نزولِ وحی کی ابتدا کازمانہ

مرکزی مکتبہ اسلامی پبلشرز ،نئی دہلی سے بچوں کے لیے ایک کتاب شائع ہوئی ہے۔ اس کےمصنف جناب عرفان خلیلی ہیں ۔ اس میں لکھا ہوا ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر غارِ حرا میں نزولِ وحی کا آغاز ماہِ ربیع الاوّل میں ہوا ۔ہم نے اب تک پڑھا اور سنا ہے کہ ایسا ماہ رمضان المبارک میں ہوا تھا۔
بہ راہِ کرم رہ نمائی فرمائیں ، کیا صحیح ہے؟

رسول اللہ ﷺ کی طبعی نظافت

آپ نے اپنے ایک مضمون بہ عنوان ’رسول اللہ ﷺ اپنے گھر میں ‘ (شائع شدہ ماہ نامہ زندگی نو نئی دہلی نومبر ۲۰۰۹ء) میں رسول اکرم ﷺ کی خانگی مصروفیات کا ذکر کرتے ہوئے لکھا ہے کہ ’’رسول اللہ ﷺ اپنے کپڑوں سے جوئیں خود نکال لیا کرتے تھے۔‘‘ یہ کام آپؐ کی طبعی نظافت کے خلاف معلوم ہوتا ہے۔ آپؐ تو صفائی ستھرائی کا نمونہ تھے۔ اس لیے حدیث سمجھنے میں زحمت محسوس ہو رہی ہے۔ بہ راہ کرم وضاحت فرمائیں ۔

حدیث نبوی کی صحت و عدمِ صحت کی پہچان

’کیا غیر مسلم ممالک میں سودی لین دین جائز ہے؟‘ کے عنوان سے آں جناب نے ایک سوال کا جو جواب دیا ہے اس میں سودی لین دین کی شناعت بیان کرتے ہوئے ایک حدیث نقل کی ہے، جس کا مضمون یہ ہے: ’’سود کے گناہ کے ستر درجے ہیں ۔ اس کا سب سے کم تر درجہ ایسا ہے جیسے کوئی شخص اپنی ماں کے ساتھ زنا کرے۔‘‘ یہ حدیث مجھے ’موضوع‘ یعنی من گھڑت معلوم ہوتی ہے۔ اس میں جو الفاظ استعمال کیے گئے ہیں اور جو اسلوب اختیار کیا گیا ہے، اس کی نسبت رسول اللہ ﷺ کی طرف مشتبہ معلوم ہوتی ہے۔ آپ ایسے ناشائستہ انداز سے کوئی بات کہہ ہی نہیں سکتے۔ سود کی حرمت ثابت کرنے والی اور بھی بہت سی احادیث ہیں ۔ اس لیے ایسی غیر معتبر اور ثقاہت سے گری ہوئی احادیث سے اجتناب اولیٰ ہے۔

معرکۂ قسطنطنیہ میں حضرت یزید کی سربراہی؟

ایک صاحب لکھتے ہیں :
ماہ نامہ زندگی نو، اکتوبر ۲۰۰۸ء میں ڈاکٹر محمد رضی الاسلام ندوی کا ایک مضمون حضرت عبد اللہ بن عمرؓ کی سیرت پر شائع ہوا ہے۔ اس مضمون کی ایک عبارت (ص: ۷۱) سے متعلق کچھ وضاحت مطلوب ہے۔ مضمون نگار نے لکھا ہے:
’’حضرت یزید بن معاویہؓ کی سربراہی میں قسطنطنیہ کی اس مہم میں بھی انھیں شرکت کا شرف حاصل ہے، جس میں شریک رہنے والوں کو اللہ کے رسول ﷺ نے جنت کی بشارت دی تھی۔ البتہ زمانۂ فتنہ (جنگ جمل اور جنگ صفین وغیرہ) میں وہ الگ تھلگ رہے اور کسی فریق کا ساتھ نہیں دیا۔‘‘
اس سلسلے میں عرض یہ ہے کہ جنگ ِ قسطنطنیہ، جس میں یزید مذکور شریک تھا، وہ جنگ نہیں ہے جس میں شریک مسلمانوں کو جنت یا بخشش و نجات کی بشارت دی گئی ہے۔ پھر بھی اگر مضمون نگار کا خیال صحیح ہے تو بہ راہ ِ کرم دلائل سے وضاحت فرمائیں ، نوازش ہوگی۔ بہ راہ کرم یہ بھی وضاحت فرمائیں کہ کیا یزید صحابی تھا اسی لیے مضمون میں اسے ’حضرت یزید بن معاویہؓ ‘لکھا گیا ہے؟ یعنی اللہ اس سے راضی ہوا۔ کیا زمانۂ فتنہ جنگ جمل اور جنگ صفین ہی کا زمانہ تھا؟ اس کے بعد کا زمانہ نہیں تھا؟ اگر نہیں تو کیا زمانہ امن و سلامتی و ہدایت کے اعتبار سے راہِ نبوت و خلافت ِ راشدہ پر لوٹ آیا تھا؟ یعنی اموی و عباسی زمانہ زمانۂ فتنہ نہ تھا۔ اگر حضرت معاویہؓ کا دور، جس میں یزید بھی قسطنطنیہ کی جنگ میں بہ طور سربراہ شریک تھا، زمانۂ فتنہ نہ تھا اور فتنے کے زمانے سے نکل آیا تھا تو پھر اسے خلافت راشدہ کے دور سے تعبیر کیوں نہیں کیا جاتا؟ اگر دونوں زمانوں میں فرق تھا، جس کی وجہ سے دورِ خلافت ِ معاویہ کو خلافت ِ راشدہ کا دور نہیں قرار دیا جاتا تو وہ فرق کیا تھا؟
کیا جنگ ِ قسطنطنیہ ہی وہ پہلی بحری جنگ ہے جس کے متعلق ہمارے مقررین و مصنفین یہ فرماتے ہیں کہ پہلی بحری جنگ میں جو لوگ شریک ہوں گے اللہ نے انھیں بخش دیا۔ اس لیے ’حضرت یزید رضی اللہ عنہ‘ بھی بخشے گئے؟ کیا قسطنطنیہ میں یہی ایک جنگ ہوئی جس میں یزید بن معاویہ شریک ہوا تھا یا سربراہ تھا؟
ایک صاحب اپنی ایک مشہور ترین کتاب میں کعب احبار کو باقاعدہ ’کعب احبار ؓ ‘لکھتے ہیں ، جس سے یہ تاثر پیدا ہوتا ہے کہ یہ بھی کوئی صحابی تھے۔ کیا یہ صحابی تھے؟ اس لیے شناخت کے لیے ان کے نام کے ساتھ رضی اللہ عنہ لکھا جانا چاہیے، جیسا کہ مضمون مذکور میں یزید بن معاویہ کے نام کے ساتھ لکھا گیا ہے۔ امید ہے کہ تفصیلی وضاحت سے نواز کر ممنون و مشکور فرمائیں گے۔

کیا آں حضرت ﷺ نے بعض خواتین کو طلاق دی ہے؟

ایک رسالے میں ایک واقعہ نظر سے گزرا کہ حضور پاک ﷺ نے اسماء بنت نعمان نامی خاتون سے شادی کی، پھر خلوت سے پہلے طلاق دے دی اور بعد میں اسماء بنت نعمان نے نکاح ثانی کرلیا۔ مذکورہ واقعہ پڑھ کر حد درجہ حیرانی و پریشانی ہوئی، کیوں کہ حضور اقدسؐ کی نسبت سے یہ قصہ بالکل ناقابل فہم محسوس ہوتا ہے۔ بعض مقامی علماء کرام سے ذکر کیا تو وہ بھی ناقابل فہم بتلاتے ہیں ۔ لہٰذا میں بہت کرب و بے چینی کے عالم میں آپ سے درخواست کرتا ہوں کہ اس واقعے کی تحقیق کرکے جواب سے مشکور فرمائیں ۔

ام المومنین حضرت عائشہؓ کا کم سنی میں نکاح

عمر عائشہؓ کے حوالے سے آپ کا جواب نظر سے گزرا۔ غالباً اس حوالے سے جناب حکیم نیاز احمد کی کتاب ’کشف الغمۃ‘ مولانا حبیب الرحمن کاندھلوی، علاّمہ تمنا عمادی، جناب رحمت اللہ طارق اور علامہ محمود احمد عباسی کی تحریروں کو سامنے نہیں رکھا گیا ہے۔ شاید آپ کے زیر مطالعہ رہی ہوں ۔ مگر میں سمجھتا ہوں کہ جناب حکیم نیاز احمد کے دلائل کافی مضبوط ہیں ۔ اگر ممکن ہو تو اس حوالے سے تھوڑی تسلی کرادیں ۔

حجر اسود کی تاریخی اور شرعی حیثیت

حجر اسود کے بارے میں علمی بنیاد پر اس کے مختلف پہلوؤں سے واقف ہونے کے لیے چند سوالات پیش خدمت ہیں ۔ بہ راہ مہربانی ان کا جواب عنایت فرمائیے۔
(۱) حجر اسود کی تاریخی اور شرعی حیثیت کیا ہے؟
(۲) حجر اسود سب سے پہلے کس نبی کو کہاں اور کس طرح سے ملا تھا؟
(۳) حجر اسود کو سب سے پہلے خانہ کعبہ میں کس نبی نے اور کن حالات میں نصب فرمایا؟
(۴) حجر اسود سے طواف شروع کرنے کا سب سے پہلے حکم کس نبی کو دیا گیا تھا؟
(۵) بعض علماے اہل سنت، جو حجر اسود کو جنت سے اتارا ہوا پتھر نہیں مانتے اس بارے میں ان کی تحقیق اور نکتۂ نظر کیا ہے؟ اور وہ کس بنیاد پر اجماع امت اور سواد اعظم سے اختلاف کرتے ہیں ؟
(۶) مشرکین مکہ بھی حجر اسود کے عقیدت مند تھے۔ حجر اسود کے بارے میں ان کا عقیدہ کیا تھا اور وہ کس بنا پر یہ عقیدہ رکھتے تھے؟
(۷) حجر اسود سے متعلق یہ معروف اور اجماعی تصور کہ وہ جنت سے اتارا ہوا پتھر ہے، کیا عقائد میں شامل ہے؟ کیا اس سے علمی اختلاف کیا جاسکتا ہے؟ اس اختلاف سے اسلام اور مسلمانوں کو کوئی حرج ہوگا؟