برائیوں کے طوفان کا مقابلہ یا خلوت نشینی

میں نے اپنے بعض اعزّہ اور بزرگوں کی خدمت میں فریضۂ اقامت دین کی اہمیت واضح کرنے کی کوشش شروع کررکھی ہے۔اس سلسلے میں میرا تبادلۂ خیال ایک ایسے رشتہ دار سے ہوا جو اصطلاحی علم بھی رکھتے ہیں ۔اقامت دین کے فرض کی اہمیت کے بھی منکر نہیں ۔مگر اداے فرض کے لیے آمادہ ہوجانے کے بجاے جہلا کے سے عذرات پیش کرتے ہیں ۔ان کے پیشِ نظر یہ حدیث ہے: اِذَا رَأَيْتَ شُحًّا مُطَاعًا وَهَوًى مُتَّبَعًا وَدُنْيَا مُؤْثَرَةً وَ إِعْجَابَ كُلِّ ذِي رَأْيٍ بِرَأْيِهِ وَرَأَيْتَ أَمْرًا لَا يَدَانِ لَكَ بِهِ فَعَلَيْكَ خُوَيْصَةَ نَفْسِكَ ({ FR 958 })
اس سے استدلال کرکے وہ اپنے آپ کو اداے فرض سے بری کرتے ہیں اور اس کو اتنی وسیع اور وزنی دلیل سمجھتے ہیں کہ اس کے مقابلے میں ان کے نزدیک پورے قرآن اور سارے ذخیرۂ حدیث کی حجت بھی غیر اہم ہے۔ مثلاً میں نے حدیث شریف مَنْ رَأَى مِنْكُمْ مُنْكَرًا فَلْيُغَيِّرْهُ بِيَدِهِ… الخ ({ FR 1023 })اور لتاخذن ید المسی ئِ الحدیث اور مَنْ أَحْيَا سُنَّةً مِنْ سُنَّتِي قَدْ أُمِيتَتْ بَعْدِي فَإِنَّ لَهُ مِنْ الْأَجْرِ مِثْلَ مَنْ عَمِلَ بِهَا مِنْ غَيْرِ أَنْ يَنْقُصَ مِنْ أُجُورِهِمْ شَيْئًا۔۔۔‘‘({ FR 1150 }) الحدیث اور اسی طرح آیت کُنْتُمْ خَیْرَ اُمَّۃٍ اُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ ({ FR 1151 })(آل عمران:۱۱۰ ) اور وَلْتَكُنْ مِّنْكُمْ اُمَّۃٌ يَّدْعُوْنَ اِلَى الْخَيْرِ … ({ FR 1152 }) (آل عمران:۱۰۴) اور بالخصوص وَاتَّقُوْا فِتْنَۃً لَّا تُصِيْبَنَّ الَّذِيْنَ ظَلَمُوْا مِنْكُمْ …({ FR 1153 }) (الانفال:۲۵) سب ہی کو ان کے اطمینان کے لیے پیش کردیا اور یہ یقین دلانے کی کوشش کی کہ اُس حدیث کا محمل یہ نہیں ہے کہ آپ فریضۂ اقامت دین سے سبک دوش ہوگئے ہیں !آمرین بالمعروف اور ناہین عن المنکر کی تمام تاریخ اس امر کی گواہ ہے کہ’’شحِّ مطاع‘‘اور’’ہواے مُتبِع‘‘ ان سب کے زمانوں میں برسر عمل تھی مگر انھوں نے مایوسی کو گناہ سمجھا اور سعی کی،تو کیا العیاذ باﷲ وہ غلطی کے مرتکب تھے؟اب میں آپ سے اس حدیث کی حقیقت معلوم کرنا چاہتا ہوں ۔

قیادت کی حکمت عملی

یہ امر تو مسلّم ہے کہ شارع کو خود اپنے احکام میں تغیرو تبدل کرنے اور تقدیم و تاخیر کرنے یا ان میں رخصتیں دینے اور استثنا نکالنے کے اختیارات حاصل ہیں ، مگر کیا شارع کے ان تصرّفات پر قیاس کرکے اور ان سے کچھ اصول مستنبط کرکے دوسرے بھی انھیں نئے پیش آمدہ مسائل پر چسپاں کرنے کا اختیار رکھتے ہیں ؟ اور یہ اختیار آخر کس کو حاصل ہے؟‘‘

خلافت کے لیے جدوجہد یا امام مہدی کا انتظار

ایک صاحب جو علم دین سے بخوبی واقف ہیں ،خطبۂ جمعہ میں پیغمبر خدا ﷺ کی اس حدیث پر کہ’’میرے بعد۳۰سال خلافت ہوگی، بعد میں شاہی دور شروع ہوگا اور آخر میں امام مہدی صاحب جن کا حسب نسب یہ ہوگا،تشریف لائیں گے اور خلافت قائم کریں گے‘‘یوں حاشیہ آرائی کی کہ جو لوگ ظہور امام مہدی سے پہلے خلافت کے لیے جدوجہد کرتے ہیں وہ محض ڈھونگ رچاتے اور دکان داری چلاتے ہیں ۔اس حاشیہ آرائی کے متعلق راے گرامی کیا ہے؟

سیاسی انقلاب پہلے یا سماجی انقلاب؟

ہمارے ملک میں یہ احساس عام ہے کہ اسلام کے اصول واحکام پسندیدہ اور مستحسن تو ہیں مگر بحالات موجودہ قابل عمل نہیں ہیں ۔عوام و خواص میں اسلام سے جذباتی وابستگی تو ضرور ہے لیکن اسلام کا صحیح مفہوم اور آمادگی عمل بہت کم ہے۔اسلام جس ذہنی وعملی انضباط کا مطالبہ کرتا ہے، اسے دیکھ کر یہ خدشہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر اسلامی قوانین کو نافذ کردیا گیا تو کہیں اس کے خلاف شدید ردعمل نہ رونما ہوجائے۔سیاسی انقلاب سے پہلے سماجی انقلاب ضروری ہے اور اصلاح کا جذبہ اوپر سے اور باہر سے پیدا کرنے کے بجاے اندر سے پیدا کرنے کی ضرورت ہے۔یہ صورت حال پیدا ہونے سے پہلے کیا اسلامی ریاست کا مطالبہ قبل از وقت نہیں ہے؟

فقہی اختلاف کی وجہ سے فرض کام سے رک جانا

میں نے پورے اخلاص و دیانت کے ساتھ آپ کی دعوت کا مطالعہ کیا ہے جس کے نتیجے میں یہ ا قرار کرتا ہوں کہ اُصولاًصرف جماعت اسلامی ہی کا مسلک صحیح ہے۔ آپ کے نظریے کو قبول کرنا اور دوسروں میں پھیلانا ہر مسلمان کا فرض ہے۔میرا ایمان ہے کہ اس دور میں ایمان کو سلامتی کے ساتھ لے چلنے کے لیے وہی راہ اختیار کی جاسکتی ہے جو جماعت اسلامی نے اختیار کی ہے۔ چنانچہ میں ان دنوں اپنے آپ کو جماعت کے حوالے کردینے پر تُل گیا تھا، مگر ’’ترجمان القرآن‘‘ میں ایک دو چیزیں ({ FR 1065 }) ایسی نظر سے گزریں کہ مزید غور وتأمل کا فیصلہ کرنا پڑا۔میں نکتہ چیں اور معترض نہیں ہوں بلکہ حیران وسرگرداں مسافر کی حیثیت سے ،جس کو اپنی منزل مقصود کی محبت چین نہیں لینے دیتی، آپ سے اطمینان حاصل کرنا چاہتا ہوں ۔

جماعتِ اسلامی کا ساتھ نہ دینے پرمؤاخذہ

خاک سار کچھ سوالات کرکے جناب کو جواب دینے کی زحمت دینا چاہتا ہے، اگرچہ جناب کی مصروفیتوں کے پیش نظر مناسب نہیں معلوم ہوتا، تاہم میں جناب ہی سے ان سوالات کے جوابات معلوم کرنے پر اپنے آپ کو مجبور پاتا ہوں ، کیوں کہ ان میں بعض اہم سوالات اس نصب العین اور اس تنظیم سے متعلق ہیں جن کا شہود اور جس کا وجود اس دور میں آپ کی مساعی جمیلہ کا نتیجہ ہے۔ میں ۹ سال سے اس جماعت سے تعلق رکھتا ہوں ۔ اس عرصے میں ،میں نے اس کی تقریباً تمام کتابیں پورے غور وخوض کے ساتھ پڑھیں اور ایک قلبی احساس فرض کے تحت بلکہ ایک اندرونی دبائو کے تحت اس میں شامل ہونے کی سعادت حاصل کی۔میں نے قرآن وسنت کے دلائل سے مطمئن ہوکر ا س جماعت کے نظم سے منسلک ہونا اپنے ایمان واصلاح کا تقاضا سمجھا۔ میں جذباتی طور پر نہیں بلکہ پورے عقل وہوش کے ساتھ یہ خیالات رکھتا ہوں کہ جس شخص پر اس جماعت کا حق ہونا واضح نہ ہوا ہو ،اس کا معاملہ تو اﷲ تعالیٰ کے یہاں لائق عفو ودرگزر ہے، لیکن جس شخص کے دل ودماغ نے پکار کر یہ کہہ دیا ہو کہ اس برصغیر میں یہی ایک جماعت ایسی ہے جو اس دور میں حق کا کام صحیح طریق پر کررہی ہے اور اس جماعت کے علاوہ اس سرزمین میں اور کوئی جماعت ایسی نہیں جس کا دامن فکر وکردار من حیث الجماعت اس طرح ہر آمیزش سے پاک ہو، تو اس پر عند اﷲ یہ فرض عین ہوجاتا ہے کہ وہ اس جماعت سے منسلک ہو اور اگر وہ اس وقت کسی دنیوی مصلحت کے پیش نظر یا کسی نفسانیت کی بِنا پر اس جماعت سے اپنا تعلق منقطع کرے تو اﷲ تعالیٰ کے یہاں اس سے مؤاخذہ ہو گا۔ اﷲ جانتا ہے کہ میں نے ان سطور میں کسی گروہی عصبیت یا مبالغے سے کام نہیں لیا ہے، بلکہ اس ناچیز نے جو کچھ سمجھا ہے،وہ ظاہر کردیا ہے۔ اگر اس میں غلط فہمی کام کررہی ہے تو اسے رفع فرمایئے۔

آپ اپنی تحریروں کے ذریعے برسوں سے اقامت ِ دین کی دعوت دے رہے ہیں ۔دو سال سے جماعت بھی قائم ہے۔بقول آپ کے اس تحریک کے مزاج کے مطابق بہت تھوڑے آدمی ملے ہیں ، اور جو ملے ہیں ان میں وہ صفات بہت کم ہیں جن صفات کے آدمیوں کی ضرورت ہے۔میں اکثر سوچتا ہوں کہ یہ صفات لوگوں میں کیسے پیدا ہوا کرتی ہیں ۔ جہاں تک اُمت کی تاریخ کا تعلق ہے،خلافتِ راشدہ کے بعد اقامتِ دین کی منظم تحریک کبھی بروے کار آئی ہی نہیں ۔ مجددین نے زبان وقلم یا جسم سے جو کیا،ذاتی طورپر کیا۔شاید پورے اسلامی دور میں صرف حضرت سیّد احمد بریلوی کے زیر عَلم ایک منظم جہاد اس مقصد کے لیے کیا گیا۔میں ان کے رُفقا کے عزم وعمل پر غور کرتا ہوں تو میری سمجھ میں نہیں آتا کہ ان میں وہ والہانہ او رمجنونانہ جذب وجوش کیسے پیدا ہوا۔کسی جماعت میں وہ نشہ کیسے چڑھا کرتا ہے جب وہ اپنا سب کچھ اﷲ کی راہ میں قربان کردینا ہی اپنا عزیز فرض سمجھنے لگتی ہے؟کیا یہ سب کچھ تحریری اور تقریری دعوت وتفہیم سے ہوجاتا ہے یا محض عمدہ اور صحیح لٹریچر فراہم کردینے سے؟میرا یہ خیال ہے کہ یہ سب چیزیں ذہنی اصلاح تو کردیتی ہیں لیکن جنونِ عمل پیدا کرنے والی کوئی اور ہی چیز ہوتی ہے۔
جب ہم دیکھتے ہیں کہ لوگ عہد کرکے اس کا حق ادا نہیں کرتے اور خلوص وایثار کا جذبہ پیدا نہیں ہوتا تو خودبخود یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اس جذبے کو کیسے پیدا کیا جاسکتا ہے؟ میں آپ کا لٹریچر پڑھ کر اور قرآنِ حکیم کا مطالعہ کرکے خود اپنے اندر یہ خواہش پاتا ہوں کہ میرے عمل میں انقلاب ہو۔لیکن جس چیز کی ضرورت محسوس کرتا ہوں ،وہ پیدا نہیں ہوتی۔معلوم نہیں وہ کون سی طاقت ہے جو اس ضرورت کو پورا کرتی ہے۔ مگر اتنا ضرور کہا جاسکتا ہے کہ جب تک جماعت اسلامی میں یہ طاقت نمودار نہ ہوگی،شرکاے جماعت میں ایثار وعمل کا مطلوبہ جذبہ پیدا نہ ہوگا اور تحریک ٹھنڈی پڑ جائے گی۔

ایک مقامی جماعتِ اسلامی کے امیر رپورٹ کرتے ہیں :
… صاحب عرصے سے سرگرمی سے کام کررہے ہیں ، رکنیت کے اہل ہیں ، عرصے سے ان کی درخواست پڑی ہے… ان کی ذاتی زندگی شریعت کے مطابق ہے۔مگر دکان کے حسابات اصلی پیش نہیں کرتے…کیوں کہ انکم ٹیکس والے نفع کی فی صدی اتنی زیادہ لگاتے ہیں کہ اگر اصل بِکری (sale) دی جائے تو ساری آمدنی ٹیکس میں چلی جاتی ہے۔اس کے علاوہ اور کوئی چیز قابل اعتراض نہیں ہے…
اس پر حلقے کی جماعتِ اسلامی کے امیر رپورٹ کرتے ہیں :
درخواست کنندہ نہایت صالح نوجوان ہے اور جماعت کے کاموں میں کافی ایثار اور سرگرمی کا مظاہرہ کرتا رہا ہے۔اس کے بار ے میں صرف انھی جعلی حسابات کا معاملہ ہمارے لیے پریشانی کا باعث بنا ہوا ہے۔حقیقت یہی ہے کہ اگر صحیح حسابات پیش کیے جائیں تو سیلز ٹیکس اور انکم ٹیکس کی نذر نہ صرف منافع کی کمائی بلکہ پونجی کا ایک حصہ بھی ہوجاتا ہے۔ان حالات میں وہ نہایت مجبوری کی حالت میں غلط حسابات پیش کرتا ہے۔ لیکن دوسری طرف ہمارے لیے یہ بھی مشکل ہے کہ ایک ایسے شخص کو جو جان بوجھ کر غلط بات کو صحیح بناکر پیش کرتا ہے،رکنیت کے لیے کیسے قبول کرلیں ۔چوں کہ یہ ایک منفرد کیس نہیں ہے…اس لیے اپنی اور حلقے کی مجلس شوریٰ کی راہ نمائی کے لیے یہ درخواست آپ کی خدمت میں بھیج رہا ہوں کہ آپ ہمیں اس کے متعلق مشورہ دیں کہ ایسے حالات میں ہم کیا رویہ اختیار کریں ؟

اقامتِ دین اور اُسوہ صحابہ کرامؓ

صحابہؓ کی زندگی کو دیکھیے تو تعجب ہوتا ہے کہ چھوٹے بڑے، اُونچے نیچے، محتاج اور غنی مصیبتوں کا مقابلہ کرنے کے لیے ایک وسیع خاندان کے رشتے میں پروے گئے تھے۔ ایک کی تکلیف سب کی تکلیف ہوتی تھی اور ایک کا فاقہ سب کا فاقہ ہوتا تھا۔ایک کا بوجھ اُٹھانے کے لیے سب کے بازو حرکت میں آجاتے تھے۔مگر ہمارا حال کیا ہے؟اگر ہمارے بچے فاقہ کشی کررہے ہیں اور ہم فکر ِمعاش میں بدحواس ہورہے ہیں تو ہم اُن رفیقوں کے ساتھ کیسے چل سکتے ہیں جو اِن مشکلات کی تلخیوں سے نا آشنا ہیں ۔ کبھی کبھی اس اُلجھن میں پڑ جاتا ہوں کہ وہ زندگی جو عہدِ رسالت وصحابہ کے اندر پیدا ہوگئی تھی اس عہد کے لیے خاص تو نہ تھی ۔کبھی یہ خیال گزرتا ہے کہ اس زندگی کی فطرت ہی ایسی ہے کہ یہ عام نہیں ہوسکتی۔میں سوچتا ہوں کہ ہمیں اپنے جذبۂ رفاقت کو اتنا زور دار بنانا چاہیے کہ جماعت ایک خاندان کی شکل اختیا رکرجائے، اور جماعت کے استحکام کے لیے یہ ایک لازمی چیز ہے۔

دعوت کے اثر کے لیے سچائی اور تقویٰ کی ضرورت

]ملازمت چھوڑے کی وجہ سے[ عوام میں میری بے اثری بڑھ رہی ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ جس ذوق وشوق سے دورانِ ملازمت میں وہ میری بات سنا کرتے تھے یا حمایت کا دم بھرا کرتے تھے ، اب وہ ختم ہورہا ہے۔ بلکہ میری باتوں کا اُن پر اُلٹا اثر ہوتا ہے۔مہربانی فرماکر راہ نمائی کیجیے۔