پچھلے دنوں جیل جانے کا اتفاق ہوا۔ مختلف الخیال لوگوں میں مقصد کی یکسانیت اور لگن تھی۔ درس قرآن اور نماز باجماعت کا انتظام تھا۔ لیکن افسوس ناک بات یہ ہے کہ ہمارے علما حضرات وہاں بھی فروعی مذہبی اختلافات میں مبتلا تھے۔ ہماری بیرک میں تین الگ الگ جماعتیں دیوبندی، بریلوی اور اہل حدیث حضرات کراتے تھے۔ میں نے دوستوں سے مشورہ کیا کہ علما حضرات کو مل کر ایک جماعت پر رضا مند کیا جائے۔ چنانچہ سب سے پہلے ایک دیوبندی عالم کے پاس گئے۔ انھیں میرے متعلق علم تھا کہ یہ جماعت اسلامی کا رکن ہے۔ ابھی تمہیداًکچھ باتیں ہو رہی تھیں کہ انھوں نے آپ کے بارے میں اعتراضات شروع کر دیے کہ مولانا مودودی صاحب نئی نئی باتیں نکال لاتے ہیں ، کسی پچھلے ترجمان میں مولانا نے لکھا ہے کہ واقعۂ معراج دن کی پوری روشنی میں رُونما ہوا تھا، حالانکہ قرآن کے بیان کے مطابق یہ واقعہ رات کے کسی حصے میں پیش آیا اور حدیث سے بھی ثابت ہے کہ (واقعۂ) معراج عشا اور فجر کے درمیان ہوا تھا،میں نے اس بارے میں اپنی لاعلمی کا اظہار کیا۔ چنانچہ اَلصَّلاَۃُ جَامِعَۃٌ ({ FR 2278 }) والا مقصد تو باتوں ہی میں ختم ہوگیا اور گفتگو آگے نہ بڑھ سکی۔
جیل سے واپسی پر میں نے ترجمان کے پچھلے پرچے دیکھے۔ جنوری ۱۹۷۷ء کے شمارے میں صفحہ۱۰ پر آپ کی تحریر دیکھی:
’’… رسول اللّٰہ ﷺ کو یہ مشاہدہ اندھیرے میں ، یا مراقبے کی حالت میں ، یا خواب میں ، یا نیم بے داری کی حالت میں نہیں ہوا تھا، بلکہ صبح روشن طلوع ہوچکی تھی، آپ پوری طرح بے دار تھے، کھلی فضا میں اور دن کی پوری روشنی میں اپنی آنکھوں سے یہ منظر ٹھیک اسی طرح دیکھ رہے تھے جس طرح کوئی شخص دنیا کے دوسرے مناظر دیکھتا ہے۔‘‘
اس سے معلوم ہوا کہ مولوی صاحب کا اعتراض اسی عبارت پر تھا۔ بہتر ہو کہ آپ اس کی وضاحت کر دیں ۔