حجر اسود کی تاریخی اور شرعی حیثیت

حجر اسود کے بارے میں علمی بنیاد پر اس کے مختلف پہلوؤں سے واقف ہونے کے لیے چند سوالات پیش خدمت ہیں ۔ بہ راہ مہربانی ان کا جواب عنایت فرمائیے۔
(۱) حجر اسود کی تاریخی اور شرعی حیثیت کیا ہے؟
(۲) حجر اسود سب سے پہلے کس نبی کو کہاں اور کس طرح سے ملا تھا؟
(۳) حجر اسود کو سب سے پہلے خانہ کعبہ میں کس نبی نے اور کن حالات میں نصب فرمایا؟
(۴) حجر اسود سے طواف شروع کرنے کا سب سے پہلے حکم کس نبی کو دیا گیا تھا؟
(۵) بعض علماے اہل سنت، جو حجر اسود کو جنت سے اتارا ہوا پتھر نہیں مانتے اس بارے میں ان کی تحقیق اور نکتۂ نظر کیا ہے؟ اور وہ کس بنیاد پر اجماع امت اور سواد اعظم سے اختلاف کرتے ہیں ؟
(۶) مشرکین مکہ بھی حجر اسود کے عقیدت مند تھے۔ حجر اسود کے بارے میں ان کا عقیدہ کیا تھا اور وہ کس بنا پر یہ عقیدہ رکھتے تھے؟
(۷) حجر اسود سے متعلق یہ معروف اور اجماعی تصور کہ وہ جنت سے اتارا ہوا پتھر ہے، کیا عقائد میں شامل ہے؟ کیا اس سے علمی اختلاف کیا جاسکتا ہے؟ اس اختلاف سے اسلام اور مسلمانوں کو کوئی حرج ہوگا؟

رضاعی ماں  سے رسول اللہ ﷺ کی بے توجہی؟

ضرت حلیمہ سعدیہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی رضاعی ماں تھیں ۔ انہوں نے آپ کوبچپن میں دودھ پلایا تھا ۔ کتبِ سیرت میں نہیں ملتا کہ آپؐ نے کبھی ان سے ملاقات کے لیے سفر کیا ہو۔ نہ نبی بنائے جانے سے پہلے نہ نبی بنائے جانے کے بعد ۔ اسلام میں رشتوں کا پاس و لحاظ رکھنے کی بڑی تاکید آئی ہے ۔ اس سلسلے میں خود آپ ؐ کے بہت سے ارشادات ہیں ۔ پھر خود آپ نے اس کاعملی مظاہرہ کیوں نہیں کیا؟بہ راہ ِ کرم اس اشکال کو دور فرمادیں ۔

رسول اللہﷺ کے بچپن کے بعض واقعات

جناب مائل خیرآبادی نے بچوں کے لیے ایک کتاب’ بڑوں کا بچپن‘کے نام سے لکھی ہے۔ اس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بچپن کے دو واقعات بیان کیے ہیں : پہلا واقعہ یہ ہے کہ ایک مرتبہ کسی لڑکے سے آپؐ کو معلوم ہوا کہ شہر میں ناچ گانے کی محفل لگتی ہے اورلوگ کھیل تماشوں سے دل بہلاتے ہیں ۔ آپ ؐ کے دل میں انہیں دیکھنے کا شوق ہوا ، لیکن اللہ تعالیٰ کویہ منظور تھا کہ آپؐ بچپن میں بھی پاک صاف اورنیک رہیں ۔ چنانچہ آپ جاتےجاتے راستے میں کسی کام سے رک گئے اور پھر نیند آگئی ۔ آپ سو گئے اورصبح تک سوتے رہے ۔ دوسرا واقعہ یہ ہے کہ ایک مرتبہ خانۂ کعبہ کی دیوار گرگئی۔ مکہ کے لوگوں نے مل جل کر اسے اُٹھانا شروع کیا ۔ اُٹھانے والوں میں آپ ؐ اورآپ کے چچا عباسؓ بھی شامل تھے۔ عباسؓ نے آپ کا کندھا۔ چھلا ہوا دیکھا تو آپؐ کا تہہ بندکھول کر آپ کے کندھے پررکھ دیا ۔ آپ ؐ مارے شرم کے بے ہوش ہوکر گرپڑے ۔ تھوڑی دیر میں ہوش آیا تو آپ کے منہ پر تھا۔ ’’میرا تہبند ، میرا تہبند ‘‘ جب آپ کا تہہ بند باندھ دیا گیا تو آپ ؐ کا دل ٹھکانے ہوا ۔
ان دونوں واقعات کے سلسلے میں بعض حضرات نے سخت اعتراض کیا ہے ۔ ان کا کہنا ہے کہ ان واقعات سے اللہ کے رسول ﷺ کی توہین ہوتی ہے ۔ یہ واقعات ثابت نہیں ہیں ۔ اس لیے انہیں مذکورہ کتاب سے نکال دینا چاہیے۔بہ راہِ کرم اس سلسلے میں رہ نمائی فرمائیں ۔ کیا یہ دونوں واقعات غیر مستند ہیں ؟

حضرت عمرؓ کے بیٹے کو شراب نوشی کی سزا

ایک واعظ صاحب نے مسجد میں خطبہ دیتے ہوئے فرمایا کہ حضرت عمرؓ کے ایک بیٹے نے شراب پی۔ حضرت عمرؓ نے اس پر حد جاری کی، یہاں تک کہ وہ مرگیا۔ اس کی جاں کنی کے وقت حضرت عمرؓ نے اس سے فرمایا ’’ بیٹا !اپنے رب سے ملاقات کے وقت کہنا کہ میرا باپ حد جاری کرنے میں پیچھے نہیں ہے ۔‘‘کیا یہ واقعہ صحیح ہے؟ براہِ کرم وضاحت فرمادیں ۔

کیا امام مالکؒ تابعی ہیں ؟

جناب مائل خیرآبادی کی ایک کتاب ’ہمارے بزرگ‘ کے نام سے ہے۔اس کی جلد دوم میں انہوں نے ائمہ اربعہ کے حالات تحریر کیے ہیں ۔امام مالکؒ کے تذکرے میں انہوں نے لکھا ہے کہ وہ ’’پیارے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے پیارے صحابی حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ کے پیارے بیٹے تھے۔‘‘آگے انہوں نے حضرت انسؓ کے بارے میں لکھا ہے کہ ’’وہ پیارے رسول ؐ کی خدمت میں  بچپن ہی میں  پہنچ گئے تھے۔‘‘
یہ بات مجھے کھٹک رہی ہے۔ کیا حضرت مالک بن انسؓ صحابی کے بیٹے ہیں ؟ براہِ کرم وضاحت فرمادیں ۔

انبیا وصلحاکے حدودو اختیارات

ہمارے یہاں کی جامع مسجد میں امام صاحب نماز جمعہ سے قبل بہت تفصیل سے خطبہ دیتے ہیں ، جس میں وہ دین کی باتیں بہت اچھی طرح سمجھاتے ہیں اور قرآنی آیات اوراحادیث نبوی سے استدلال کرتے ہیں ۔ ایک موقع پر انہوں نے اپنے خطبہ میں فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے نفع ونقصان کےمعاملے میں اپنے رسول کوبھی اختیار نہیں دیا ہے ۔ اسی طرح ہدایت کا معاملہ بھی اس نے اپنے پاس رکھا ہے ۔ کسی کوبھی، حتیٰ کہ کسی رسول یا کسی ولی کوبھی اس کا اختیار نہیں دیا ہے ۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ نے غیب کا علم بھی اپنے ساتھ خاص رکھا ہے ۔ کل کیا ہوگا؟ اس کی کسی انسان کو خبر نہیں ہے ۔ اسی لیے اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول سے فرمایا ہے : ’’ یہ نہ کہو کہ میں یہ کام کل کروں گا ، مگر ان شاء اللہ کہو ‘‘۔ امام صاحب نے یہ بھی فرمایا کہ دنیا میں شرک کرنے والوں نے جن جن کومعبود بنایا ہوگا اورانہیں خدا ئی میں شریک کیا ہوگا ، روزِقیامت اللہ تعالیٰ انہیں ان کے روٗبروٗ کھڑا کرے گا اور پوچھے گا کہ کیا انہوں نے اپنے پیروکاروں کواس کا حکم دیا تھا ؟ ان میں انبیاء بھی ہوں گے، حضرت عیسیٰ علیہ السلام بھی اور صالحین بھی۔ سب برأ ت کا اظہار کریں گے۔
نماز جمعہ کے بعد بعــض لوگوں کے درمیان چے می گوئیاں ہونے لگیں ۔ ان کا کہنا تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں یہ کہنا کہ انہیں کوئی اختیار نہیں ہے ، اسی طرح ان کی غیب دانی کا انکار کرنا ان کی توہین اوران کے حق میں گستاخی ہے۔ اسی طرح انبیاء وصلحاء کوان کے پیروکاروں کے سامنے کھڑا کرکے ان سے وضاحت طلب کرنا بھی ان کی توہین ہے۔ اس لیے امام صاحب کوایسی بات نہیں کرنی چاہیے اور انہوں نے جوکچھ کہا ہے اس پر معذرت طلب کرنی چاہیے۔
بہ راہِ کرم مطلع فرمائیں ، کیا امام صاحب نے خطبہ میں جوباتیں کہی ہیں وہ غلط ہیں اور قرآن وسنت کی تعلیمات سے ان کی تائید نہیں ہوتی۔

کعب احبار کون ہیں ؟

ایک کتاب میں بہت سےصحابہ کرام کی حکایات جمع کرکے پیش کی گئی ہیں ۔ اس میں حضرت کعب احبار کے بارے میں تحریر ہے:
’’ کعب احبار کہتے ہیں : ا س ذات کی قسم جس کے قبضے میں میری جان ہے، اگر میں اللہ کے خوف سے رؤوں اورآنسو میرے رخسار پر بہنے لگیں تو یہ مجھے اس سے زیادہ پسند ہے کہ پہاڑ کے برابر سونا صدقہ کروں ۔‘‘ ( حکایاتِ صحابہ ص ۳۹)
ایک دوسری کتاب میں لکھا گیا ہے :
’’کعب احبار سے نقل کیا گیا ہے کہ جوکثرت سے اللہ کا ذکر کرے وہ نفاق سے بری ہے ۔‘‘ (فضائل ذکر، ص ۵۵)
براہِ کرم واضح فرمائیں کہ یہ حضرت کعب احبار کیا وہی ہیں جن کا تذکرہ غزوۂ تبوک میں پیچھے رہ جانےوالوں میں ہوا ہے، یا یہ کوئی اورصحابی ہیں ؟

گدھا- رسول اللہ ﷺکی سواری؟

مرکزی مکتبہ اسلامی پبلشرز سے شائع شدہ جناب طالب ہاشمی کی کتاب ’خیر البشر کے چالیس جاں نثار ‘ میں حضرت معاذ بن جبل ؓ کے تذکرہ میں ایک جگہ ان کے حوالے سے لکھا ہوا ہے :’’ میں ایک دن گدھے پررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ سوارتھا اور آپؐ کے پیچھے بیٹھا ہوا تھا ۔‘‘ (ص۳۰۷:) یہ بات بڑی مضحکہ خیز معلوم ہوتی ہے ۔ گدھا چھوٹے قد اورمعمولی قسم کا جانورہے ۔ اس پر سواری کرنا معیوب سمجھا جاتا ہے ۔ اس کی جسامت اتنی مختصر ہوتی ہے کہ دو اشخاص اس پر سوارہی نہیں ہوسکتے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے گدھے کی سواری زیب نہیں دیتی اورآپؐ کے پیچھے ایک صحابی کا بیٹھنا عجیب سی بات معلوم ہوتی ہے۔
مجھے سنہ۲۰۱۱ء میں حج کی سعادت نصیب ہوئی اورتقریباً پینتالیس دنوں تک سعودی عرب میں میرا قیام رہا ۔ اس عرصہ میں مکہ معظمہ ، منیٰ ، عرفات اور مدینہ منورہ وغیر جانا ہوا ۔ پورے سفر میں کہیں بھی مجھے گدھا نظر نہیں آیا ۔کہیں ایسا تونہیں ہے کہ مصنف نے انگریزی الفاظ ASSیا DONKEY کا ترجمہ ’گدھا ‘ کردیا ہو ، جب کہ ان الفاظ کا اطلاق خچر پر بھی ہوتا ہے ۔ جسمانی ساخت میں خچر گھوڑے سے کم تر، لیکن اس کی نسل سے ہوتا ہے ۔ اسے سواری کے لیے استعمال کیا جاتا ہے ، جب کہ گدھے کوکہیں سوار ی کے لیے نہیں استعمال کیا جاتا ۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے اس طرح کے جملوں کا استعمال بے ادبی محسوس ہوتی ہے ۔ اس لیے مناسب معلوم ہوتا ہے کہ ایسے جملے خارج کردیے جائیں ۔

غار میں اصحابِ کہف کے قیام کی مدت

قرآن مجید وہ واحد کتاب ہے جس میں کسی غلطی کا شائبہ بھی نہیں ہوسکتا، لیکن بشر کے کلام میں غلطی اور سہو کے احتمال سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔
مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ نے ترجمۂ قرآن ومختصر حواشی میں سورہ ٔ کہف کی آیت ۲۵کا یہ ترجمہ کیا ہے :’’ اوروہ اپنے غارمیں تین سوسال رہے اور (کچھ لوگ مدت کے شمارمیں ) ۹سال اور بڑھ گئے ہیں ‘‘لیکن انہوں نے آیت ۲۱پر یہ فٹ نوٹ لکھا ہے:
’’یعنی جب وہ شخص کھانا خریدنے کے لیے شہر گیاتو دنیا بدل چکی تھی ۔بت پرست روم کو عیسائی ہوئے ایک مدت گزر چکی تھی۔ زبان ، تہذیب ، تمدن، لباس، ہرچیز میں نمایاں فرق آگیاتھا۔ دوسو برس پہلے کا یہ آدمی اپنی سج دھج ، لباس ، زبان، ہرچیز کے اعتبار سے فوراً ایک تماشا بن گیا اور جب اس نے پرانے زمانے کا سکہ کھانا خریدنے کے لیے پیش کیا تو دوکان دار کی آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئیں ۔ تحقیق کی گئی تو معلوم ہوا کہ یہ شخص توان پیروانِ مسیح میں سے ہے جو دوسو برس پہلے اپنا ایمان بچانے کے لیے بھاگ نکلے تھے۔ یہ خبر آنا فاناً شہر کی عیسائی آبادی میں پھیل گئی اور حکام کے ساتھ لوگوں کا ایک ہجوم غار پر پہنچ گیا ۔ اب جواصحابِ کہف خبردار ہوگئے کہ وہ دوسو برس بعد سو کر اٹھے ہیں تووہ اپنے عیسائی بھائیوں کو سلام کرکے لیٹ گئے اور ان کی روح پرواز کرگئی ‘‘۔ (ترجمۂ قرآن مع مختصر حواشی، سورہ ٔکہف ،حاشیہ ۵)
قرآن مجید واضح طورسے بیان کررہاہے کہ ’’وہ اپنے غار میں تین سوسال رہے ‘‘، لیکن مولانا مودودیؒ مذکورہ فٹ نوٹ میں بار بار ’دوسوسال ‘ کہتے ہیں ۔یہ ان سے چوک ہوگئی ہے ۔ یہ غلطی بشر ہونے کی صاف دلیل ہے ، لیکن اس تسامح سے مولانا مودودی کی عظمت ، بزرگی اور جلالتِ شان میں کوئی فرق نہیں پڑتا۔
مولانا مودودی مرحوم ہمیں بتاگئے ہیں کہ ’’تنقید سے بالا تر کوئی نہیں اورپیغمبروں کے علاوہ کوئی معصوم عن الخطا نہیں ۔‘‘ مولانا صلاح الدین یوسف نے لکھا ہے کہ جمہور مفسرین کے نزدیک ’’وہ اپنے غارمیں تین سوسال رہے ‘‘ اللہ کا قول ہے ، یہ انسانوں کا قول نہیں ہے۔‘‘ میرا معروضہ یہ ہے کہ ہم جمہور مفسرین کی بات مانیں گے یا مولانا موددی کی ؟‘‘

آد م علیہ السلام کاظلم

نافرمانی کی روک تھام کے لیے سزا کی ضرورت اورانتباہ سے کسی کوانکار نہیں ، مگر سزا سے بچنے کے لیے سزا کی نوعیت سمجھ سے بالاتر نہ ہو، ورنہ سزاکی نوعیت کاابہام نافرمانی کی طرف جھکاؤ کومہمیز کرسکتاہے۔
بائبل میں ہے کہ آدم علیہ السلام کو ممنوعہ درخت سے دورر کھنے کے لیے یہ سزا تجویز کی گئی کہ جب وہ ممنوعہ پھل کھائیں گے تو یقینی طورپر موت سے دوچار ہوں گے۔ اس سزا میں ابہام ہے۔ آدم علیہ السلام موت سے اس وقت ڈریں گے جب انھیں اس کی سختی کاتجربہ ہویاوہ موت کے مناظر دیکھ چکے ہوں ۔ بائبل میں یہ نہیں بتایا گیا ہے کہ آدم علیہ السلام موت کے مفہوم سے بہ خوبی واقف تھے۔
قرآن میں سزا یوں بتائی گئی ہے:
فَتَكُوْنَا مِنَ الظّٰلِــمِيْنَ (البقرۃ۳۵:)
’’ورنہ تم دونوں ظالموں میں شمار ہوگے۔‘‘
اورتوبہ کی دعا میں آدم علیہ السلام یوں کہتے ہیں :
رَبَّنَا ظَلَمْنَآ اَنْفُسَـنَا (الاعراف: ۲۳ )
’’اے ہمارے رب !ہم نے اپنے اوپر ظلم کیا۔‘‘
اب سوال یہ ہے کہ ظلم اورظالم جیسے تصورات سے حضرت آدم علیہ السلام کب اور کس طرح واقف ہوئے؟ اوراس کے عواقب کا مؤثر ادراک انھیں کیسے حاصل ہوا؟ کیاعلم الاسماء میں ان تصورات کو داخل سمجھا جائے؟