جواب
فوٹو کے متعلق اصولی بات یہ سمجھ لینی چاہیے کہ اسلام جان دار چیزوں کی مستقل شبیہ محفوظ کرنے کو بالعموم روکنا چاہتا ہے، کیوں کہ انسانی تاریخ کا طویل تجربہ ثابت کرتا ہے کہ یہ چیز اکثر فتنے کی موجب بنی ہے۔ اب چوں کہ اصل فتنہ صورت کا محفوظ ہونا ہے، لہٰذا اس سے بحث نہیں کی جائے گی کہ اس کو کس طریقے سے محفوظ کیا جاتا ہے۔ طریقہ خواہ سنگ تراشی کا ہو یا مُوے قلم یا عکاسی کا یا کوئی جو آئندہ ایجاد ہو،بہرحال وہ ناجائزہی رہے گا۔ کیوں کہ یہ سارے طریقے اصل فتنے کا سبب بننے میں یکساں ہیں ۔ پس فوٹو گرافی اور مصوری میں کوئی فرق نہیں کیاجاسکتا۔ اور ممانعت چوں کہ جان دار اشیا کی تصویروں کی ہے، اس لیے تمام تصویریں حرام رہیں گی،خواہ وہ فحش ہوں یا غیر فحش۔البتہ فحش تصویر میں ایک وجہ حرمت کی اور بڑھ جاتی ہے۔
اس عام حکم کے اندر اگر کوئی استثنا ہے تو وہ صرف یہ ہے کہ جہاں تصویر لینے کا کوئی حقیقی تمدنی فائدہ ہو، یا جب کہ تصویر کسی بڑی تمدنی مصلحت کے لیے ناگزیر ہو تو صرف اس غرض کو پورا کرنے کی حد تک یہ فعل جائز ہوگا۔ مثلاً پاسپورٹ،پولیس کا مجرموں کی شناخت کے لیے تصویریں محفوظ کرنا، ڈاکٹروں کا علاج کے لیے یا فنِ طب کی تعلیم کے لیے مریضوں کی تصویریں لینا، اورجنگی اغراض کے لیے فوٹو گرافی کا استعمال۔({ FR 1429 })یہ اور دوسرے استعمالات حکمِ عام سے مستثنیٰ قرار پائیں گے، بشرطیکہ وہ غرض جس کے لیے اس استثنا سے فائدہ اُٹھایا جارہا ہو،بجاے خود حلال ہو۔ لیکن لیڈروں کی تصویریں اور جلسے اور جلوسوں کی تصویریں کسی طرح بھی جائز اور حقیقی ضرورت کی تعریف میں نہیں آتیں ۔ خصوصاًلیڈروں کی تصویریں تو بندگانِ خدا کو اس خطرے سے بہت ہی قریب پہنچا دیتی ہیں جس کی وجہ سے تصویر کو حرام قرار دیا گیا ہے۔ یہ کانگریس کے اجلاس میں گاندھی جی کا باون فٹ لمبا فوٹو، یہ پولینڈ پر روسی قبضے کے بعد ہی اسٹالن کی تصویروں کاپولینڈ کے ایک ایک گائوں میں درآمد کیا جانا، یہ روس میں ہر جگہ اسٹالن اور پولٹ بیورو کے ارکان کے تصویروں کا لوگوں کے سروں پر مسلط رہنا، یہ جرمن سپاہیوں کا ہٹلر کی تصویر کو سینے سے لگائے پھرنا اور پھر ہسپتال میں مرتے وقت اس کی تصویر کو آنکھوں سے لگا کر جان دینا،یہ سینما میں شاہ انگلستان کی تصویر سامنے آتے ہی لوگوں کا کھڑا ہوجانا، یہ سکّوں پر بادشاہ کی تصویر کا بطور علامتِ حاکمیت ثبت کیا جانا،کیایہ سب بت پرستی کی جڑیں نہیں ہیں ؟
آخر اِسی لیے تو اسلام نے تصویر کو حرام کیا ہے کہ انسان کے دل ودماغ پر خدا کے سوا کسی دوسرے کی کبریائی کا نقش قائم نہ ہونے پائے۔ میں تو چھوٹے بچوں کی تصویریں لینے کو بھی اسی لیے حرام سمجھتا ہوں کہ معلوم نہیں ان بچوں میں آگے چل کر کس کو خدا بنالیا جائے اور اس کی تصویر فتنے کی موجب بن جائے۔ کنھیّا جی کی بچپن کی تصویر آج تک پج رہی ہے۔ لہٰذا آپ اپنے دوست کو سمجھا دیجیے کہ ان کا پیشہ شریعت کے نقطۂ نظر سے جائزنہیں ہے۔اگر وہ خدا کا خوف رکھتے ہیں تو بتدریج اس پیشے کو چھوڑ کر کوئی دوسرا ذریعۂ معاش تلاش کرلیں ۔اور اگر یہی کام کرنا چاہتے ہیں تو اسے خواہ مخواہ حلال بنانے کی کوشش نہ کریں ۔اخلاقی تنزل کا بدترین مرتبہ یہ ہے کہ آدمی جس گناہ میں مبتلا ہو،اسے جھوٹی تاویلوں سے ثواب ٹھیرالے۔اس گڑھے میں گرنے کے بعد پھر آدمی کے سنبھلنے کا کوئی امکان باقی نہیں رہتا۔
(ترجمان القرآن ، جولائی،اگست۱۹۴۳ء)