رسول اللّٰہ ﷺ کے تشریعی اختیارات
جناب کی تصنیف ’’سنت کی آئینی حیثیت‘‘ میری نظر سے گزری۔ اس کے مطالعے سے میرے تقریباً سب شکوک رفع ہوگئے سواے چند کے جنھیں دور کرنے کے لیے آپ سے رجوع کر رہاہوں ۔ اُمید ہے کہ آپ میری راہ نمائی فرمائیں گے۔
صفحہ ۷۱ پر آپ نے لکھا ہے کہ اللّٰہ تعالیٰ نے صراحتاً نبی ﷺ کو تشریعی اختیارات دیے ہیں ۔ اللّٰہ تعالیٰ کی طرف سے امر و نہی اور تحلیل و تحریم صرف وہی نہیں ہے جو قرآن میں بیان ہوئی ہے بلکہ جو کچھ نبی ﷺ نے حرام یا حلال قرار دیا ہے اور جس چیز کا حضورﷺ نے حکم دیا ہے، یا جس چیز سے منع فرمایا ہے، وہ بھی اللّٰہ کے دیے ہوئے اختیارات سے ہے اور اس لیے وہ بھی قانونِ خداوندی کا ایک حصہ ہے۔ مگر آپ نے تشریعی کام کی جو مثالیں دی ہیں (ص۷۱ تا۸۰) وہ دراصل تشریحی کام کی ہیں تشریعی کی نہیں ۔ مؤخر الذکر کی جو مثالیں مجھے سوجھتی ہیں وہ ذیل میں مذکور ہیں اور ان کے بارے میں جناب سے ہدایت کا طالب ہوں ۔
(الف) صفحہ۷۹ پر کھانے کی بعض چیزوں کی حرمت کے بارے میں آپ نے سورئہ المائدہ پر اکتفا کیا ہے، لیکن سورئہ انعام کی آیت نمبر ۱۴۵ کی رو سے صرف مردار، بہتا خون، لحم خنزیر اور غیر اللّٰہ کے نام پر ذبیحہ حرام ہے۔ یعنی اللّٰہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ وحی کے ذریعے مذکورہ اشیا کے علاوہ کھانے کی کوئی اورچیز حرام نہیں کی گئی۔ پھر حضورﷺ کو دیگر اشیا کو حرام قرار دینے کی ہدایت کیسے ملی؟
(ب) شریعت بعض صورتوں میں زنا کی سزا رجم قرار دیتی ہے۔ لیکن قرآن مجید میں اس جرم کے بارے میں اس سزا کاذکر نہیں ملتا۔ پھر یہ سزا کیسے تجویز ہوئی؟
ان دونوں مثالوں میں احکام قرآن اور احکام شریعت میں بظاہر کچھ تضاد نظر آتا ہے، لیکن حقیقت میں ایسا نہ ہوگا۔ امید ہے حقیقت کی وضاحت فرما کر آپ مجھے ممنون فرمائیں گے۔