یک حدیث پڑھی ،جس میں ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے زکام کا علاج کرنے سے منع فرمایا ہے اوراس کی وجہ یہ بتائی ہے کہ اس سے جذام کی بیماری دور ہوتی ہے۔ حدیث نقل کرنے والے نے آگے لکھا ہے کہ حکما حضرات بھی زکام کا فوری علاج بہتر نہیں سمجھتے ، بلکہ کچھ دنوں کے بعد علاج کرنے کا مشورہ دیتے ہیں ۔ براہِ کرم بتائیں ، کیا یہ حدیث صحیح ہے؟اور ا س کے مطابق زکام کا فوراً علاج نہیں کرنا چاہیے۔
جواب

آج کل سوشل میڈیا پر مختلف باتیں بغیر تحقیق کے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی جانب منسوب کرکے پھیلائی جارہی ہیں ۔ یہ درست رویّہ نہیں ہے ۔ خود تحقیق کی جائے، یا کسی معتبر شخص سے دریافت کرلیا جائے، پھر جب حدیث کی صحت کا اطمینان ہوجائے تبھی اسےعام (Forward)کرنا چاہیے۔
مذکورہ روایت ام المؤمنین حضرت عائشہؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
مَامِنْ اَحَدٍ اِلاَّ وَفِی رَأسِہِ عِرْقٌ مِنَ الجُذَامِ تَنْعَرُ، فَاِذَا ہَاجَ سَلَّطَ اللہُ عَلَیْہِ الزُّکَامَ، فَلاَ تَدَاوُوْالَہ۔
’’ ہر انسان کے سر میں جذام (کوڑھ ) کی جوش مارنے والی ایک رگ ہوتی ہے۔ جب وہ جوش مارتی ہے تو اللہ تعالیٰ اس پر زکام مسلّط کردیتا ہے ۔ لہٰذا زکام کاعلا ج مت کرو‘‘۔
اسے امام حاکمؒ نے اپنی کتاب المستدرک علی الصحیحین (۸۲۶۲) میں روایت کیا ہے ، لیکن یہ موضوع یعنی من گھڑت روایت ہے۔ اسے علامہ ابن الجوزیؒ نے اپنی کتاب ’الموضوعات‘ (۳؍۲۰۵) میں اورعلامہ البانی نے اپنی کتاب’ سلسلۃ الاحادیث الضعیفۃ والموضوعۃ‘ (۱۹۰) میں درج کیا ہے ۔ اس کی سند میں ایک راوی محمد بن یونس الکدیمی متّہم ہے ۔ یہ حدیثیں گھڑتا تھا۔