مہدی کے معنیٰ،اُن کا کام اور حیثیت

بعثت مہدی کی ضرورت کو’’تجدید واِحیاے دین‘‘ میں تسلیم کرلیا گیا ہے،لیکن مہدی کا کیا کام ہوگا،اس مسئلے کو نقلی تائید کے بغیر محض اپنے لفظوں میں بیان کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ احادیث شریفہ کی روشنی میں اس کی تفصیل کی جائے تو مناسب ہے۔نیز مہدیِ موعود کے مراتب وخصوصیات اور اطاعتِ مہدی وغیرہ پر کوئی بحث نہیں کی گئی ہے،بلکہ عام مجددین میں شمار کردیا گیاہے۔اگرچہ مجدّد کامل اور مجدد ناقص کی تقسیم سے یہ معلوم ہوسکتا ہے کہ غالباً یہاں ’’مجدد‘‘کا لفظ بربناے لغت استعمال ہوا ہے،اصطلاحاً نہیں ۔ تاہم جب کہ مجدد معصوم عن الخطا نہیں ہوتا اور مہدیِ موعود کا معصوم عن الخطا ہونا ضروری ہے تو پھر اس بیّن فرق کے ہوتے ہوئے مہدیِ موعود کو مجدد کی فہرست میں کیسے شمارکیا جاسکتا ہے؟
جواب

اوّل تو خود لفظ’’مہدی‘‘پر غور کرنا چاہیے جو حدیث میں استعمال کیا گیا ہے۔ حضورﷺ نے مہدی کا لفظ استعمال فرمایا ہے، جس کے معنی ہیں ہدایت یافتہ کے،’’ہادی‘‘ کا لفظ استعمال نہیں کیا ہے۔ مہدی ہر وہ سردار،لیڈر اور امیر ہوسکتا ہے جو راہ راست پر ہو۔’’المہدی‘‘زیادہ سے زیادہ خصوصیت کے لیے استعمال ہو گا جس سے آنے والے کی کسی خاص امتیازی شان کا اظہار مقصود ہے۔ اور وہ امتیازی شان حدیث میں اس طرح بیان کر دی گئی ہے کہ آنے والا خلافت علیٰ منہاج النبوۃ کا نظام درہم برہم ہوجانے اور ظلم وجَور سے زمین کے بھرجانے کے بعد ازسر نو خلافت کومنہاج نبوت پر قائم کرے گا اور زمین کو عدل سے بھر دے گا۔بس یہی چیز ہے جس کی وجہ سے اس کومختص وممتاز کرنے کے لیے’’مہدی‘‘پر’’ال‘‘ داخل کیا گیا ہے۔ لیکن یہ سمجھنا بالکل غلط ہے کہ مہدی کے نام سے دین میں کوئی خاص منصب قائم کیا گیا ہے جس پر ایمان لانا اور جس کی معرفت حاصل کرنا ویسا ہی ضروری ہو جیسا انبیا پر ایمان لانا، اور اس کی اطاعت بھی شرطِ نجات اور شرطِ اسلام وایمان ہو۔نیز اس خیال کے لیے بھی حدیث میں کوئی دلیل نہیں ہے کہ مہدی کوئی امامِ معصوم ہوگا۔ دراصل یہ معصومیت ِ غیر انبیا کا تخیل ایک خالص شیعی تخیل ہے جس کی کوئی سند کتاب وسنت میں موجود نہیں ہے۔
یہ اچھی طرح سمجھ لینا چاہیے کہ جن چیزوں پر کفر واسلام کا مدار ہے،اور جن اُمور پر انسان کی نجات موقوف ہے،انھیں بیان کرنے کا اﷲ تعالیٰ نے خود ذمہ لیا ہے۔ وہ سب قرآن میں بیان کی گئی ہیں اور قرآن میں بھی ان کو کچھ اشارۃً ’’وکنایتاً‘‘بیان نہیں کیا گیا ہے بلکہ پوری صراحت اور وضاحت کے ساتھ ان کو کھول دیا گیا ہے۔اﷲ تعالیٰ خود فرماتا ہے کہ اِنَّ عَلَیْنَا لَلْھُدٰی({ FR 2171 }) (اللیل:۱۲ ) لہٰذا جو مسئلہ بھی دین میں یہ نوعیت رکھتا ہو،اس کا ثبوت لازماًقرآن ہی سے ملنا چاہیے۔مجرد حدیث پر ایسی کسی چیز کی بنا نہیں رکھی جاسکتی جسے مدار کفر وایمان قرار دیا جائے۔ احادیث چند انسانوں سے چند انسانوں تک پہنچتی ہوئی آئی ہیں جن سے حد سے حد اگر کوئی چیز حاصل ہوتی ہے تو وہ گمانِ صحت ہے نہ کہ علمِ یقین اور ظاہر ہے کہ اﷲ تعالیٰ اپنے بندوں کو اِ س خطرے میں ڈالنا ہرگز پسند نہیں کرسکتا کہ جو اُمور اس کے دین میں اتنے اہم ہوں کہ ان سے کفر وایمان کا فرق واقع ہو تا ہو،انھیں صرف چند آدمیوں کی روایت پرمنحصر کردیا جائے،ایسے اُمور کی نوعیت ہی اس امر کی متقاضی ہے کہ اﷲ تعالیٰ ان کو صاف صاف اپنی کتاب میں بیان فرمائے، اﷲکا رسولﷺ انھیں اپنے پیغمبرانہ مشن کا اصل کام سمجھتے ہوئے اُن کی تبلیغ عام کرے اور وہ بالکل غیر مشتبہ طریقے سے ہر ہر مسلمان تک پہنچا دیے گئے ہوں ۔
اب ’’مہدی‘‘ کے متعلق خواہ کتنی ہی کھینچ تان کی جائے،بہرحال ہر شخص دیکھ سکتا ہے کہ اسلام میں اس کی یہ حیثیت نہیں ہے کہ اس کے جاننے اور ماننے پر کسی کے مسلمان ہونے اور نجات پانے کا انحصار ہو۔ یہ حیثیت اگر اس کی ہوتی تو قرآن میں پوری صراحت کے ساتھ اس کاذکر کیا جاتا اور نبیﷺ بھی دو چار آدمیوں سے اس کو بیان کردینے پر اکتفا نہ فرماتے بلکہ پوری اُمت تک اسے پہنچانے کی سعی بلیغ فرماتے اور اس کی تبلیغ میں آپؐ کی سعی کا عالم وہی ہوتا جو ہمیں توحید اور آخرت کی تبلیغ کے معاملے میں نظر آتا ہے۔ درحقیقت جو شخص علومِ دینی میں کچھ بھی نظر اور بصیرت رکھتا ہو، وہ ایک لمحے کے لیے بھی یہ باور نہیں کرسکتا کہ جس مسئلے کی دین میں اتنی بڑی اہمیت ہو اسے محض اخبار احاد پر چھوڑا جاسکتا تھا،اور اخبار احاد بھی اس درجے کی کہ امام مالکؒ اور امام بخاریؒ اورامام مسلمؒجیسے محدثین نے اپنے حدیث کے مجموعوں میں سرے سے ان کا لینا ہی پسند نہ کیا ہو۔
(ترجمان القرآن، مارچ،جون۱۹۴۵ء)