جواب
کسی شخص کا انتقال ہو( خواہ وہ مرد ہو یا عورت) تو اس کی مملوکہ تمام چیزیں اس کے ورثہ میں تقسیم ہوں گی۔ سوال میں جس مرحومہ خاتون کا تذکرہ ہے انھوں نے دورانِ ملازمت جو کچھ کمایا ، ان کی شادی کے وقت والد نے جو زیور انہیں بہ طور تحفہ دیا، شوہر نے مہر کی شکل میں انہیں جو زیور دیا، وہ سب ان کی ملکیت سمجھے جائیں گے۔ بینک اکاؤنٹ میں بہ طورnominee اگرچہ ان کے والد صاحب کا نام ہے، لیکن صرف وہی اکاؤنٹ میں موجود رقم کے مالک نہیں سمجھے جائیں گے، بلکہ تمام ورثہ کا اس میں حصہ ہوگا۔
ورثہ میں مرحوم کی ایک بیٹی، ماں اور باپ ہیں ۔ بیٹی کا حصہ نصف(۵۰% ) اور ماں کا حصہ چھٹا(۷ء۱۶فی صد)ہوگا۔ باقی (۳ء۳۳%) باپ کو ملے گا۔ خاتون کی وراثت میں اس کی ساس اور سسر کا کچھ حصہ نہ ہوگا۔
آئندہ زندگی میں نابالغ لڑکی سے دو امور متعلق ہیں : ایک حضانت یعنی بچی کو اپنے پاس رکھ کر پرورش کرنے کا حق اور دوسرا کفالت ، یعنی بچی کے اوپر خرچ کرنے کی ذمے داری۔ فقہا نے حضانت کا حق رکھنے والوں کی جو ترتیب بنائی ہے اس میں ماں کے بعد نانی کا نمبر آتا ہے، اس کے بعد دادی کا،البتہ کفالت کی ذمے داری باپ یا اس کے خاندان والوں کی ہے۔ بہر حال مقاصد ِ شریعت کا تقاضا ہے کہ حقوق کی کش مکش اور ذاتی پسند ناپسند سے اوپر اٹھ کر اس کا لحاظ کیا جائے کہ بچے یا بچی کی پرورش کہاں اور کس کے پاس رہ کر اچھے طریقے سے ہوسکتی ہے؟ اس لیے زیادہ مناسب یہ ہوگا کہ لڑکی کے ددھیال اور ننہیال والے باہم مشاورت کرکے لڑکی کے حق میں جو بہتر ہو اس پر اتفاق کرلیں ۔