بہ راہ کرم زکوٰۃ کے سلسلے میں چند سوالات کے جوابات سے نوازیں : (۱) اب عموماً سرکاری ملازمین کامشاہرہ ان کے اکاؤنٹ میں پہنچ جاتا ہے۔ اس طرح ہر ماہ اکاؤنٹ میں رقم آتی رہتی ہے اور حسب ِ ضرورت خرچ ہوتی رہتی ہے۔ زکوٰۃ کا حساب کیسے کیا جائے گا اور زکوٰۃ کس رقم پر دیں گے؟ (۲) اکاؤنٹ میں انٹرسٹ کی رقم بھی شامل رہتی ہے۔ کیا زکوٰۃ کا حساب کرتے وقت انٹرسٹ کی رقم کو منہا کرکے حساب کیا جائے گا؟ اگر کوئی شخص اکاؤنٹ کی کل رقم بہ شمول انٹرسٹ کے حساب سے زکوٰۃ نکال دے تو وہ گناہ گار ہوگا؟
جواب

(۱) ایک سال کی ابتدا اور اختتام پر اگر کوئی شخص نصاب زکوٰۃ کا مالک ہے تو درمیان ِ سال میں اس کے مال میں کمی بیشی سے کوئی فرق نہیں پڑے گا۔ ہاں اگر سال کے درمیان میں کسی وقت اس کا مال بالکل ختم ہوگیا ہو تو اس پر زکوٰۃ واجب نہ ہوگی اور دوبارہ نصاب ِ زکوٰۃ کا مالک بننے کے بعد از سر نو سال گزرنے کا حساب کیا جائے گا۔
مثال کے طور پر ایک شخص ہر سال رمضان میں اپنی زکوٰۃ نکالتا ہے۔ گزشتہ سال اس کے پاس ایک لاکھ روپے تھے۔ چھے ماہ کے بعد اس نے یہ پوری رقم کسی کام میں خرچ کرلی۔ کچھ دنوں بعد پھر اس کے پاس ایک لاکھ روپے آگئے تو اس رمضان میں اس پر زکوٰۃ عائد نہ ہوگی۔ جب تک کہ دوبارہ حاصل شدہ اس رقم پر ایک سال نہ گزر جائے۔
لیکن اگر سال کے درمیان کسی وقت پوری رقم خرچ نہیں ہوئی ہے، اس کا کچھ حصہ باقی رہا ہے تو سال کے آخر میں جتنی رقم ہوگی اس کے حساب سے زکوٰۃ دینی ہوگی۔
مثال کے طور پر اگر کسی شخص کے پاس سال کی ابتدا میں ایک لاکھ روپے تھے۔ درمیان ِ سال اس میں سے کچھ رقم خرچ ہوتی رہی اور کچھ رقم کا اضافہ ہوتا رہا۔ یہاں تک کہ سال کے آخر میں اس کے پاس تین لاکھ ہیں تو اب اسے تین لاکھ روپے کی زکوٰۃ ادا کرنی ہوگی۔ یہ اضافہ شدہ رقم اصل نصاب کے تابع ہوگی۔
یہ حکم احناف کے نزدیک ہے۔ شافعیہ کے نزدیک اضافہ شدہ رقم پر بھی سال کا گزرنا ضروری ہے، تبھی اس پر زکوٰۃ عائد ہوگی۔ (۱)
(۲) بینک انٹرسٹ کو عموماً علماء نے ’ربوٰ‘ (سود) قرار دیا ہے، جسے اسلامی شریعت میں حرام کہا گیا ہے۔ اس لیے اس کا حساب رکھنا چاہیے اور انٹرسٹ کی رقم کو اپنے ذاتی کاموں میں نہ استعمال کرنا چاہیے۔ لیکن اگر کوئی شخص انٹرسٹ کی رقم کو منہا کیے بغیر اکاؤنٹ کی رقم سے حساب کرکے زکوٰۃ نکال دے تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔ ظاہر ہے، انٹرسٹ کی رقم کو منہا کرکے وہ حساب کرتا تو زکوٰۃ کی جو رقم نکلتی، منہا کیے بغیر حساب کرنے سے زکوٰۃ کی رقم اس سے زیادہ بنے گی۔ لیکن یہ اچھی طرح سمجھ لینا چاہیے کہ ایسا کرنے سے نہ انٹرسٹ کی رقم اس کے لیے پاک ہوجائے گی اور نہ اس زائد نکالی گئی رقم کو انٹرسٹ کی رقم میں ایڈجسٹ کرنا اس کے لیے روا ہوگا۔