عرض ہے کہ مولانا مودودیؒ کی تفہیم القرآن میں واقعہ معراج کے بارے میں میرے ایک رشتہ دارنے اعتراض کیا ہے، آپ اس کا ازالہ کردیں تاکہ میرا ذہنی انتشاردور ہو۔ معراج کے بارے میں مولانا نے حاشیہ میں لکھا ہے ’’ یہ سب جزوی چیزیں ہیں، اس کا انکار کرنے والے کو کافر نہیں کہیں گے۔‘‘ اس پر ہمارے رشتہ دار نےکہا کہ یہاں مولانا نے حدیث سے انکار کیا ہے، اور اس طرح حدیث کے انکار کرنے والے کو کافرکہاجاتا ہے لہٰذا مولانا بھی........
جواب
مولانا مودودی رحمۃ اللہ علیہ معراج جسمانی کے قائل ہیں جو احادیث سے ثابت ہے۔ وہ اس کے بھی قائل ہیں کہ احادیث میں جو تفصیلات ہیں وہ قرآن کے خلاف نہیں ہیں بلکہ قرآن کے بیان پراضافہ ہیں۔ اور مولانا نے حاشیہ میں جو بات لکھی ہےوہ یہ ہے
’’حدیث کی یہ زائد تفصیلات قرآن کے خلاف نہیں ہیں بلکہ اس کے بیان پراضافہ ہیں اور ظاہر ہے کہ اضافہ کو قرآن کے خلاف کہہ کر رد نہیں کیا جاسکتا تاہم اگر کوئی شخص ان تفصیلات کے کسی حصہ کو نہ مانے جو حدیث میں آئی ہیں تواس کی تکفیر نہیں کی جاسکتی۔ البتہ جس واقعہ کی تصریح قرآن کررہاہے اس کا انکار موجب کفر ہے۔‘‘ (تفہیم القرآن ج۲ص۵۸۸۔۵۸۹)
یہ عبارت آپ کے رشتہ دار نے سمجھی نہیں اور الزام لگادیا۔ اس عبارت میں تین باتیں کہی گئی ہیں
(الف) حدیث میں معراج سے متعلق قرآن سے جو زائد تفصیلات ہیں وہ قرآن کے خلاف نہیں ہیں بلکہ اس پر اضافہ ہیں۔
(ب) ان تفصیلات کے کسی حصہ کا کوئی شخص انکار کردے تو اس کو کافر قرارنہیں دیاجائے گا۔
(ج) جس واقعہ کی تصریح قرآن میں ہے اس کا انکار کافر بنانے والا ہے۔
اب آپ دیکھیے کہ اس عبارت میں مولانا مودودی نے حدیث کا انکار کیا ہے یا اس کا اثبات کیا ہے۔ آپ کے رشتہ دار نے الٹی بات کہی ہے۔ان سے کہیے کہ ان کو جس عالم پر اعتماد ہواس سے دریافت کریں کہ کسی مسلمان کو کب کافرقراردیا جاسکتا ہے؟ ان سے یہ بھی کہیے کہ وہ اردو زبان نہیں جانتے ہیں، اس کو سیکھنے کی کوشش کریں اور اگر آپ اردو زبان جانتے ہوتےتو ان کو خود جواب دیتے اور مجھ سے پوچھنے کی ضرورت نہ پڑتی۔ آپ چوں کہ ذہنی انتشارمیں مبتلا ہوگئے۔ اس لیے میں نے جواب دینا مناسب سمجھا۔ (اکتوبر۱۹۸۵ءج۳ ش۴)