ڈاڑھی کے متعلق نبی ﷺ کی احادیث ِ صحیحہ موجود ہیں جن میں آپؐ نے ڈاڑھی بڑھانے کا حکم فرمایا ہے۔اس سے لازم آتا ہے کہ ڈاڑھی کو مطلقاً بڑھایاجائے۔آپ کترنے کی گنجائش نکالنا چاہیں تو زیادہ سے زیادہ یہ کرسکتے ہیں کہ ابن عمرؓکی روایت کے بموجب ایک مشت تک کٹوا دیں ۔اس سے زیادہ کم کرنے کی گنجائش نظر نہیں آتی۔ باقی جو آپ نے تحریر فرمایا ہے کہ صحابہؓ وتابعین کے حالات میں ان ڈاڑھیوں کی مقدارکا ذکرکہیں شاذ ونادر ہی ملتا ہے، جو اس بات کا ثبوت ہے کہ سلف میں یہ مسئلہ اتنی اہمیت نہیں رکھتاتھا جو آج اسے دے دی گئی ہے، تو اس کے متعلق گزارش ہے کہ اصل میں قرونِ ماضیہ میں لوگ اس کے اس قدر پابند تھے کہ اس کے متعلق کچھ کہنے کی ضرورت ہی نہ تھی۔آپ کو معلوم ہے کہ آج سے چند سال پہلے عام مسلمان ڈاڑھی کے نہ صرف مونڈوانے بلکہ کتروانے تک کو نفرت کی نگاہ سے دیکھتے تھے۔ پس اس چیز کی وقعت اور قدر لوگوں کے دلوں سے کم نہ کیجیے بلکہ بحال رہنے دیجیے۔
Archives: فتاوی
ڈاڑھی کی مقدار کا مسئلہ
ڈاڑھی کی مقدار کے عدم تعین پر’’ترجمان‘‘میں جو کچھ لکھا گیا ہے،اس سے مجھے تشویش ہے،کیوں کہ بڑے بڑے علما کا متفقہ فتویٰ اس پر موجود ہے کہ ڈاڑھی ایک مشت بھر لمبی ہونی چاہیے اور اس سے کم ڈاڑھی رکھنے والا فاسق ہے۔آپ آخر کن دلائل کی بِنا پر اس اجماعی فتوے کو ردکرتے ہیں ؟
لباس ، چہرے اور سر کے بالوں کی شرعی وضع
مطالبہ کیا جاتا ہے کہ صحیح معنوں میں مسلمان بننے کے لیے آدمی کو لباس اور چہرے کی اسلامی وضع قطع اختیار کرنی چاہیے۔براہِ کرم بتایئے کہ اس سلسلے میں اسلام نے کیا احکام دیے ہیں ؟
ڈاڑھی کی اہمیت اور فوجی ملازمت
میں نے ایئر فورس میں پائلٹ کے لیے امتحان دیا تھا۔ میڈیکل ٹیسٹ اور انٹرویو کے بعد بحمد اﷲ امتحان اور کھیلوں میں بھی کام یاب ہوا۔ مگر بغیر وجہ بتائے ہوئے مجھے مسترد کردیا گیا۔ اب کئی لوگوں نے مجھے بتایا کہ تم صرف ڈاڑھی نہ منڈوانے کی وجہ سے رہ گئے تھے مگر مجھے یقین نہ آیا۔
اب دسمبر میں میں نے پی۔ ایم۔ اے کے لیے امتحان دیا۔ پہلے انٹرویو میں کمیٹی کے ایک بریگیڈیئر صاحب نے مجھے بتایا کہ تم پہلی دفعہ کوہاٹ میں صرف ڈاڑھی کی وجہ سے رہ گئے تھے۔ اور یہ بھی کہا کہ پاکستانی فوج کے افسر ڈاڑھی والے کیڈٹ کو پسند نہیں کرتے اور کوشش یہ ہوتی ہے کہ ایسا کوئی آدمی نہ لیا جائے۔ہاں بعد میں اجازت لے کر ڈاڑھی رکھی جاسکتی ہے۔اس کے بعد میں نے تحریری امتحان دیا اور اس میں کام یاب ہوا۔اب اس کے بعد میڈیکل ہوگا اور اس کے بعد کوہاٹ جانا پڑے گا۔اس وجہ سے میرے پانچ بھائی اور اب والد صاحب پیچھے پڑے ہوئے ہیں کہ ڈاڑھی کو صاف کرائو۔مگر میں عزت، عہدے اور روپے کے لیے ایسا کام کرنے کو تیار نہیں ہوں ۔ میں اپنی حالت میں رہ کریا تجارت کروں گا اور یا مزید تعلیم حاصل کرکے اسلام کی خدمت کرنا چاہتا ہوں ۔کیوں کہ ان ملازمتوں سے میرے مذہبی احساسات مجروح ہوں گے۔میں زیادہ دیر تک صبر نہیں کرسکتا۔ مگر قبل اس کے کہ آخری فیصلہ کروں ،میں آپ سے مشورہ لینا ضروری سمجھتا ہوں ۔آپ کتاب وسنت کی روشنی میں میری راہ نمائی کریں ۔میں آپ کا بہت ممنون ہوں گا۔
ڈاڑھی کی وجہ سے سماجی بائیکاٹ کا سامنا
میں بغرضِ تعلیم اسی سال… چلاگیا تھا۔ ڈاڑھی رکھ کر گھر واپس آیا تو تمام دوست و احباب نے تنگ کرنا شروع کردیا۔حتیٰ کہ خود والد مکرم بھی بہ شدت مجبور کررہے ہیں کہ ڈاڑھی صاف کرا دو،کیوں کہ اس کی وجہ سے تم بڑے بوڑھے معلوم ہوتے ہو۔اگر اصرار سے کام لو گے تو ہم تم سے کوئی تعلق نہ رکھیں گے۔ گھر سے نکلنے پر دوست بہت تنگ کرتے ہیں ۔ اس لیے مجبوراً خانہ نشینی اختیار کرلی ہے۔ لیکن ستم تو یہ ہے کہ اب چند اصحاب کی طرف سے یہ پیغام ملا ہے کہ اگر آٹھ یوم میں ہمارا مطالبہ پورا نہ کیا گیا یعنی ڈاڑھی نہ منڈوائی گئی تو تمام برادری سے متفقہ بائیکاٹ کرایا جائے گا۔بڑی عمر میں بشوق رکھ لینا، مگر اب اگر تم رکھو گے تو زبردستی سے کام لیا جائے گا۔میں ڈاڑھی کو پابندیِ احکام شریعت میں بہت ممد پاتا ہوں ۔مثلاً مجھے سینما بینی کا شوق تھا مگر ڈاڑھی رکھنے کے بعد سینما ہال میں جانے سے شرم معلوم ہوتی ہے ۔لیکن جب مخالفین کے دلائل سنتا ہوں تو کبھی کبھی یہ شبہہ ہوتا ہے کہ شاید یہی لوگ ٹھیک کہتے ہیں ۔ مگر پھر یہ جذبہ کا م کرنے لگ جاتا ہے کہ چاہے پوری دنیا میری مخالفت پر اُتر آئے، میرے رویے میں کوئی تبدیلی نہ ہو گی۔ لِلّٰہ میری راہ نمائی کیجیے تاکہ مجھے اطمینان نصیب ہو۔
ڈاڑھی کے بارے میں اکثر مسلمانوں کے سوچنے کا انداز یہ ہے کہ ڈاڑھی صرف علما اور مولانا حضرات کو زیب دیتی ہے۔ نبی اکرمﷺ کے زمانے میں عام طور پر ڈاڑھی رکھی جاتی تھی اس لیے اکثریت ڈاڑھی رکھنے میں عار نہ سمجھتی تھی۔ مگر اب انسان کے لباس وآراستگی میں کافی فرق واقع ہوچکا ہے۔ چہرے بغیر ڈاڑھی کے پررُونق وبارُعب نظر آتے ہیں ۔ کیا ایسے حالات میں ہر مسلمان کے لیے ڈاڑھی رکھنا لازم ہے؟ براہِ کرم اس معاملے میں ذہن کو یکسو اور مطمئن فرمائیں ۔
ڈاڑھی کی اہمیت
میں نے ڈاڑھی رکھ لی ہے۔میرے کچھ ایسے رشتہ دار جوعلم دین سے کافی واقف ہیں ،وہ اعتراض کرتے ہیں کہ ڈاڑھی فرض نہیں ہے،قرآن میں اس کے متعلق کوئی حکم نہیں ملتا،ڈاڑھی نہ رکھی جائے تو کون سا گناہ کبیرہ ہے۔یہ رسولؐ کی سستی محبت ہے۔آپ فرمایے کہ میں انھیں کیا جواب دوں ؟
دجّال کا مقید ہونا
رسائل ومسائل ] سوال نمبر۳۳۹ [ میں آپ نے لکھا ہے کہ ’’یہ کانا دجّال وغیرہ تو افسانے ہیں جن کی کوئی شرعی حیثیت نہیں ہے۔‘‘ ان الفاظ سے متبادر یہی ہوتا ہے کہ آپ سرے سے دجّال ہی کی نفی کررہے ہیں ۔ اگرچہ اسی کتاب کے دوسرے ہی صفحے پر آپ نے توضیح کردی ہے کہ جس چیز کو آپ نے افسانہ قرار دیا ہے وہ بجاے خود دجّال کے ظہور کی خبر نہیں بلکہ یہ خیال ہے کہ وہ آج کہیں مقید ہے،لیکن کیا یہ اچھا نہ ہوگا کہ آپ مقدم الذکر عبارت ہی میں ترمیم کردیں ،کیوں کہ اس کے الفاظ ایسے ہیں جن پر لوگوں کو اعتراض کرنے کا موقع مل جاتا ہے۔
دجّال کا ظہور
ترجمان القرآن میں کسی صاحب نے سوال کیا تھا کہ’’کانے دجّال کے متعلق مشہور ہے کہ وہ کہیں مقید ہے،تو آخر وہ کون سی جگہ ہے؟آج دنیا کا کونہ کونہ انسان نے چھان مارا ہے‘ پھر کیوں کانے دجّال کا پتا نہیں چلتا؟‘‘ ]سوال نمبر۳۳۹ [ اس کاجواب آپ کی طرف سے یہ دیا گیا ہے کہ ’’کانا دجّال وغیرہ تو افسانے ہیں جن کی کوئی شرعی حیثیت نہیں ہے۔‘‘ لیکن جہاں تک مجھے معلوم ہے،کم ازکم تیس روایات میں دجّال کا تذکرہ موجود ہے، جس کی تصدیق بخاری، مسلم، ابودائود، ترمذی،شرح السنہ، بیہقی کے ملاحظہ سے کی جاسکتی ہے۔پھر آپ کا جواب کس سند پر مبنی ہے؟
دجّال
’’کانا دجّال‘‘ کے متعلق مشہور ہے کہ وہ کہیں مقید ہے، تو آخر وہ کون سی جگہ ہے؟ آج تو دنیا کا کونہ کونہ انسان نے چھان مارا ہے، پھر کیوں کانے دجّال کا پتا نہیں چلتا؟