نجس اور حرام اشیا کی تجارت

, , ,

یہاں آگر ہ کے ایک حافظ صاحب ہیں جو کہتے ہیں کہ نجس چیزوں کی تجارت جائز ہے۔ سور کو وہ نجس کہتے ہیں لیکن اس کو پالنے اور اس کی چربی وغیرہ کی تجارت کو جائز کہتے ہیں۔ ہم لوگ اس کو ناجائز سمجھتے ہیں لیکن دلیل دینے سے قاصر ہیں۔ آپ مہربانی کرکے صحیح صورت حال سے آگاہ کریں اور دلیل بھی دیں۔

جواب

آپ نے حافظ صاحب کی طرف جو بات منسوب کی ہے مجھے اس پر یقین نہیں آرہا ہے۔ کیوں کہ دین دار گھرانوں کے ذی شعور بچے تک یہ جانتے ہیں کہ سور نجس العین اور حرام قطعی ہے۔اس کی خریدوفروخت بھی حرام ہے۔اس کا گوشت کھانا بھی حرام ہے۔ اور اس کو بیچنا اور خریدنا بھی حرام ہے۔ اسی طرح چربی اورکھال وغیرہ کی خریدوفروخت بھی حرام ہے۔ اس کو اپنے گھر پالنے کا تو کوئی مسلمان جو واقعی مسلمان ہے، خیال بھی نہیں کرسکتا۔اگر حافظ صاحب نے واقعی اس کو جائز کہا ہے تو اس کےمعنی یہ ہیں کہ وہ شرعی مسائل سے بالکل ناواقف ہیں۔ بخاری ومسلم کی حدیث میں آتا ہے کہ مکہ میں فتح کے سال نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’اللہ تعالیٰ نے شراب،مردار،سوراور بتوں کی بیع کو حرام قراردیا ہے۔لوگوں نے پوچھا۔ مردار کی چربی سے کشتیوں کو لیپنایاچراغوں میں اس کو جلانا کیسا ہے؟ آپؐ نے فرمایا کہ یہ بھی حرام ہے۔ پھر آپ نے فرمایا کہ اللہ نے یہودیوں پرلعنت کی کیوں کہ جب ان پر چربی حرام کی گئی تو اس کو پگھلاکر فروخت کرنا شروع کردیا۔‘‘
اس حدیث کی بناپر تمام ائمہ متفق ہیں کہ شراب،مردار،سور اور بتوں کی بیع حرام ہے۔ ایک حدیث میں یہ بھی آتا ہےکہ اللہ نے کھانے پینے کی جس چیز کو حرام قراردیا ہے اس کی بیع بھی حرام قراردی ہے۔ (نومبر۱۹۷۰ء،ج۴۵،ش۵)