نزولِ مسیح ؑ اور ظہور ِ مہدی

حضرت امام مہدی ؈ اور حضرت مسیح ؈ کے صعود یا نزول کے متعلق آپ کا کیا عقید ہ ہے۔ کیا مسیح؈ اور مہدی ؈ ایک ہی وقت میں نازل ہوں گے یاعلیحدہ علیحدہ وقتوں میں تبلیغ اسلام کریں گے؟ کیا امام مہدی ؈اور مسیح؈ ایک ہی وجود میں نازل ہوں گے یا علیحدہ علیحدہ وجود میں ؟ اگر وہ ایک ہی وقت میں نازل ہوں گے تو وہ اپنا امیر کس کو بنائیں گے؟ اور ان میں کون دوسرے کی بیعت کرے گا اور کیوں ؟ کیا مسیح ؈ نبی اﷲ ہوں گے؟اگر ایسا ہے تو ان پر وحی ہونا لازم ہے یا نہیں ؟اور وہ کس عقیدے کی تبلیغ کریں گے؟کیا اسلام کی یا عیسائیت کی؟

بیعتِ مہدی کے وقت آسمان سے ندا کا آنا

کتاب ’’علامات قیامت‘‘ (مؤلفہ مولانا شاہ رفیع الدین صاحب و مترجمہ مولوی نور محمد صاحب) میں امام مہدی کے متعلق مسلم وبخاری کے حوالے سے چند روایات درج ہیں ،لیکن تحقیق کرنے پر مسلم وبخاری میں مجھے اس قسم کی کوئی حدیث نہ مل سکی۔اسی کتاب میں ایک روایت یہ بھی درج ہے کہ بیعتِ مہدی کے وقت آسمان سے یہ ندا آئے گی کہ ھَذَا خَلِیْفَۃُ اللّٰہِ الْمَہْدِیّ فَاسْتَمِعُواَلہُ وَأَطِیْعُوا، اس روایت کے متعلق آپ کی تحقیق کیاہے؟

مہدی موعود: جدید طرز کا لیڈر

آپ نے فرمایا ہے کہ مہدی موعود جدیدترین طرز کا لیڈر ہوگا…وغیرہ!آپ کے ان الفاظ کی کوئی سند احادیث میں نہیں ہے۔اگر ہو تو تحریر فرمائیں ۔جو لوگ آپ کے برعکس خیالات رکھتے ہیں ،ان کی واقعاتی دلیل یہ ہے کہ اب تک جتنے مجددانِ اُمت گزرے ہیں ، وہ عموماً صوفیہ کرام کے طبقے میں ہوئے ہیں ۔

چند حضرات نے جو نہایت دین دار اور مخلص ہیں ، ’’تجدید واحیاے دین‘‘ کی ان سطور کے متعلق جو آپ نے امام مہدی کے متعلق تحریرفرمائی ہیں ،احادیث کی روشنی میں اعتراضات پیش فرمائے ہیں ،جنھیں آپ کے سامنے پیش کررہا ہوں ۔یہ میں اس احساس کے ساتھ لکھ رہا ہوں کہ دعوت اقامت دین کے پورے کام میں شریعت کی پابندی ضروری ہے،پس لازم ہے کہ ہر وہ چیز جو آپ کے قلم سے نکلے،عین شریعت کے مطابق ہو اور اگر کبھی کوئی غلط راے تحریر میں آئے تو اس سے رجوع کرنے میں کوئی تأمل نہ ہونے پائے۔
امام مہدی کے متعلق جوسطور آپ نے صفحہ۳۱ تا۳۳ تحریر فرمائی ہیں ،وہ ہمارے فہم کے مطابق احادیث کے خلاف ہیں ۔اس سلسلے میں مَیں نے ترمذی اور ابودائود کی تمام روایات کا مطالعہ کیا ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ بعض روایات کے راوی ضرور خارجی یا شیعہ ہیں ، لیکن ابودائود، ترمذی وغیرہ کے ہاں ایسی صحیح احادیث بھی موجود ہیں جن کے راوی ثقہ اور صدوق ہیں اور وہ آپ کی راے کی تصدیق نہیں بلکہ تردید کرتی ہیں ۔مثلاًابودائود کی روایت ملاحظہ ہو:
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى… عَنْ أُمِّ سَلَمَةَ زَوْجِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: يَكُونُ اخْتِلَافٌ عِنْدَ مَوْتِ خَلِيفَةٍ فَيَخْرُجُ رَجُلٌ مِنْ أَهْلِ الْمَدِينَةِ هَارِبًا إِلَى مَكَّةَ فَيَأْتِيهِ نَاسٌ مِنْ أَهْلِ مَكَّةَ فَيُخْرِجُونَهُ وَهُوَ كَارِهٌ فَيُبَايِعُونَهُ بَيْنَ الرُّكْنِ وَالْمَقَامِ وَيُبْعَثُ إِلَيْهِ بَعْثٌ مِنْ أَهْلِ الشَّامِ فَيُخْسَفُ بِهِمْ بِالْبَيْدَاءِ بَيْنَ مَكَّةَ وَالْمَدِينَةِ فَإِذَا رَأَى النَّاسُ ذَلِكَ أَتَاهُ أَبْدَالُ الشَّامِ وَعَصَائِبُ أَهْلِ الْعِرَاقِ فَيُبَايِعُونَهُ بَيْنَ الرُّكْنِ وَالْمَقَام…({ FR 2143 })
اس روایت سے لے کر اخیر روایت تک ملاحظہ ہو،تمام راوی ثقہ ہیں ۔ نیز بیہقی کی بھی ایک روایت مشکاۃ کی ’’کتاب الفتن‘‘ میں تحریر ہے:
عَنْ ثَوْبَانَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: إِذَا رَأَيْتُمْ الرَّايَاتِ السُّودَ قَدْ جَاءَتْ مِنْ خُرَاسَانَ فَأْتُوهَا، فَإِنَّ فِيهَا خَلِيفَةَ اللَّهِ الْمَهْدِيَّ۔({ FR 1926 })
مندرجۂ بالا احادیث سے آپ کے اس بیان کی تردید ہوتی ہے کہ المہدی کو اپنے موعود ہونے کی خبر نہ ہوگی۔خصوصاً یہ الفاظ ملاحظہ ہوں :
وَجَبَ عَلَى كُلِّ مُؤْمِنٍ نَصْرُهُ، أَوْ قَالَ: إِجَابَتُهُ({ FR 1927 })
نیز ترمذی کی ایک روایت کے یہ الفاظ بھی دیکھیے:
قَالَ فَيَجِيءُ إِلَيْهِ رَجُلٌ فَيَقُولُ يَا مَهْدِيُّ أَعْطِنِي أَعْطِنِي قَالَ فَيَحْثِي لَهُ فِي ثَوْبِهِ مَا اسْتَطَاعَ أَنْ يَحْمِلَهُ۔({ FR 1928 })

المہدی کی علامات اور نظامِ دین میں اس کی حیثیت

ظہور مہدی کے متعلق آ پ نے رسالہ’’ تجدید واحیاے دین‘‘ میں جو کچھ لکھا ہے،اس میں اختلاف کاپہلو یہ ہے کہ آپ مہدیِ موعود کے لیے کوئی امتیازی واختصاصی علامات تسلیم نہیں کرتے،حالاں کہ احادیث میں واضح طور پر علاماتِ مہدی کا تذکرہ موجود ہے۔ آخر ان روایات سے چشم پوشی کیسے کی جاسکتی ہے؟

مہدی کے معنیٰ،اُن کا کام اور حیثیت

بعثت مہدی کی ضرورت کو’’تجدید واِحیاے دین‘‘ میں تسلیم کرلیا گیا ہے،لیکن مہدی کا کیا کام ہوگا،اس مسئلے کو نقلی تائید کے بغیر محض اپنے لفظوں میں بیان کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ احادیث شریفہ کی روشنی میں اس کی تفصیل کی جائے تو مناسب ہے۔نیز مہدیِ موعود کے مراتب وخصوصیات اور اطاعتِ مہدی وغیرہ پر کوئی بحث نہیں کی گئی ہے،بلکہ عام مجددین میں شمار کردیا گیاہے۔اگرچہ مجدّد کامل اور مجدد ناقص کی تقسیم سے یہ معلوم ہوسکتا ہے کہ غالباً یہاں ’’مجدد‘‘کا لفظ بربناے لغت استعمال ہوا ہے،اصطلاحاً نہیں ۔ تاہم جب کہ مجدد معصوم عن الخطا نہیں ہوتا اور مہدیِ موعود کا معصوم عن الخطا ہونا ضروری ہے تو پھر اس بیّن فرق کے ہوتے ہوئے مہدیِ موعود کو مجدد کی فہرست میں کیسے شمارکیا جاسکتا ہے؟

مباہلہ ومناظرہ

میرے ایک عزیز نے جو ایک دینی مدرسے کے فارغ ہیں ،مجھ سے یہ دریافت کیا ہے کہ مولانا مودودی دعوت مباہلہ ومناظرہ کو کیوں قبول نہیں کرتے حالاں کہ نبیﷺ نے خود یہود سے مباہلہ کرنے کا فیصلہ کیا تھا،اور انبیا وسلف صالحین بھی مناظروں میں شریک ہوتے رہے ہیں ۔ مخالفین بار بار آپ کو چیلنج کرتے ہیں لیکن آپ ان سے نہ مباہلہ کرتے ہیں اور نہ ہی مناظرے کے لیے تیار ہوتے ہیں ۔میں نے اپنی حد تک اپنے عزیز کو مطمئن کرنے کی کوشش کی ہے اور ان سے کہا ہے کہ ہر مباہلے یا مناظرے کی دعوت قبول کرنا فرض سنت نہیں ہے، تاہم اگر آپ بھی اس بارے میں اپنا عندیہ بیان کردیں تو وہ مزید موجب اطمینان ہوگا۔

آپ نے رسائل ومسائل[سوال نمبر۳۳۰] میں ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے لکھا تھا کہ آپ کے نزدیک انگریزی طرز کے بال شرعاًممنوع نہیں ہیں ۔ آپ نے لکھا تھا کہ جو چیز ممنوع ہے وہ یا تو فعل قزع ہے یا وضع میں تشبّہ بالکفار ہے،اور انگریزی طرز کے بال ان دونوں کے تحت نہیں آتے۔ مگر آپ کا جواب بہت مختصر تھا اور اس میں آپ نے اپنے حق میں دلائل کی وضاحت نہیں کی۔ خصوصاً قزع کی جو تعریف آپ نے بتائی ہے ،اس کی تائید میں آپ نے کسی متعین حدیث یا اقوال صحابہ وائمہ میں سے کسی قول کو نقل نہیں کیا۔ اسی طرح عہد نبوی میں غیر مسلموں کے اجزاے لباس کے اختیار کیے جانے کا آپ نے ذکر تو کیا ہے لیکن وہاں بھی آپ نے کوئی حوالہ پیش نہیں کیا۔ بہتر یہ ہوگا کہ آپ متعلقہ حوالہ جات کو بھی ترجمان میں نقل کردیں تاکہ بات زیادہ صاف ہوجائے۔
آپ کی توضیح کے مطابق اس طرز کے بال رکھنا حرام تو نہیں لیکن آپ کا ذوق انھیں پسند بھی نہیں کرتا۔ کیا جو وضع اہل دین کے نزدیک ناپسندیدہ ہو مگر حرمت کے درجے میں نہ ہو، اس کی روک تھام کے لیے کوئی عملی تدابیر اختیار نہیں کی جا سکتیں ؟

سر کے بالوں کے وضع قطع کا حکم

آپ نے بعض استفسارات کے جواب میں فرمایا ہے کہ انگریزی طرز کے بالوں کو سر چڑھانا آپ پسند نہیں کرتے،کیوں کہ یہ غیر مسلم اقوام کی وضع ہے،تاہم آپ شرعاًاسے قابل اعتراض بھی نہیں سمجھتے۔ لیکن بعض علما اس وضع کو ناجائز خیال کرتے ہیں ۔آپ اگر ’ترجمان‘ میں اپنی تحقیق کی وضاحت کردیں تو دوسرے لوگ بھی مستفید ہوسکیں گے۔

حضرت ماریہؓپر زنا کا الزام اور حضرت علیؓ کا ردعمل

منکرین حدیث مسلم شریف کی ایک روایت پیش کرتے ہیں جس کا مضمون یہ ہے کہ ’’آں حضرت ﷺ کی اُم ولد ماریہ قبطیہ سے زنا کرنے کا الزام ایک شخص پر لگایا گیا۔ آپؐ نے حضرت علیؓ کو حکم دیا کہ ملزم کو قتل کر دیا جائے۔ چنانچہ جب حضرت علیؓ تلوار لے کر اُس شخص کو قتل کرنے گئے تو وہ غسل کررہا تھا۔ حضرت علیؓنے دیکھا کہ وہ مخنث تھا۔آپ واپس چلے آئے اور آں حضرت ﷺ کو یہ واقعہ سنادیا۔اس حدیث سے حسب ذیل سوالات پیدا ہوتے ہیں :
۱۔آں حضرت ﷺ نے محض الزام کی بنا پر، مقدمے کی کارروائی کیے بغیر اور ملزم کی صفائی سنے بغیر، اُس کے قتل کا حکم کیسے دیا؟حالاں کہ یہ اسلام کی مجموعی اسپرٹ اور ان احادیث کے خلاف ہے جن میں اسلام کا عدالتی نظام بیان ہوا ہے۔
۲۔ زنا کی سزا درّے ہے یا رجم( اگرچہ منکرین حدیث رجم کے قائل نہیں ) پھر قتل کی سزا مذکورہ مقدمے میں کیوں دی؟
۴۔ حضرت علیؓ نے ملزم کو برہنہ کیوں دیکھا؟ حالاں کہ آں حضرت ﷺ نے کسی کو برہنہ دیکھنے سے کئی احادیث میں منع فرمایا ہے۔
۴۔ حافظ ابن حجرؒ، ابن جوزیؒ، ملا علی قاریؒ اور دوسرے ناقدین حدیث نے جرح وتعدیل کے جو اُصول بیان کیے ہیں ، اس کسوٹی پر اس حدیث کا کیا مقام ہے؟اگر متقدمین اپنی پوری احتیاط کے باوجود بتقاضاے بشریت اس معاملے میں اس جگہ چوک گئے ہیں تو کیا متأخرین کو حق نہیں کہ وہ باوجود اہلیت کے اب اس نقص کو پوراکریں ؟
۵۔ اس حدیث کے متن پر غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ آں حضرت ﷺکا کلام نہیں ہے بلکہ کوئی راوی مقدمے کی کارروائی بیان کررہا ہے اور غالباً بعض تفصیلات کے متعلق اُس کو ذہول ہو گیا کہ وہ پوری کارروائی اپنے الفاظ میں بیان نہیں کرسکا۔