مردے کو دفنانے کا طریقہ

مردے کو قبر میں دفن کرتے وقت تین مرتبہ مٹی ڈالی جاتی ہے اور اس کے ساتھ دعا بھی پڑھی جاتی ہے۔ بہ راہِ کرم اس کی شرعی حیثیت واضح فرمائیں ۔ کیا تین مرتبہ مٹی ڈالنا ضروری ہے؟ اس کے ساتھ جو دعا پڑھی جاتی ہے، کیا وہ اللہ کے رسول ﷺ سے ثابت ہے؟

مکان و جائیداد کی وصیت اور تقسیم میراث

میرے تین لڑکے اور تین لڑکیاں ہیں ۔ سب کی شادی ہوچکی ہے۔ بڑا لڑکا اور اس کی فیملی میرے ساتھ رہتی ہے۔ باقی دو لڑکے اپنا الگ الگ مکان بنوا کر رہ رہے ہیں ۔ میں نے انھیں الگ نہیں کیا ہے، بلکہ وہ اپنی مرضی سے الگ رہ رہے ہیں ۔ میں ریٹائرڈ پنشنر ہوں ۔ میرے ساتھ میری اہلیہ بھی ہیں ۔ بڑا لڑکا ہی ہمارے تمام اخراجات برداشت کرتا ہے۔ میری اہلیہ چار پانچ سال سے بیمار چل رہی ہیں ۔ بڑا لڑکا اور اس کی بیوی بچے دیکھ بھال کرتے ہیں اور آئندہ بھی کرتے رہنے کی امید ہے۔ دونوں لڑکے کبھی کبھی صرف دیکھنے آجاتے ہیں ، بس۔
میرے دو کشادہ مکان ہیں ۔ میں نے مکان کا تہائی حصہ اپنی بڑی بہو کے نام وصیت رجسٹرڈ کردیا ہے۔ میں اپنے بڑے لڑکے کی مزید مدد کرنا چاہتا ہوں ۔ کیا حق ِ خدمت کے طور پر میں یہ وصیت کرسکتا ہوں کہ جب سے میرے دوسرے لڑکے الگ ہوئے ہیں اس وقت سے میرے انتقال تک وہ میرے بڑے لڑکے کو بیس ہزار روپیہ سالانہ کے حساب سے دے کر ہی وہ مکان تقسیم کریں اور اپنا حصہ لیں ۔
بہ راہ کرم درج بالا مسئلہ میں رہ نمائی فرمائیں ۔ عین نوازش ہوگی۔

تقسیم میراث کی اہمیت

میرے والد صاحب کا انتقال ہوئے تین سال ہوگئے ہیں ۔ والدہ الحمد للہ ابھی حیات ہیں ۔ ہم پانچ بھائی اور دو بہنیں ہیں ۔ سبھی کی شادی ہوچکی ہے۔ ہم سب بھائی مشترکہ خاندان میں رہتے ہیں ۔ والد صاحب کے انتقال کے بعد ان کی میراث تقسیم نہیں ہوئی۔
براہ کرم رہ نمائی فرمائیں کہ کیا میراث تقسیم کرنی ضروری ہے؟ نہ تقسیم کرنے پر کیا وعیدیں ہیں ؟ میراث میں کس کا کتنا حصہ ہوگا؟ ہمارے تین مکانات ہیں ۔ کیا ایک یا دو مکانات فروخت کرکے ورثاء میں تقسیم کرسکتے ہیں ؟

میراث کے چند مسائل

ایک صاحب کا انتقال ہوگیا ہے۔ ان کے وارثوں میں صرف ان کی بیوی، ایک بیٹی اور ماں ہے۔ ان کے علاوہ اور کوئی رشتے دار نہیں ہے۔ ان کا ترکہ کیسے تقسیم ہوگا؟
براہِ کرم مطلع فرمایئے؟

ایک شخص کا انتقال ہوگیا۔ اس کے رشتے داروں میں صرف اس کی بیوی، باپ اور تین بھائی تھے۔ اس کی کوئی اولاد نہیں تھی۔ پندرہ دن کے بعد اس کے باپ کا بھی انتقال ہوگیا۔ اس کا ترکہ کیسے تقسیم ہوگا؟

میری اہلیہ کا چند دنوں قبل انتقال ہوگیا ہے۔ اس کے بینک اکاؤنٹ میں کچھ رقم ہے۔ میں چاہتا ہوں کہ شرعی اعتبار سے اس کی تقسیم ہوجائے۔ ہمارا ایک لڑکا اور دو لڑکیاں ہیں ۔ لڑکے اور بڑی لڑکی کی شادی ہوچکی ہے۔ چھوٹی لڑکی ابھی زیر تعلیم ہے۔ اہلیہ کے والدین کا انتقال ہوچکا ہے۔ بہ راہ کرم مطلع فرمائیں کہ بینک کی رقم کو کس طرح تقسیم کیا جائے؟

ہمارے ماما جان غلام رسول صوفی کا حال ہی میں انتقال ہوا ہے۔ ان کے اپنی کوئی اولاد نہیں ہے۔ انھوں نے کئی سال پہلے ایک بچی کو گود لیا تھا۔ اس کی پرورش کی اور جوان ہونے پر اس کی شادی اپنے بھانجے الطاف احمد سے کی۔ الطاف احمد کی بیوی طاہرہ کے ہاں دو لڑکے اقبال اور عامر پیدا ہوئے۔ طاہرہ شادی کے چند سال بعد فوت ہوگئی۔ چوں کہ غلام رسول اور ان کی بیوی عمر رسیدہ اور بیمار ہونے کی وجہ سے گھریلو کام کاج کرنے سے قاصر تھے، لہٰذا وہ دونوں میاں بیوی الطاف احمد کے یہاں رہنے لگے۔ تقریباً سات سال تک الطاف احمد کے گھر میں رہنے کے بعد غلام رسول کا انتقال ہوگیا۔ پس ماندگان میں ان کی بیوی سندری بیگم، اکلوتی بہن فاطمہ، جو کہ الطاف احمد کی ماں ہے اور ایک بھائی غلام محی الدین صوفی ہے۔ اس کے علاوہ غلام رسول کے دو مرحوم بھائیوں کی بھی اولادیں ہیں ، جو الگ سے اپنا گھر اور کاروبار چلاتے ہیں ۔ مرحوم غلام رسول نے اپنے پیچھے کچھ ملکیت چھوڑی ہے۔ از روئے شریعت یہ ملکیت کس طرح تقسیم ہوگی؟ اس سلسلے میں آپ کی رہ نمائی درکار ہے۔ امید ہے قرآن و سنت کے مطابق اس بارے میں رہ نمائی فرمائیں گے۔

ہمارے ایک عزیز کا ابھی حال میں انتقال ہوا ہے۔ ان کی جائداد ان کے وارثوں میں کس نسبت سے تقسیم کی جائے گی؟
وہ لا ولد تھے۔ ان کی اہلیہ اور ماں باپ کا انتقال پہلے ہوچکا ہے۔ ایک بھائی اور دو بہنیں اور ایک ماں شریک بہن تھیں ۔ وہ سب بھی فوت ہوگئے ہیں ۔ پس ماندگان میں صرف چار بھتیجے، چھے بھتیجیاں ، نو بھانجے اور دو بھانجیاں زندہ ہیں ۔ مرحوم نے اپنی زندگی میں ایک لڑکی کو گود لے لیا تھا، جس سے کوئی خونی رشتہ نہیں ہے۔ اس کے حق میں ایک تہائی سے کم کی وصیت موجود ہے۔
براہ کرم مندرجہ بالا تفصیل کے مطابق وراثت کی شرعی تقسیم سے مطلع فرمائیں ۔

میری پھوپھی کا ابھی حال میں انتقال ہوا ہے۔ ان کے ذاتی اکاونٹ میں کچھ رقم تھی۔ اس کی تقسیم کیسے عمل میں لائی جائے؟ واضح رہے کہ ان کی کوئی اولاد نہیں تھی۔ ان کے شوہر اور دو بہنیں حیات ہیں ۔ بھائیوں کا انتقال ہوچکا ہے، البتہ بھتیجے اور بھانجے ہیں ۔

میراث کی عدم تقسیم سے پیدا ہونے والے مسائل

میرے والد صاحب نے اپنے ذاتی سرماے سے ایک دوکان لگائی۔ اس سے پورے گھر کا خر چ چلتا تھا۔ انھوں نے اپنی معاونت کے لیے میرے ایک بھائی کو اور کچھ دنوں کے بعد دوسرے بھائی کو شریک کیا۔ چند سال قبل والد صاحب کا انتقال ہوگیا۔ ترکے کی تقسیم عمل میں نہیں آئی۔ بڑے بھائی اس دوکان کی آمدنی سے پورے گھر کا خرچ اٹھاتے رہے۔ لیکن اب وہ گھر کا خرچ اٹھانے سے انکار کر رہے ہیں ۔ ان کا کہنا ہے کہ دوکان سے ہونے والے منافع کے صرف وہی حق دار ہیں ، دوسرے بھائیوں کا اس میں کوئی حصہ نہیں ہے۔
دریافت طلب مسئلہ یہ ہے کہ کیا جو بھائی دوکان چلا رہا ہے صرف وہی کل منافع کا حق دار ہے یا وہ صرف اجرت کا مستحق ہے اور منافع میں تمام ورثاء شریک ہوں گے؟ وہ دوکان ایسی ہے کہ اگر اسے صرف کرایے پر اٹھا دیا جائے تو ماہانہ پچاس ہزار روپے کرایہ آسکتا ہے۔