کیا رسول صرف مصلح تھے؟

میرےایک رشتہ دار جو لا مذہب ہوچکے ہیں ، رسولﷺ کو ایک مصلح(reformer) سے زیادہ درجہ دینے کے لیے تیار نہیں ۔ البتہ انھیں وہ نیک اور غیر معمولی قابلیت کا انسان بھی سمجھتے ہیں ۔وضاحت فرمائیں ۔
جواب

رسول ﷺ کے بارے میں ان کے خیالات متضاد ہیں ۔ ایک طرف وہ رسولﷺ کو نیک آدمی بھی کہتے ہیں ، جس سے لازم آتا ہے کہ وہ اس کو سچا آدمی بھی مانیں (اِلاّ یہ کہ ان کے نزدیک کوئی جھوٹا آدمی بھی نیک ہوسکتا ہو) اور دوسری طرف وہ رسولؐ کے اس دعوے کو جھوٹ بھی قرار دیتے ہیں کہ وہ محض ریفارمر نہیں ہے بلکہ خدا کی طرف سے رسولؐ بنا کر بھیجا گیا ہے۔ایک صحیح العقل آدمی ان دونوں باتوں کو جمع نہیں کر سکتا۔ اسے معلوم ہونا چاہیے کہ محمد رسول اﷲﷺ نے تئیس( ۲۳) سال تک اپنی زندگی کا ہر لمحہ اپنے مخالفین کے مقابلے میں ایک ایسی جدوجہد (struggle) کرتے ہوئے گزارا ہے جس کی بنیاد ہی یہ تھی کہ آپ اپنی رسالت کے مدعی تھے اور آپؐ کے مخالفین اسی بات کو نہ ماننا چاہتے تھے۔ اب ایک شخص کے لیے محمد رسول اﷲ ﷺ کے بارے میں دو ہی رویے اختیا رکرنا معقول ہو سکتا ہے۔ ایک یہ کہ اگر وہ ان کو سچا آدمی سمجھتا ہے تو ان کو رسول مانے۔ دوسرے یہ کہ وہ اگر ان کو رسول نہیں مانتا تو معاذ اﷲ، انھیں بدترین جھوٹ اور فریب کا مرتکب خیال کرے۔ ان دونوں باتوں کے درمیان ایک تیسری راہ اختیار کرنا اور یہ کہنا کہ وہ سچے آدمی بھی تھے اور رسول بھی نہ تھے، سراسر غیر معقول بات ہے۔
اس کے جواب میں ایسے لوگوں کی جانب سے زیادہ سے زیادہ دو باتیں کہی جاسکتی ہیں ۔ ایک یہ کہ محمد رسول اﷲﷺ نے محض اصلاح کی خاطر رسالت کا دعویٰ کردیا تاکہ وہ خدا کے نام سے وہ احکام تسلیم کراسکیں جو وہ اپنے نام سے پیش کرکے نہ منوا سکتے تھے۔ دوسرے یہ کہ وہ اپنے اس دعوے میں مخلص تو تھے مگر حقیقت میں رسول نہ تھے۔ بلکہ اس غلط فہمی میں مبتلا ہوگئے تھے کہ وہ رسول ہیں ۔
ان میں سے پہلی بات جو شخص کہتا ہے ،وہ میرے نزدیک اخلاقی حیثیت سے بڑا خطرناک آدمی ہے، جس سے ہر شریف انسان کو ہوشیار ہونا چاہیے اس لیے کہ اگر ہم اس کے اس خیال کا تجزیہ کریں تو صریحاً یہ معلوم ہوتاہے کہ اس شخص کے نزدیک نیک مقصد کے لیے برا طریق کار اختیار کرنا نہ صرف یہ کہ جائزہے بلکہ قابل وقعت(respectable) بھی ہے،اسی وجہ سے وہ ایسے آدمی کو مصلح اور نیک آدمی سمجھتا ہے جس نے اس کے خیال میں محض اصلاح کرنے کے لیے(نعوذ باﷲ) دعواے رسالت جیسا عظیم الشان فریب گھڑ لیا تھا۔اس طرح کے گھٹیا نظریات رکھنے والے آدمی سے کچھ بعید نہیں ہے کہ کل وہ کسی اچھے مقصد کے لیے( جس کو وہ اچھا سمجھتا ہو) کسی کے ہاں چوری کر ڈالے، یا کوئی جعلی دستاویز بنالے،یا اور کسی گھنائونے اخلاقی جرم کا مرتکب ہوجائے۔ کیوں کہ جب اس کے نزدیک ایک فریبی اس بِنا پر نیک اور مصلح ہوسکتاہے کہ اس نے اصلاح کے لیے فریب کاری کی ہے، تو آخر وہ خود اچھے مقاصد کے لیے جرائم کرنے سے کب باز رہ سکتا ہے۔
دوسری بات جو شخص کہتا ہے وہ عقلی حیثیت سے اتنا ہی پست ہے جتنا اوپر والی بات کہنے والا اخلاقی حیثیت سے پست ہے۔زیادہ سے زیادہ رعایت(allowance) دیتے ہوئے ایسے شخص کے متعلق جو کچھ ہم کہہ سکتے ہیں ، وہ یہ ہے کہ یہ شخص بہت بڑے مسائل پر بہت کم سوچ کر اظہار راے کردینے کا مریض ہے۔اس لیے کہ اگر وہ اس کم عقلی میں مبتلا نہ ہوتا تو کبھی اس بات کو ممکن خیال نہ کرتا کہ ایک شخص اتنا عقیل وفہیم بھی ہو کہ اسے تاریخ انسانی کے بلند ترین اور کام یاب ترین لیڈروں میں شمار کرنے سے اس کے مخالفین بھی انکار نہ کرسکیں ،اور دوسری طرف وہ اپنے بارے میں ۲۳ سال تک مسلسل اتنی بڑی غلط فہمی میں مبتلا رہے اور اپنا سارا کام اسی غلط فہمی کی بنیاد پر چلاتا رہے،بلکہ آئے دن قرآن کی پوری پوری سورتیں خود تصنیف کرکرکے دنیا کو سناتا رہے اور پھر بھی وہ اس غلط فہمی میں پڑا ہوا ہو کہ یہ سورتیں میرے اوپر خدا کی طرف سے نازل ہورہی ہیں ۔ میرے نزدیک تو اس بات کو ممکن اور معقول سمجھنے والے آدمی کی اپنی عقل ہی مشتبہ ہے۔ اس کی عقل درست ہوتی تو وہ خود جان لیتا کہ اس طرح کی غلط فہمی صرف مجنون آدمیوں کو لاحق ہوا کرتی ہے، اور کسی مجنون آدمی سے وہ کمال درجے کے مدبرانہ اور حکیمانہ کارنامے صادر نہیں ہوسکتے جو محمد رسول اﷲﷺ سے صادر ہوئے ہیں ۔ (ترجمان القرآن، جون۱۹۶۲ء)