نماز ِ تراویح کا مخصوص طریقہ

ہمارے شہر کی ایک مسجد میں گزشتہ تین سالوں سے رمضان کی طاق راتوں میں تراویح کی نماز اس طرح پڑھائی جاتی ہے کہ ہر چار رکعت کے بعد تقریباً ایک گھنٹے کا وقفہ دیا جاتا ہے، جس میں مختصر بیان ہوتا ہے اور مختلف اذکار پڑھائے جاتے ہیں ۔ مثلاً کبھی سورۂ یٰسٓ کی آیات، کبھی ایک ہی سانس میں بلند آواز سے ’’اللہ اللہ‘‘ اور کبھی ’’ربی اسمی شیء اللّٰہ نبی محمد صلی علی‘‘ پڑھایا جاتا ہے۔ درمیان میں مسجد ہی میں چائے پلائی جاتی ہے۔ اس طرح تراویح کی نماز ختم ہوتی ہے تو کچھ دیر کے بعد تہجد کی نماز باجماعت پڑھائی جاتی ہے۔ اس طرح سے سحری کا وقت ہوجاتا ہے۔ سحری کا نظم بھی مسجد میں ہوتا ہے۔ ان اعمال کے سلسلے میں لوگوں میں اختلاف پیدا ہوگیا ہے۔ کچھ لوگوں نے ان اعمال کو پسند نہیں کیا۔ اس مسجد میں عورتیں بھی تراویح کی نماز کے لیے آتی ہیں ۔ ان میں سے کچھ نے شکایت کی کہ تراویح کی نماز اس طرح سحری تک نہ پڑھائی جائے۔ جب کہ کچھ لوگ اس کے حق میں یہ دلیل دیتے ہیں کہ رمضان عبادت کا مہینا ہے۔ اس طرح لوگ فجر تک مسجد ہی میں رہتے ہیں اور انھیں زیادہ سے زیادہ عبادت، ذکر و دعا اور دینی بیان سننے کا موقع ملتا ہے۔ جب امام صاحب سے اس بارے میں بات کی جاتی ہے تو وہ خفا ہوجاتے ہیں اور مسجد چھوڑ کر چلے جانے کی بات کرتے ہیں ۔ بہ راہِ کرم وضاحت فرمائیں ، مذکورہ بالا اعمال اور تراویح کا طریقہ کہاں تک درست ہے؟ کیا لوگوں کو فجر تک عبادت میں مشغول رکھنے کے لیے اس طرح تراویح پڑھنا صحیح ہے؟ یہ بھی بتائیں کہ نماز ِ تہجد باجماعت پڑھنا کیسا ہے؟
جواب

ماہِ رمضان المبارک میں نماز ِ تراویح مسنون ہے۔ اللہ کے رسول ﷺ نے کئی راتوں میں اس کا اہتمام کیا تھا اور مسجد ِ نبوی میں صحابۂ کرام کے ساتھ باجماعت اس کو ادا فرمایا تھا۔ مگر پھر اس اندیشے سے کہ کہیں وہ فرض نہ ہوجائے، ترک کردیا تھا۔ حضرت عمر بن الخطابؓ نے بعد میں اپنے عہد ِ خلافت میں اس کا اجراء فرمایا اور تمام صحابۂ کرامؓ نے اس سے اتفاق کیا۔
نماز ِ تراویح دو دو رکعتیں کرکے ادا کی جاتی ہے۔ ہر چار رکعت کے بعد کچھ دیر وقفہ کیا جاتا ہے۔ اسے ترویحہ کہتے ہیں ۔ اسی بنا پر پوری نماز کو ’تراویح‘ کہا جاتا ہے۔ ترویحہ کو حسب ِ ضرورت مختصر یا طویل کیا جاسکتا ہے۔ اس میں ذکر و تذکیر کرنا چاہیے۔ گزشتہ چار رکعات میں پڑھی گئی آیات کا خلاصہ بھی بیان کیا جاسکتا ہے۔یہ بھی مناسب ہے کہ نماز ِ تراویح کے اختتام پر، قرآن کریم کا جتنا حصہ پڑھا گیا ہے، پورے کا خلاصہ ایک ساتھ بیان کردیا جائے۔ نماز ِ تراویح کا وقت وہی ہے، جو نماز ِ عشاء کا ہے۔ یعنی اسے ابتدائی ایک تہائی شب میں ادا کرنا افضل ہے۔ البتہ اس کی ادائی طلوعِ فجر تک ہوسکتی ہے۔ حضرت ابو ذرؓ بیان کرتے ہیں کہ ایک مرتبہ ہم نے نبی ﷺ کے ساتھ شب میں جماعت سے نماز پڑھی۔ آپؐ نے اتنی دیر تک نماز پڑھائی کہ ہمیں اندیشہ ہونے لگا تھا کہ کہیں ہماری سحری نہ چھوٹ جائے۔ (ابو داؤد: ۱۳۷۵، النسائی: ۱۳۶۴، ۱۶۰۵، ابن ماجہ: ۱۳۲۷)
لیکن ایسا اسی صورت میں کرنا چاہیے، جب تمام نمازی اس پر متفق ہوں ۔ مسجد میں آنے والے اور نماز ِ تراویح میں شریک ہونے والے ہر طرح کے لوگ ہوتے ہیں ۔ بوڑھے، کم زور، بیمار، مزدور، تجارت پیشہ، خواتین وغیرہ۔ ان کے لیے پوری رات جاگنا دشواری کا باعث ہوگا۔ اللہ کے رسول ﷺ نے نماز کے معاملے میں نمازیوں کی رعایت کرنے کی سخت تاکید کی ہے اور اس کا لحاظ نہ کرنے والوں پر اپنے انتہائی غضب کا اظہار کیا ہے۔ حضرت معاذ بن جبلؓ اپنے قبیلے کی مسجد میں امامت کرتے تھے۔ عشاء کی نماز میں وہ طویل قرأت کرتے تھے، جس کی بنا پر ان کی نماز طویل ہوجاتی تھی۔ ایک شخص نے رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں جاکر اس کی شکایت کی۔ اس نے عرض کیا: ’’اے اللہ کے رسول! ہم دن میں مختلف کام کرتے ہیں ۔ اپنے جانوروں کے ذریعے کھیت سینچتے ہیں ۔ معاذؓ رات کی نماز بہت طویل پڑھاتے ہیں ، جس کی وجہ سے ہمیں دشواری ہوتی ہے۔ گزشتہ رات میں نے جماعت میں شریک ہونے کے بہ جائے انفرادی طور پر مختصر نماز پڑھ لی تو انھوں نے مجھے منافق کہہ دیا۔‘‘ اللہ کے رسول ﷺ نے حضرت معاذؓ کو بلا بھیجا اور ان کی سرزنش کرتے ہوئے فرمایا: افتّان انت یا معاذ! (اے معاذ! کیا تم فتنہ پیدا کرنے والے ہو؟) یہ بات آپ نے تین بار دہرائی۔ (بخاری: ۷۰۱، ۶۱۰۶، مسلم: ۴۶۵)
ایک دوسری روایت حضرت ابو مسعودؓ سے مروی ہے کہ ایک شخص نے نبی ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوکر شکایت کی: میں صبح کی نماز جماعت سے اس لیے نہیں پڑھتا، کیوں کہ امام صاحب بہت لمبی نماز پڑھاتے ہیں ۔ راوی بیان کرتے ہیں کہ یہ سن کر آپؐ نے سخت غصے کا اظہار فرمایا۔ اتنے غصے میں اس سے پہلے کبھی میں نے آپ کو نہیں دیکھا تھا۔ آپؐ نے فرمایا:
یٰٓـاَیُّھَا النَّاسُ اِنَّ مِنْکُمْ مُنَفِّرِیْنَ فَاَیُّکُمْ مَا صَلّٰی بِالنَّاسِ فَلْیَتَجَوَّزْ فَاِنَّ فِیْھِمُ الْمَرِیْضَ وَالْکَبِیْرَ وَ ذَا الْحَاجَۃِ۔
(بخاری: ۶۱۱۰، مسلم: ۴۶۶)
’’لوگو! تم میں سے بعض لوگ دوسروں کو متنفر کرنے والے ہیں ۔ تم میں سے جو شخص امامت کرے، اسے نماز مختصر پڑھانی چاہیے، اس لیے کہ مقتدیوں میں مریض، بوڑھے اور ضرورت مند ہوتے ہیں ۔‘‘
جب فرض نمازوں میں مقتدیوں کی رعایت کرنے اور انھیں مختصر پڑھانے کی اتنی تاکید ہے تو ان کا لحاظ کیے بغیر پوری رات میں نماز ِ تراویح کو طویل کرنا کیوں کر پسندیدہ قرار دیا جاسکتا ہے؟
نماز ِ تراویح کے وقفوں کے دوران مسنون اذکار کا اہتمام کرنا چاہیے۔ آپ نے لکھا ہے کہ بلند آواز سے ’’ربی اسمی۔۔۔‘‘ پڑھا جاتا ہے۔ یہ ذکر پتا نہیں کہاں سے ایجاد کرلیا گیا ہے۔ اس کی تو عبارت بھی صحیح نہیں ہے۔
نماز ِ تہجد نفل ہے اور نفل نماز جمہور فقہاء کے نزدیک انفرادی طور پر اور باجماعت دونوں طرح ادا کی جاسکتی ہے۔ نبی ﷺ سے نفل نماز کی ادائی بعض مواقع پر جماعت کے ساتھ ثابت ہے۔ احناف کے نزدیک رمضان کے علاوہ دیگر ایام میں نقل کی باجماعت ادائی مکروہ ہے۔ (الموسوعۃ الفقھیۃ، کویت، ۲۷/۱۶۹)