قرآن وحدیث میں بہت سے ایسے اُمور بیان ہوئے ہیں جنھیں زمانۂ حال کی تحقیقات غلط قرار دیتی ہیں ۔ اس صورت میں ہم قرآن وحدیث کو مانیں یا علمی تحقیق کو؟ مثلاً: قرآن کہتا ہے کہ نوع انسانی آدمؑ سے پیداہوئی،بخلاف اس کے علماے دورِ حاضر کا دعویٰ یہ ہے کہ انسان حیوانات ہی کے کنبے سے تعلق رکھتا ہے اور بندروں اور بن مانسوں سے ترقی کرتے کرتے آدمی بنا ہے۔
جواب

مجھے تو اپنی پچیس سالہ علمی تحقیق وتفتیش کے دوران میں آج تک ایک مثال بھی ایسی نہیں ملی ہے کہ سائنٹی فِک طریقے سے انسان نے کوئی حقیقت ایسی دریافت کی ہو جو قرآن کے خلاف ہو۔البتہ سائنس دانوں یا فلسفیوں نے قیاس سے جو نظریے قائم کیے ہیں ،ان میں سے متعدد ایسے ہیں جو قرآن کے بیانات سے ٹکراتے ہیں ۔ لیکن قیاسی نظریات کی تاریخ خوداس بات پر شاہد ہے کہ ایک وقت جن نظریات کو حقیقت سمجھ کر ان پر ایمان لایا گیا،دوسرے وقت خود وہی نظریات ٹوٹ گئے اور آدمی ان کے بجاے کسی دوسری چیز کو حقیقت سمجھنے لگا۔ ایسی ناپائدار چیزوں کو ہم یہ مرتبہ دینے کے لیے تیار نہیں ہیں کہ قرآن کے بیانات سے ان کی پہلی ٹکر ہوتے ہی قرآن کو چھوڑ کر ان پر ایمان لے آئیں ۔ ہمارا ایمان اگر متزلزل ہوسکتا ہے تو صرف اس صورت میں جب کہ کسی ثابت شدہ حقیقت سے،یعنی ایسی چیز سے جو تجربہ ومشاہدہ سے ثابت ہوچکی ہو، قرآن کا کوئی بیان غلط قرار پائے۔مگر جیساکہ اوپر لکھ چکا ہوں ، ایسی کوئی چیز آج تک میرے علم میں نہیں آئی ہے۔
اب فرداًفرداً ان چیزوں کے متعلق کچھ عرض کردوں جنھیں آپ نے مثال میں پیش کیا ہے:
ڈارون کا نظریۂ ارتقا اس وقت تک محض نظریہ ہے،ثابت شدہ حقیقت نہیں ۔علی گڑھ، جہاں سے آپ یہ خط لکھ رہے ہیں ،ایک علمی مرکز ہے۔وہاں اس نظریے پر ایمان لانے والوں کی اچھی خاصی تعداد آپ کو ملے گی۔آپ خود انھی سے پوچھ لیجیے کہ یہ نظریہ (theory) ہے یا واقعہ (fact)؟ اگر ان میں سے کوئی صاحب اسے واقعہ قرار دیں تو ذرا ان کا اسم گرامی مجھے بھی لکھ بھیجیے۔ (ترجمان القرآن،ستمبر،اکتوبر۱۹۴۵ء)