خبر واحد کا مدار کفر وایمان نہ ہونا

رسائل ومسائل ] سوال نمبر۳۳۳ [ مہدی علیہ السلام پر بحث فرماتے ہوئے جناب نے تحریر فرمایا ہے کہ جو مسئلہ بھی دین میں ایسی نوعیت رکھتا ہو ،اس کا ثبوت لازماًقرآن ہی سے ملنا چاہیے۔ مجرد حدیث پر ایسی کسی چیز کی بنا نہیں رکھی جاسکتی جسے مدار کفر و ایمان قرار دیا جائے۔ احادیث چند انسانوں سے چند انسانوں تک پہنچتی ہوئی آئی ہیں جن سے حد سے حد اگر کوئی چیز ثابت ہوسکتی ہے تو گمان صحت نہ علم یقین۔ یہ قاعدۂ کلیہ جو آپ نے تحریر فرمایا ہے کیا اس سے خطرے میں نہیں پڑ جاتے؟کیا تعداد رکعات وسجود اورصلاۃ کی ہیئت کذائیہ جو قرآن میں مصرح نہیں ، ان کے انکار سے کفر لازم نہ آئے گا؟

غیر متواتر روایات کا حکم

میں نے پورے اخلاص و دیانت کے ساتھ آپ کی دعوت کا مطالعہ کیا ہے جس کے نتیجے میں یہ ا قرار کرتا ہوں کہ اُصولاًصرف جماعت اسلامی ہی کا مسلک صحیح ہے۔ آپ کے نظریے کو قبول کرنا اور دوسروں میں پھیلانا ہر مسلمان کا فرض ہے۔میرا ایمان ہے کہ اس دور میں ایمان کو سلامتی کے ساتھ لے چلنے کے لیے وہی راہ اختیار کی جاسکتی ہے جو جماعت اسلامی نے اختیار کی ہے۔ چنانچہ میں ان دنوں اپنے آپ کو جماعت کے حوالے کردینے پر تُل گیا تھا، مگر ’’ترجمان القرآن‘‘ میں ایک دو چیزیں ایسی نظر سے گزریں کہ مزید غور وتأمل کا فیصلہ کرنا پڑا۔میں نکتہ چیں اور معترض نہیں ہوں بلکہ حیران وسرگرداں مسافر کی حیثیت سے ،جس کو اپنی منزل مقصود کی محبت چین نہیں لینے دیتی، آپ سے اطمینان حاصل کرنا چاہتا ہوں ۔مشارالیہ مسائل کے متعلق میری گزارشات پر غور فرمائیں ۔
آپ نے تحریر فرمایا ہے کہ:’’مجرد حدیث پر ایسی کسی چیز کی بِنا نہیں رکھی جاسکتی جسے مدار کفر وایمان قرار دیا جائے۔ احادیث چند انسانوں سے چند انسانوں تک پہنچتی آئی ہیں جن سے حد سے حد اگر کوئی چیز حاصل ہوتی ہے تووہ محض گمانِ صحت ہے،نہ کہ علم الیقین‘‘۔
یہ عقیدہ، جہاں تک بندے کا خیال ہے ،محدثین کے بالکل خلاف ہے۔کتبِ اُصول میں بصراحت موجود ہے کہ جس طرح قرآن مجید مسلمانوں کے لیے قانونی کتاب ہے،اسی طرح حدیث، اور جس طرح قرآن مجید کے احکام،چاہے اصولی ہوں چاہے فروعی،ہمارے لیے حجت ہیں ،اسی طرح احادیث بھی حجت ہیں ۔آپ کے طرز تحریر سے کسی حد تک حدیث سے بے توجہی معلوم ہوتی ہے۔
اس شبہے پر اپنے خیالات سے آگاہ فرمایئے۔

حدیث کی ثقاہت کا معیار

تفہیم القرآن ،سورہ صٓ ح۳۶ صفحہ ۳۳۷ پر لکھا ہے کہ قوی سند کے باوجود حدیث مشتبہ ہوسکتی ہے اور ہے تو حدیث کی صحت کا معیار کیا رہا؟ صرف عقل سلیم؟ اگرچہ چند واقعات ہی سہی۔

حدیث کی تدوینِ جدید

قرآن کے بعد احادیث نبویہﷺ کو دینی حجت ماننے یا نہ ماننے میں ہمارے اہلِ فکر ونظر افراط وتفریط میں مبتلا ہیں ۔میرے خیال میں تفریط تو یہ ہے کہ ذخیرہ حدیث کو تاریخی روایات کی حیثیت دی جائے اور افراط یہ ہے کہ احادیث صحاح ستّہ میں قال رسول اﷲ ﷺ کے الفاظ سے جو کچھ بھی لکھا گیا ہو،اسے کلیتاً رسول اﷲ ﷺ کی سچی حدیث سمجھ لیا جائے اور اس پر دین واعتقاد کی عمارت کھڑی کرلی جائے۔ میں اپنی معلومات کی کمی اور فکر ونظر کی کوتاہی کی وجہ سے اس بارے میں کوئی نقطۂ اعتدال نہیں پاسکا، براہ کرم آپ ہی فرمایئے اور ان شبہات کو صاف کر دیجیے۔
کیا احادیث کی تحقیق وتنقیح اور راویوں کے حالات کی تفتیش کا کام اگلے محققین پر ختم ہوگیا؟اگر جواب اثبات میں ہے تو اس دعوے کی دلیل کیا ہے؟ اور پھر اس کے کیا معنی کہ صحیح بخاری تک میں ایسی حدیثیں موجود ہیں جو نقلِ صحیح اور عقلِ سلیم کی روشنی میں محلِ اعتراض ہیں ۔مثلاً حضرت ابراہیم ؈ کا تین مرتبہ جھوٹ بولنا، حضرت موسیٰ ؈ کا ملک الموت کی آنکھ پر گھونسا مارنا وغیرہ روایات کو ملاحظہ کرلیجیے۔
نیز اگر جواب نفی میں ہو تو بتلایئے کیا وجہ ہے کہ اب تک صحیح اور غلط احادیث کو چھانٹ دینے کا فریضہ متأخرین علماے اسلام نے انجام نہیں دیا اور اسی کا نتیجہ ہے کہ مشتبہ روایات پر وارد ہونے والے اعتراضات تبلیغ کی راہ میں رکاوٹ بنتے ہیں ۔

حفاظتِ حدیث

منکرین ِ حدیث کے جواب میں آپ کا فاضلانہ مضمون ماہنامہ ترجمان القرآن میں پڑھ کر بہت مسرت ہوئی۔ جزاکم اللہ خیر الجزاء۔ اسی سلسلے میں اگر جناب ذیل کے امور پر مزید روشنی ڈالیں تو ذی علم احباب کے لیے عموماً اور ناظرین رسالہ کے لیے خصوصاً بہت ہی مفید ہوگا۔یہ بعض منکرین حجیت حدیث کے شبہات ہیں جن کا ازالہ فائدے سے خالی نہ ہوگا ورنہ خاک سار وَمَآ اٰتٰىكُمُ الرَّسُوْلُ فَخُذُوْہُ۰ۤ وَمَا نَہٰىكُمْ عَنْہُ فَانْتَہُوْا({ FR 2144 }) ( الحشر:۷ ) کو صحیح معنوں میں لے کر حجیت حدیث صحیح کا قائل ہے۔
حفاظت قرآن کے لیے رسول اللہ ﷺ نے یہ فرما کر کہلَا تَکْتُبُوْا عَنِیّ شَیْئًا سِوَی الْقُرْاٰنِ ({ FR 2015 }) ایک ضروری احتیاط کی صورت پیدا کر دی تھی۔ صحابہ کرام قرائ ت و حفظ قرآن کَمَا نُزِّلَ کے لیے مامور تھے اور اسی پر عامل رہے، باوجود اس کے اختلاف قرائ ت پیداہوا جس کا دفعیہ بعہد حضرت عثمانؓ ہوا، اس سے ظاہر ہے کہ احادیث بمقابلہ قرآن ویسی محفوظ نہیں ہوسکتیں ، خصوصاً جب کہ فتن جمل و صفین کے بعد مدت تک ان کی جمع و تنقید کی مختلف ذرائع سے کوشش کی گئی، جبکہ طرق، رُواۃ اور موضوعات کی چھان بین بہت مشکل تھی۔