ہمارے اسلامی حلقوں میں آج کل یہ موضوع زیر بحث ہے کہ جس ملک میں غیر مسلموں کو مسلمانوں پر تسلط حاصل ہو، وہاں تحریک اسلامی کے کارکنوں کو مسلمانوں کے قومی معاملات میں کس حد تک دل چسپی لینی چاہیے۔ جو لوگ ان مسائل میں حصہ لینےکے حامی ہیں وہ فرعون کے مقابلے میں حضرت موسیٰ کی ان مساعی کو بطور دلیل پیش کرتے ہیں جو بنی اسرائیل کو مصر سے بچا کرلے جانے کے لیے انھوں نے اختیار فرمائیں ۔ اس کے مقابلے میں دوسرے لوگ یہ اندیشہ رکھتے ہیں کہ ان معاملات میں الجھ جانے کے بعد تحریک اسلامی کا اصولی موقف مجروح ہو جائے گا اور اس کی بین الاقوامی اور بین الانسانی دعوت اپنا اپیل کھو بیٹھے گی۔ فریق اول کے استدلال کا اہم اور مرکزی نکتہ یہ ہے کہ جس طرح بنی اسرائیل کو اللّٰہ نے بعثت محمدی سے قبل اقوام عالم میں منتخب اور افضل تر قرار دیا تھا، اسی طرح دنیا اور دنیا کے جس ملک میں بھی مسلمان نام کی ایک قوم آباد ہے، وہ بھی برگزیدہ اور مجتبیٰ ہے۔ اس لیے اس قوم کے جان و مال اور عزت و آبرو کی حفاظت اس کے پرسنل لا اور تعلیمی و تہذیبی ادارات کا بقا اقامت دین کے لیے ناگزیر اور اولین توجہ کا مستحق ہے۔
دوسرے لفظوں میں جب نبوت بین الاقوامی دور میں داخل ہوئی اور ایک سے زائد اقوام کے لیے ایک ہی نبی مبعوث ہونے لگے تو جس طرح ایک قوم کے اندر ایک فرد کو منتخب کرکے نبوت سے سرفراز کیا جاتا تھا، اسی طرح اقوام عالم میں سے بھی ایک قوم کو چن کر کارِ نبوت کی انجام دہی پر مامور کیا گیا۔ چنانچہ فرعون کو دعوتِ ایمان دینا حضرت موسٰی کے مشن کا جز صرف اسی حد تک تھا جس حد تک بنی اسرائیل کی رہائی کے لیے اس کی ضرورت تھی۔ آپ سے استدعا ہے کہ ایک غیر مسلم اقتدار کے دائرے میں آپ اقامتِ دین کا طریق کار واضح کریں اور بتائیں کہ حضرت موسیٰ ؈ کی دعوت کا جو تعلق بنی اسرائیل اور قوم فرعون سے تھا، اس کی صحیح نوعیت آپ کے نزدیک کیا تھی اور بنی اسرائیل کے قومی مسائل پر انھوں نے خصوصی توجہ کیوں مبذول فرمائی؟

اسلامی ریاست اور نظمِ جماعت

ایک بزرگ ہیں جو پہلے تو جماعت سے اس حد تک تعلق رکھتے تھے کہ رکنیت کی درخواست دینے والے تھے لیکن یکایک ان کے ذہن رسا میں ایک نکتہ پیدا ہوا اور وہ اپنا دامن جھاڑ کر جماعت سے اتنی دُور جاکھڑے ہوئے گویا انھیں جماعت سے کبھی کوئی تعلق رہا ہی نہیں تھا۔وہ فرماتے ہیں کہ اسلامی دستور کی تشکیل کے بعد پاکستان ایک اسلامی ریاست بن چکا ہے اور یہاں تمام مسلمان شہری ایک نظام اطاعت میں منسلک ہوچکے ہیں ۔یہ نظام اطاعت سب کو جامع اور سب پر فائق ہے۔اب سب کی اطاعتیں اس بڑے نظام اطاعت کے گرد جمع ہوچکی ہیں ۔لہٰذا اس کی موجودگی میں کسی اور نظم کا قائم ہونا اور افراد سے اپنی اطاعت کا مطالبہ کرنا بالکل ایسا ہی ہے جیسا کہ ایک حکومت کے اندر ایک متوازی حکومت کا قائم کرنا۔خلاصہ یہ کہ اب کسی جماعت، کسی تنظیم اور کسی امیر کی ضرورت نہیں ہے۔پاکستان ایک اسلامی ریاست ہے ،حکومت اس کا تنظیمی مظہر ہے، تمام مسلمان شہری اب کسی جماعت کے نہیں بلکہ اس ریاست کی ہمہ گیر تنظیم کے رکن ہیں ، اور ان کی تمام اطاعتیں اور وفا داریاں اسی تنظیم کاحق ہیں نہ کہ کسی اور جماعت کا۔ اب اطاعت کسی کی نہیں بلکہ ریاست کے صدر کی ہونی چاہیے۔ یہ وہ طرز استدلال ہے کہ اس کے نتیجے میں شہریوں کا حق انجمن سازی (right to form association) ہی ختم ہوجاتا ہے۔ اور نہ صرف ختم ہوجاتا ہے بلکہ اس کا ذکر کرنا بھی حکومت کے خلاف بغاو ت کرنے کے مترادف ہے۔آپ کے پاس اس استدلال کا کیا جواب ہے؟کیا اسلامی ریاست واقعی ایک ایسی ریاست ہوگی جس میں کسی دوسری پارٹی کو جنم لینے اور جینے کا موقع نہیں ملے گا؟اگر ملے گا تو ایک نظام اطاعت کے لحاظ سے اس کی کیا حیثیت ہوگی؟کیا اب کسی مسلمان کا یہ استدلال درست ہے کہ اب اسے اسلام کے اجتماعی تقاضوں کو پورا کرنے کے لیے کسی جماعت میں شریک ہونے کی ضرورت نہیں ہے، کیوں کہ وہ ایک اسلامی ریاست کا ایک شہری ہے۔علمی حیثیت سے یہ سوالات خاص اہمیت رکھتے ہیں اور ان کا جواب علمی طریق پر ہی دیا جانا چاہیے۔

فریضۂ اقامت دین اور والدین کی مخالفت

صوبہ جاتی اجتماع سے واپس آنے پر میں یکایک ان پریشانیوں میں مبتلا ہوگیا ہوں جو میرے وہم وگمان میں بھی نہ تھیں ۔آپ کی شدید مصروفیات کا علم رکھنے کے باوجود ان احوال کا تفصیلی تذکرہ آپ ہی کے اس ارشاد کی بِنا پر کررہا ہوں کہ اس نوعیت کے اُمور سے آپ کو پوری طرح مطلع رکھنا ضروری ہے۔ خیر تو۱۹؍ اکتوبر کو والد مکرم کا جو گرامی نامہ موصول ہوا ہے،وہ لفظ بلفظ درج ذیل ہے:({ FR 1017 })
’’برخوردارِ نورِ چشم… بعد دعاے ترقی درجات کے واضح ہو کہ اب تم خود مختار ہوگئے ہو،ہماری سرپرستی کی ضرورت نہیں ،کیوں کہ ہم مکان پر بیمار پڑے ہیں اور تم کو جلسوں ({ FR 1020 }) کی شرکت لازم اور ضروری۔ اب اﷲ کے فضل سے نوکر ہوگئے ہو۔ہم نے اپنی تمام کوشش سے تعلیم میں کام یاب کرایا اور اس کا نتیجہ پالیا۔عالم باعمل ہوگئے کہ باپ کا حکم ماننا ظلم اور حکمِ خدا کے خلاف قرار پایا۔ اوروں کا حکم ماں باپ سے زیاد ہ افضل!خیر تمھاری کمائی سے ہم نے اپنی ضعیفی میں بڑا آرام پا لیا۔ آئندہ ایک پیسا بھی ہم لینا نہیں چاہتے۔جو تمھارا جی چاہے کرو اور جہاں چاہے رہو، خواہ سسرال میں یا کسی اورجگہ۔ البتہ ہم اپنی صورت اس وقت تک نہیں دکھلانا چاہتے جب تک جماعت سے استعفا نہ دے دو۔تم نے برابر اس مراق میں (یعنی تحریک اسلامی کی خدمت میں ) سب تعلیم کاکام خراب کردیا۔مگر ہمارا نصیحت کرنابے کار ہے۔ بس یہ واضح رہے کہ ہمارے سامنے نہ آنا۔ ہمار اغصہ بہت خراب ہے۔ فقط۔‘‘
والدِ مکرم کے اس خط کا جواب راقم الحروف نے یہ لکھ دیا:
’’محترمی!کل آپ کا گرامی نامہ بدست… موصول ہوا۔اسے دیکھ کر اور آپ کی بیماری کا حال معلوم کرکے بڑا افسوس ہوا۔یقین جانیے مجھے خبر تک نہ تھی کہ آپ بیمار ہیں ۔نہ آپ نے کوئی خط لکھا نہ مجھے کسی اور ذریعے سے حال معلوم ہوا، ورنہ میں یقیناً وہاں نہ جاتا۔ یہ ایک عذرِ شرعی تھا جس کی بِنا پر سفر کو ملتوی کیا جاسکتا تھا۔
والدین کے احسانات اور ان کی مہربانیوں کا کون انکار کرسکتا ہے۔پھر آپ نے تو اعلیٰ تربیت کی اور دینی تعلیم سے آراستہ کیا۔اسی تعلیم سے مجھے یہ یقین حاصل ہوا کہ دین کو دنیا میں غالب کرنا،خدا کے کلمے کو بلند کرنا، دنیا میں اسلام کا سکہ چلانا اور اس کے لیے کوشش کرنا ہر مسلمان کا فرض ہے۔میں نے گردو پیش کی دنیا پر نظر ڈالی اور مجھے ایک ہی جماعت اس مقصد کے لیے صحیح طریقے اور اصلی اوربہترین ڈھنگ سے کام کرتی ہوئی نظر آئی، اور وہ جماعت’’جماعت ِ اسلامی‘‘ ہے۔ اس لیے اگر مجھے دین کو دنیا میں غالب کرنے کے لیے کوشش کرنی ہے تو اس سے منسلک رہنا ضروری ہے اور میں نہیں سمجھتا کہ دین کے غلبے کی کوشش اگر مسلمان کی زندگی کا مقصد نہیں تو پھر اور کیا مقصد ہے!
والدین کا حکم ماننا ضروری!ان کی اطاعت فرض! لیکن کہاں تک،جب تک خدا ورسولؐ کے حکم کے خلاف نہ ہو۔ اگر دین کو غالب کرنا ضروری ہے تو وہ کیا یوں ہی آرام سے بیٹھے ہوئے، بے اَن تھک کوشش کیے ہوئے ہوسکتا ہے؟ کیا یہ کوئی بہت سہل کام ہے؟کیا دین کے لیے اتنی قوت اور اتنا وقت بھی صرف نہیں کرنا چاہیے جتنا ہم اپنے پیٹ کے لیے کرتے ہیں ؟کیا یہ کام تنہا ایک آدمی کے کرنے کا ہے؟بہرحال دین کے لیے جس جماعت میں بھی رہ کر کام کیا جائے گا،اس میں وقت بھی صرف ہوگا،مال بھی خرچ کرناہوگا، تکلیف بھی ہوگی ،کچھ دنیوی کاموں کا حرج بھی ہوگا،اور کسی نہ کسی قوت سے تصادم کا ڈر بھی ہوگا اور آپ پھر منع فرمائیں گے۔پھر لِلّٰہ! آپ ہی بتایے کہ اس کام کی اور کیاصورت ہوسکتی ہے؟آپ کی سرپرستی سے محروم ہوجانا میری انتہائی بدنصیبی ہے۔لیکن یہ تو خیال فرمایے کہ آپ کس چیز سے مجھے منع فرمار ہے ہیں ۔ذرا غور تو کیجیے، کہیں یہ حکم خدا کے خلاف تو نہیں ہے۔
قُلْ اِنْ كَانَ اٰبَاۗؤُكُمْ وَاَبْنَاۗؤُكُمْ وَاِخْوَانُكُمْ وَاَزْوَاجُكُمْ وَعَشِيْرَتُكُمْ وَاَمْوَالُۨ اقْتَرَفْتُمُوْہَا وَتِجَارَۃٌ تَخْشَوْنَ كَسَادَہَا وَمَسٰكِنُ تَرْضَوْنَہَآ اَحَبَّ اِلَيْكُمْ مِّنَ اللہِ وَرَسُوْلِہٖ وَجِہَادٍ فِيْ سَبِيْلِہٖ فَتَرَبَّصُوْا حَتّٰي يَاْتِيَ اللہُ بِاَمْرِہٖ۝۰ۭ وَاللہُ لَا يَہْدِي الْقَوْمَ الْفٰسِقِيْنَ ( التوبہ:۲۴)
’’اے نبیؐ ! فرما دیجیے کہ اگر تمھارے باپ،تمھارے بیٹے، تمھارے خاندان، تمھارے وہ اموال جو تم نے محنت سے کماے ہیں اور تمھاری وہ سوداگری جس میں گھاٹا پڑجانے سے تم ڈرتے ہو، اور تمھاری مرغوب آرام گاہیں تمھیں اﷲ، اس کے رسولؐ اور اس کی راہ میں سرتوڑ کوشش کرنے کے مقابلے میں محبوب ترہوں ، تو انتظار کرواس گھڑی کا کہ اللّٰہ کا فیصلہ صادر ہوجائے، اوریاد رکھو کہ اﷲ فاسقوں کو ہدایت نہیں بخشتا۔‘‘
میں سخت حیرت اور انتہائی افسوس کے ساتھ دیکھ رہا ہوں کہ دین کے غلبے کے لیے جوکوشش میں کررہا ہوں ،اس پر آپ ناراض ہیں ۔آخر آپ ہی فرمایے کہ اس صورت میں میرا فرض کیا ہے؟مندرجہ بالاآیت کو ملحوظ رکھ کر سوچیے۔
حاضر ہونے کو جی چاہتا ہے مگر آپ کے عتاب سے خائف ہوں ۔دیکھیے آپ کیا اجازت فرماتے ہیں ۔‘‘
یہ جواب اس پس منظر کی بِنا پر لکھا گیا تھا کہ والد صاحب وقت کے ضیاع صَرفِ مال اور خوفِ قوتِ متسلّطہ کی بِنا پر جماعت میں کام کرنے سے منع کرتے ہیں ، نیز یہ کہ ان کے اشارے پر…سے ایک بہت مدلل قسم کا طویل وعریض خط آیا تھا، جس کا ماحصل یہ تھا کہ بہرحال حق واسلام جماعت اسلامی میں منحصر نہیں ، تنہا کام کیجیے یا کسی اور جماعت میں رہ کر۔
والد محترم کی طرف سے مجھے ابھی تک منقولہ بالا عریضے کا جواب نہیں ملا ہے۔ اندریں حالات مناسب ہدایات سے مستفید فرمایئے۔

عوام کے جاہلانہ عقائد کے ساتھ سلوک

مسلمانوں کی اکثریت جہالت اور شر ک میں مبتلا ہے۔قبروں پر حاجات لے کر جانے اور نہ جانے کا سوال بہت اہمیت اختیار کیے ہوئے ہے۔اس سلسلے میں اگر مصلحتاً سکوت کیا جائے تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ حق کو قبول کرنے کے ساتھ لوگ شرک کرنے کی گنجائش کو بھی بحال رکھیں ۔ یوں بھی مصلحت اندیشی تابکَے، آخر بھانڈ اپھوٹتا ہے اور لوگوں کو معلوم ہوکے رہتا ہے کہ ہم قبروں پر جاکر حاجات طلب کرنے کے خلاف ہیں ۔ جہاں یہ بات کھلی بس فوراًہی آدمی کو وہابی کا سرٹیفکیٹ ملا اور کسی کو وہابی قراردینے کے بعد لوگ اس کی بات سننے پر آمادہ ہی نہیں ہوتے بلکہ اس سے بدکنے لگتے ہیں کہ کہیں یہ بلّوریں عقائد کے اس محل پر پتھر نہ پھینک مارے جس کی تعمیر میں ان کے آبائ و اجداد نے پسینے بہاے ہیں اور جس کی حفاظت میں عمریں گزار دی گئی ہیں ۔میں بھی اسی خدشے کا ہدف بن رہا ہوں ۔

آج کے مسلمان کی بات تو الگ رہی، کیا آپ یہ تسلیم نہیں کریں گے کہ خلافتِ راشدہ کے عہد میں اکثر وبیش تر جو لوگ اسلام لائے،وہ زیادہ تر سیاسی اقتدار کے خواہاں تھے؟

توسیع اور استحکام کے درمیان توازن

اگر یہ کہا جائے کہ اسلام اس تیز رفتاری سے پھیل رہا تھا کہ اس مناسبت سے اس میں داخل اور شامل ہونے والوں کی تربیت کا انتظام نہیں ہوسکتا تھا، تو اس پر یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ خلفاے اسلام نے نظام اسلامی اور مسلم معاشرے کو پورے طورپر استوار اور مستحکم (consolidate) کیے بغیر اس کی توسیع (expansion) کیوں ہونے دی؟

نظامِ اسلامی کے قیام کی صحیح ترتیب

جن لوگوں سے پاکستان کے آئندہ نظام کے متعلق گفتگو ہوتی ہے وہ اکثر اس خیال کا اظہار کرتے ہیں کہ آپ اور دوسرے اہلِ علم اسلامی حکومت کا ایک دستور کیوں نہیں مرتب کرتے تاکہ اسے آئین ساز اسمبلی میں پیش کرکے منظور کرایا جائے؟ اس سوال سے صرف مجھ کو ہی نہیں ، دوسرے کارکنوں کو بھی اکثر وبیش تر سابقہ پیش آتا ہے۔گو ہم اپنی حد تک لوگوں کو بات سمجھانے کی کوشش کرتے ہیں ،لیکن ضرورت ہے کہ آپ اس سوال کا جواب ’’ترجمان القرآن‘‘ میں دیں ، تاکہ وہ بہت سی غلط فہمیاں صاف ہوسکیں جن پر یہ سوال مبنی ہے۔

اِقامتِ دین کی سعی ،فرض عین یا فرض کفایہ

میری ایک ایسے بزرگ سے ملاقات ہے جو عالم دین ہیں ، جماعت کی دعوت اور طریق کار کو عین حق سمجھتے ہیں اور جماعت سے باقاعدہ متفق بھی ہیں ۔ اس کے باوجود ان کا خیال یہ ہے کہ فریضۂ اقامت دین جس کے لیے یہ جماعت کام کررہی ہے ، وہ فرض عین نہیں بلکہ فرض کفایہ ہے۔ اس لیے جب اس میں کچھ لوگ حصہ لے رہے ہیں تو کوئی ضروری نہیں کہ اس میں ہر ایک شخص حصہ لے۔اگر کسی شخص کی دنیوی مصلحتیں اسے اس کام سے روکتی ہیں اور وہ ان کی وجہ سے اس جماعت سے ہر قسم کا تعلق توڑ لیتا ہے اور اقامت دین کے لیے ذاتی طور پر بھی علیحدہ سے کوئی کام نہیں کرتا تو وہ کسی گناہ کا ارتکاب نہیں کرتا اور اس سے اﷲ تبارک و تعالیٰ کے یہاں کوئی مؤاخذہ نہیں ہو گا۔ اس کی مثال تو بس نماز جنازہ کی سی ہے۔اگر کسی شخص کے پاس وقت اور فرصت ہے اور اس کی طبیعت چاہتی ہے تو وہ اس میں شرکت کرے اور اگر وقت وفرصت نہیں ہے اور طبیعت نہیں چاہتی تو اسے پورا اختیار ہے کہ اس میں حصہ نہ لے۔
یہ بات تو وہ فریضۂ اقامت دین کے بارے میں کہتے ہیں ۔اب رہی جماعت کی تنظیم،اس سے منسلک ہونا،اس کے امیر کی اطاعت، اس راہ میں آنے والی مشکلات پر صبر، اور اس نصب العین کے لیے ہرقسم کی جانی ومالی قربانیاں ، تو ان امور کو وہ بالکل نوافل کا درجہ دیتے ہیں ۔ چنانچہ وہ صاف الفاظ میں کہتے ہیں کہ یہ امور تو ایسے ہیں جیسے نماز تہجد، جو اﷲ تعالیٰ کے یہاں مراتب عالیہ کے حصول کے لیے تو ضروری ہے لیکن محض بخشش و نجات کے لیے ضروری نہیں ہے۔جب ان سے کہا جاتا ہے کہ جن لوگوں نے اس راہ پر اپنی جانیں نثار کردیں اور اپنی اولاد اور اپنے خاندان کی مستقبل کی زندگیوں کے بارے میں کچھ نہیں سوچا تو کیا انھوں نے یہ سب کچھ محض ایک نفل کام کے لیے کیا؟تو وہ اس کا جواب اثبات میں دیتے ہیں اور صاف کہتے ہیں کہ ان کی وہ ساری قربانیاں محض بلند مراتب کے حصول کے لیے تھیں ،ورنہ ایسا کرنا ان پر فرض نہیں تھا۔ انھوں نے یہ باتیں اس وقت کہیں جب ان کے سامنے اخوان کے مثال پیش کی گئی۔ان کا انداز استدلال اس قسم کا ہے کہ اگر اس کو صحیح تسلیم کرلیا تو اخوان اور ایسے ہی دوسرے اہل حق جنھوں نے اﷲ کے لیے اپنی جانیں نثار کردیں ، وہ لائق ستائش ٹھیرانے کے بجاے الٹے لائق ملامت ٹھیریں گے، کیوں کہ محض نفل کام کے لیے اپنی جان دینا اور اپنے پس ماندگان کو کس مپرسی کی حالت میں چھوڑ جانا غلو فی الدین نہیں تو اور کیا ہے، اور اس کا مرتکب اﷲ کے نزدیک مستحق عذاب ہی ہوسکتا ہے۔

اوامرِ دین میں فریضۂ اقامت دین کی حیثیت

اکثر میرے ذہن میں یہ سوال ابھرتا رہا ہے کہ اسلام کے ارکان کی حیثیت سے پانچ چیزوں کا ذکر کیا گیا ہے ،ان میں فریضۂ اقامت دین کی جدوجہد شامل نہیں ہے، حالاں کہ اس کی اہمیت کے پیش نظر اسے چھٹے رکن کی حیثیت حاصل ہونی چاہیے تھی۔اگر ایسا ہوتا تو اسلام محض نماز،روزہ،حج اور زکاۃ تک محدود نہیں رہ سکتا تھا، بلکہ اس کے وہ تقاضے بھی ہر مسلمان کے سامنے ہمیشہ موجود رہتے جن کا شعور پیدا کرنے کے لیے علیحدہ سے ہر دور میں تحریکیں اٹھتی رہی ہیں ۔ صراحتاً تحریر فرمایئے کہ دین کے اوامر میں فریضۂ اقامت دین کی کیا حیثیت ہے۔