صحیح البخاری کا اصح الکتب ہونا

صحیح البخاری اصح الکتب بعد کتاب اﷲ ہے۔ براہِ کرم اِس کی بھی وضاحت کردیجیے کہ اصح الکتب کا مطلب آیا یہ ہے کہ بخاری بھی قرآن کی طرح حرفاً حرفاً صحیح اور غیر محرف ہے؟

روایت اور درایت میں ترجیح

کسی روایت کو حضور ﷺ کی طرف انتساب کرنے میں اوّل درجہ صحت روایت کو ہے یا درایت کو۔ وہ درایت جو حدیث کی صحت کی جانچ کے لیے مدار بنے،آپ کے نزدیک اس کی تعریف کیا ہے؟

کیا کسی مسلمان کو یہ حق ہے کہ خدا و رسولﷺ کا حکم ظنِ غالب کے بموجب اسے پہنچے اور اس میں درایت کی مداخلت کرکے اس سے گریز کرے اور اپنے تفقہ کی بِنا پر اس کی مخالفت کرے،جب کہ اس کے تفقہ میں بھی خطا کا امکان ہے؟

درایت کا معیار اور اُصول

درایت کا معیار کیا ہے کہ اسے سامنے رکھ کر اسناد صحیحہ رکھنے کے باوجود حدیث قوی الاسناد کو رد کردیاجائے؟نیز بتایا جائے کہ کس نص نے یہ شرط درایت اور اس کا معیار قائم کیا ہے؟

عہد نبویﷺ میں حدیث کی کتابت اور تدوین

اگر حیات طیبۂ نبویہ کے واقعات کو ما ٔخذ دین کی حیثیت حاصل ہے اور ان سے تشریعی احکام کا انتزاع ناگزیر ہے تو ان کی کتابت وتدوین عہد نبویؐ میں کیوں نہیں ہوئی؟

احادیث کی تحقیق میں اسناد اور تفقہ کا دخل

خط وکتابت کے کئی مراحل طے ہوچکے ہیں ،لیکن ابھی تک کوئی اطمینا ن بخش صورت ظاہر نہ ہوئی۔ تاہم اس خط سے محض ایک سوال کے حل پر ساری بحث ختم ہو سکتی ہے۔قابل غور امر یہ ہے کہ حدیث و فقہ کا ہم پلّا ہونا، اسناد حدیث میں خامیوں کا پایا جانا وغیرہ مضامین آپ کی نظر میں بنیادی ہیں یا فروعی؟اگر اُصولی اور بنیادی ہیں جیسا کہ جماعت کے مستقل کتابی لٹریچر میں اس کی اشاعت سے اندازہ ہوتا ہے تو پھر کسی مخالفت کا اندیشہ کیے بغیر جماعت اہلِ حدیث روایت کے باب میں جو غلو رکھتی ہے،اس کی اصلاح وتنقید کے لیے پورا زور قلم صرف کیجیے، جیسا کہ آپ نے لیگ اور کانگریس پر تنقید کرتے ہوئے کیا ہے۔باقی رہا جماعت کے اندر اور باہر بحث کا دروازہ کھل جانے کا اندیشہ، تو یہ کوئی نئی بات نہ ہوگی۔ کیوں کہ اب سے پہلے بھی اخبار اہلِ حدیث امرتسر میں ’’تصدیق اہل حدیث‘‘ کے عنوان سے اس پر تنقید ہوچکی ہے اور اب بھی ایک مولوی صاحب… میں ’’ تفہیمات‘‘ کے اقتباسات(مسلکِ اعتدال) سنا سنا کر جماعت اسلامی کے ہم خیال اہل حدیث افرادمیں بد دلی پید ا کررہے ہیں ، اور پوری طرح فتنے کا سامان پیدا ہوگیا ہے اور جماعتی ترقی میں مزاحمت ہورہی ہے۔
لیکن اگر یہ مضامین فروعی اور ضمنی حیثیت رکھتے ہیں ، جیسا کہ آپ کے مکتوبات سے معلوم ہوتا ہے، تو پھر تفہیمات جیسی اُصولی اور اہم کتاب اور مستقل لٹریچر کی صورت میں ان پر افہام وتفہیم کی ضرورت نہ تھی۔اس کے لیے صر ف ’’ترجمان‘‘ کے صفحات کافی تھے۔افسوس کہ جس چیز کو آپ فروعی تحریر فرماتے ہیں ،وہی جماعت کی توسیع کے راستے میں رکاوٹ بن رہی ہے۔خود آپ ہی دستور جماعت کی دفعہ ۵، جز(د) میں تحریر فرماتے ہیں کہ جماعت اسلامی کے رکن کے لیے ان تمام بحثوں سے اپنی زندگی کو پا ک کرنا ضروری ہے جن کی کوئی اہمیت دین میں نہ ہو۔ پھر کیا وجہ ہے کہ غیر اہم کو اہم بنایا جارہا ہے اور اس کے لیے’’ تفہیمات‘‘ کے صفحے کے صفحے سیاہ کیے گئے ہیں ؟کیا اس سے بڑھ کر بنیادی اصلاح کا کام باقی ہی نہ رہا تھا۔
پھر یہاں دو جدا جدا چیزیں ہیں جنھیں مخلوط کرنے کی کوشش کی جارہی ہے ۔فقہی جزئیات کی تعمیل میں کتاب وسنت کے ماتحت مختلف ہونا الگ معاملہ ہے اور اسے برداشت کیا جاسکتا ہے، یعنی اس بارے میں بنیادی اُمور کے اشتراک واتحاد کے لیے رواداری برتی جاسکتی ہے۔لیکن اُصولی طور پر روایتِ نبویﷺ اور درایتِ مجتہد کو مساویانہ حیثیت دے دینا ناقابلِ برداشت ہے، بلکہ بعض حالات میں یہ معاملہ انکارِ حدیث کا متراد ف ہوسکتا ہے،خود اکابر حنفیہ بھی اس کے قائل نہیں ، نیز امام ابوحنیفہؒ نے بھی اس قسم کے عقیدہ وخیال سے تبرّی اور بیزاری ظاہر کی ہے۔ (تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو ’’حجۃ اﷲ البالغہ‘‘ اور ’’شامی‘‘)
اب اس کش مکش کو رفع کرنے کی یہی صورت ہے کہ ’’مسلک اعتدال‘‘ والا مضمون آئندہ تفہیمات کے ایڈیشن میں شائع نہ کیا جائے اور ’’ترجمان القرآن‘‘ میں ایک مہذب ومؤدّب تنقیدی مضمون کی اشاعت کا موقع مرحمت فرمایا جائے۔ یہ تنقید ہم دردانہ اور جماعتی ترقی کے لیے ہوگی، مخالفانہ اور معاندانہ نہ ہوگی۔ وَاللّٰہُ عَلٰی مَا نَقُوْلُ شَھِیْدٌ۔({ FR 2149 }) ’’ترجمان القرآن‘‘ کی قدیمی وسعت ظرفی اور عالی ہمتی سے اس قسم کی اُمید وابستہ رکھنا بے جا نہ ہوگا۔