جواب
وَ قَرْنَ فِیْ بُیُوْتِکُنَّ (اپنے گھروں میں سکون سے ٹکی رہو) کا مطلب یہ نہیں ہے کہ عورت گھر کے اندر ہی بند رہے اور گھر سے باہر نہ نکلے، اس میں جس بات کی ممانعت ہے وہ یہ ہے کہ عورت اس طرح گھر نہ چھوڑ بیٹھے کہ اس کا نظام ہی ابتر ہوکر رہ جائے۔ عہدِ رسالت میں خواتین مسجد آیا کرتی تھیں ، بازار میں بھی ان کی آمد و رفت رہتی تھی، کھیتی باڑی اور بعض دوسرے کاموں کے لیے گھر سے نکلتی تھیں ۔ حج اور عمرے کے لیے جایا کرتی تھیں ۔ کسی نے اس پر نکیر نہیں کی۔ بلکہ حج تو استطاعت کی شرط کے ساتھ مرد کی طرح عورت پر بھی فرض ہوجاتا ہے۔ اسلام نے گھر کا داخلی نظم عورت کے سپرد کیا ہے۔ اس کی ذمے داری ہے کہ گھر کو سکون، حفاظت اور راحت کا ذریعہ بنائے اور ایسا طرزِ عمل نہ اختیار کرے جس سے معلوم ہو کہ اس کا مرکزِ توجہ گھر نہیں بلکہ بازار، دفتر یا کارخانہ ہے۔ اس کے بعد اگر وہ کسی دینی یا دنیوی ضرورت کے تحت گھر سے باہر نکلتی ہے تو غلط نہیں ہے۔ اسے ’ وَ قرْنَ فِیْ بُیُوْتِکُنَّ‘ کی خلاف ورزی نہیں کہا جائے گا۔