نظر ثانی کتاب پر نہیں بلکہ نتائج مستخرجہ پر ہونی چاہیے،کیوں کہ نتائج مستخرجہ حقائق مشہودہ کی طرح کوئی یقینی چیز نہیں ہیں ۔
ان اُصولی باتوں کو سمجھنے کے بعد اب اپنی تحقیق کا راستہ تلاش کرنا آپ کا اپنا کام ہے۔
(ترجمان القرآن، مئی۔جون۱۹۵۳ء)