کائناتی اور حیاتی ارتقا

آپ نے رسالہ ’’ترجمان القرآن’’ جلد۴، عدد۶، صفحہ ۳۹۶ تا۳۹۷ میں اسلامی تہذیب اور اس کے اُصول ومبادی کے زیر عنوان نظام عالم کے انجام کے متعلق جو کچھ تحریر فرمایا ہے،اسے سمجھنا چاہتا ہوں ۔آپ نے لکھا ہے کہ ’’اس نظام کے تغیرات وتحولات کا رُخ ارتقا کی جانب ہے۔ ساری گردشوں کا مقصود یہ ہے کہ نقص کو کمال کی طرف لے جائیں ۔‘‘ وغیرہ۔ آخر یہ کس قسم کا ارتقا ہے؟ حیوانی زندگی میں ؟ جماداتی یا انسانی زندگی میں ؟ یا مجتمعا تمام نظامِ عالم کی زندگی میں یہ ارتقا کار فرما ہے؟ نیز اگر ہر بگاڑ سے ارتقائی اصلاح ظاہر ہوتی ہے تو پھر تو وہی بات ہوئی جو ہیگل نے thesis and antithesis اور ڈارون نےsurvival of the fittest میں پیش کی ہے۔براہِ کرم مدعا کی وضاحت کیجیے۔
جواب

جس ارتقا کا میں نے ذکر کیا ہے،وہ ہیگل اور ڈارون دونوں کے نقطۂ نظر سے مختلف ہے۔ ہیگل تو تصورات اور خیالات کی نزاع کا ذکر کرتا ہے اور کہتا ہے کہ اسی نزاع کی بدولت تصورات کا ارتقا ہوتا ہے اور ڈارون حیات کے ارتقا کا ذکر کرتا ہے اور اس کے نزدیک یہ ارتقا تنازع للبقائ (struggle for existance)، انتخاب طبعی(natural selection) اور بقاے اصلح(Survival of the Fittest) کے اصول سہ گانہ کے ماتحت واقع ہوتا ہے۔ اس کے برخلاف میں نے آپ کی دریافت کردہ عبارت میں جو بات کہی ہے وہ یہ ہے کہ قدرت الٰہی کم تر درجے کی چیزوں سے تخلیق کی ابتدا کرکے بتدریج بلند تر درجے کی چیزیں پیدا کرتی رہی ہے۔مثلاً جمادات پہلے پیدا کیے گئے،اس کے بعد نباتات،پھر حیوانات، اور حیوانات میں بھی کم تر درجے کے حیوانات پہلے پیدا کیے گئے اور پھر بتدریج اعلیٰ قسم کے حیوانات پیدا کیے جاتے رہے، یہاں تک کہ بلند ترین نوع یعنی انسان کو پیدا کیا گیا۔قدرت کا یہی قاعدہ اس عالم پر بحیثیت مجموعی بھی جاری ہونا چاہیے،یعنی موجودہ نظام عالم بحیثیت مجموعی ناقص ہے، لہٰذا اس کے بعد ایک دوسرا نظامِ عالم ہونا چاہیے جو اس سے کامل تر ہو، اور اسی نظام کا نام عالمِ آخرت ہے۔ گویامیرے نزدیک موجودہ نظامِ عالم کے بعد عالمِ آخرت کا آنا قدرت کے قانون ارتقا کا ایک لازمی تقاضا ہے۔
(ترجمان القرآن ، جنوری فروری۱۹۴۵ء)