گائوں  میں نمازِ جمعہ

ہمارے گاؤں میں قیام نمازِ جمعہ کے سلسلے میں مسلمانوں میں تذبذب کی کیفیت ہے۔ بعض کا خیال ہے کہ نماز جمعہ ہونی چاہیے، جب کہ بعض کا خیال ہے کہ چوں کہ شرائط نہیں پائی جاتیں ، اس لیے نہیں ہونی چاہیے۔ لیکن اس بات پر سبھی کا اتفاق ہے کہ اگر معروف علماء کرام و دینی ادارے شریعت کی روشنی میں قیام کی اجازت مرحمت فرماتے ہیں تو ہم بہ خوشی نماز جمعہ کے قیام کے لیے آمادہ ہیں ۔ گاؤں کے حالات ذیل میں بیان کیے جا رہے ہیں ۔ براہ کرم اس سلسلے میں رہ نمائی فرمائیں ۔
گاؤں سے تقریباً چارکلو میٹر کے فاصلہ پر ایک قصبہ ہے ،جس میں جمعہ کی نماز ہوتی ہے۔ ہمارے گاؤں کی آبادی سرکاری اعداد و شمار کے حساب سے چار سو تیس(۴۳۰) افراد پر مشتمل ہے۔ ان میں نصف مسلم اورنصف غیر مسلم ہیں ۔ تقریباً سو (۱۰۰) گھر ہیں ، جن میں بالغ مسلم مردوں کی تعداد سو (۱۰۰)کے قریب ہے۔گاؤں میں دس حافظ قرآن اور دو عالم دین ہیں ۔ ایک سرکاری اسکول ہے، جس میں پانچویں کلاس تک تعلیم ہوتی ہے۔ وہاں چھوٹی بڑی پانچ دکانیں ہیں ۔
گاؤں کے اکثر لوگ نماز جمعہ ادا نہیں کرتے، بلکہ ظہر کی نماز ہی ادا کرتے ہیں ۔ قریب کے چار اور گاؤں میں بھی نماز جمعہ نہیں ہوتی۔ وہاں کے لوگوں میں سے جن کے پاس وسائل موجود ہیں وہ اُن مقامات پر چلے جاتے ہیں جہاں جمعہ کی نمازہوتی ہے۔ بعض ظہر کی نماز ادا کرتے ہیں ۔
یہ بات بھی مد نظر رہے کہ گاؤں میں تقریباً بیس(۲۰) سال قبل جمعہ کا آغاز کیا گیا تھا، لیکن درج بالا وجوہ سے دو تین ہفتہ کے بعدہی موقوف کر دیا گیا۔

گائوں  میں نمازِ جمعہ کاحکم

ایک بستی کی مجموعی آبادی تقریباً دو ہزار چار سو (۲۴۰۰) افراد پر مشتمل ہے، جن میں سے بالغ مردوں کی تعداد سات سو(۷۰۰)ہے۔ اس میں تین مسجدیں ہیں اور عید گاہ بھی ہے۔ اس آبادی میں دس بڑی پکی گلیاں ہیں ، جن میں بڑے بڑے ٹریکٹر وغیرہ نکل سکتے ہیں ۔پانچ چھوٹی پکی گلیاں ہیں اور پندرہ کچی بڑی گلیاں ہیں ۔ یہاں ضروریاتِ زندگی کا ہر طرح کا سامان ملتا ہے۔ ہر طرح کی دوکانیں ہیں ۔ گاؤں کی ایک مسجد میں ۱۹۷۶ء تک جمعہ ہوتا تھا، لیکن کچھ لوگوں کے کہنے پر (کہ اس بستی میں جمعہ قائم کرنے کی شرائط نہیں پائی جاتیں ) نماز جمعہ روک دی گئی تھی۔
برائے مہربانی مدلل و مفصل جواب مرحمت فرمائیں کہ کسی بستی میں نماز جمعہ کے قیام کی کیا شرائط ہیں ؟ کیا اتنی بڑی بستی میں کسی ایک مسجد میں بھی نماز جمعہ نہیں پڑھی جا سکتی؟ اگر نماز جمعہ جائز ہے تو کیا ایک ہی مسجد میں یا تینوں مسجدوں میں پڑھی جا سکتی ہے؟

خطبۂ جمعہ ایک شخص دے، نمازدوسرا شخص پڑھائے

میرے گھر سے کچھ فاصلہ پر ایک بڑی مسجد ہے، جس میں  خطبۂ جمعہ کا کچھ حصہ اردو زبان میں دیاجاتا ہے۔میں پابندی سے اس میں نماز پڑھنے جاتا ہوں ،اس لیے کہ خطبے میں کچھ دین کی باتیں سننے کو مل جاتی ہیں ۔ایک مرتبہ ایک صاحب نے خطبہ دیا،لیکن نماز دوسرے صاحب نے پڑھائی۔ مجھے عجیب لگا۔کیا یہ بات درست ہے کہ جمعہ کا خطبہ اور نماز الگ الگ افراد پڑھاسکتے ہیں ؟اس میں کوئی کراہت نہیں ہے؟

اگرنمازِ جمعہ کی ایک سے زائد جماعتیں ہوں توہرجماعت سے قبل خطبہ دینا ہوگا

کورونا کی وجہ سے نمازیوں کے درمیان کچھ فاصلہ رکھ کر نمازیں ادا کی جارہی ہیں ۔ جمعہ کی نماز میں لوگوں کی کافی بھیڑ ہو جاتی ہے۔ کیا اس صورت میں ایک مسجد میں جمعہ کی ایک سے زائد جماعتیں کی جا سکتی ہیں ؟ اگر ہاں تو کیا ہر جماعت کے لیے الگ خطبہ دینا ہوگا، یا ایک ہی خطبہ تمام جماعتوں کے لیے کافی ہے؟

مسجد کے مائک کی آواز پرگھر میں نمازِ جمعہ

میرا گھر مسجد سے متّصل ہے۔ مسجد میں مائک سے جمعہ کی نماز پڑھائی جاتی ہے تو اس کی آواز میرے گھر تک آتی ہے ۔ کیا میں اپنے گھر میں رہتے ہوئے مسجد کے امام کی اقتدا کرسکتا ہوں ؟

گائوں  میں نمازِ جمعہ کاحکم

ایک بستی کی مجموعی آبادی تقریباً دو ہزار چار سو (۲۴۰۰) افراد پر مشتمل ہے، جن میں سے بالغ مردوں کی تعداد سات سو(۷۰۰)ہے۔ اس میں تین مسجدیں ہیں اور عید گاہ بھی ہے۔ اس آبادی میں دس بڑی پکی گلیاں ہیں ، جن میں بڑے بڑے ٹریکٹر وغیرہ نکل سکتے ہیں ۔پانچ چھوٹی پکی گلیاں ہیں اور پندرہ کچی بڑی گلیاں ہیں ۔ یہاں ضروریاتِ زندگی کا ہر طرح کا سامان ملتا ہے۔ ہر طرح کی دوکانیں ہیں ۔ گاؤں کی ایک مسجد میں ۱۹۷۶ء تک جمعہ ہوتا تھا، لیکن کچھ لوگوں کے کہنے پر (کہ اس بستی میں جمعہ قائم کرنے کی شرائط نہیں پائی جاتیں ) نماز جمعہ روک دی گئی تھی۔
برائے مہربانی مدلل و مفصل جواب مرحمت فرمائیں کہ کسی بستی میں نماز جمعہ کے قیام کی کیا شرائط ہیں ؟ کیا اتنی بڑی بستی میں کسی ایک مسجد میں بھی نماز جمعہ نہیں پڑھی جا سکتی؟ اگر نماز جمعہ جائز ہے تو کیا ایک ہی مسجد میں یا تینوں مسجدوں میں پڑھی جا سکتی ہے؟

گائوں  میں نمازِ جمعہ

ہمارے گاؤں میں قیام نمازِ جمعہ کے سلسلے میں مسلمانوں میں تذبذب کی کیفیت ہے۔ بعض کا خیال ہے کہ نماز جمعہ ہونی چاہیے، جب کہ بعض کا خیال ہے کہ چوں کہ شرائط نہیں پائی جاتیں ، اس لیے نہیں ہونی چاہیے۔ لیکن اس بات پر سبھی کا اتفاق ہے کہ اگر معروف علماء کرام و دینی ادارے شریعت کی روشنی میں قیام کی اجازت مرحمت فرماتے ہیں تو ہم بہ خوشی نماز جمعہ کے قیام کے لیے آمادہ ہیں ۔ گاؤں کے حالات ذیل میں بیان کیے جا رہے ہیں ۔ براہ کرم اس سلسلے میں رہ نمائی فرمائیں ۔
گاؤں سے تقریباً چارکلو میٹر کے فاصلہ پر ایک قصبہ ہے ،جس میں جمعہ کی نماز ہوتی ہے۔ ہمارے گاؤں کی آبادی سرکاری اعداد و شمار کے حساب سے چار سو تیس(۴۳۰) افراد پر مشتمل ہے۔ ان میں نصف مسلم اورنصف غیر مسلم ہیں ۔ تقریباً سو (۱۰۰) گھر ہیں ، جن میں بالغ مسلم مردوں کی تعداد سو (۱۰۰)کے قریب ہے۔گاؤں میں دس حافظ قرآن اور دو عالم دین ہیں ۔ ایک سرکاری اسکول ہے، جس میں پانچویں کلاس تک تعلیم ہوتی ہے۔ وہاں چھوٹی بڑی پانچ دکانیں ہیں ۔
گاؤں کے اکثر لوگ نماز جمعہ ادا نہیں کرتے، بلکہ ظہر کی نماز ہی ادا کرتے ہیں ۔ قریب کے چار اور گاؤں میں بھی نماز جمعہ نہیں ہوتی۔ وہاں کے لوگوں میں سے جن کے پاس وسائل موجود ہیں وہ اُن مقامات پر چلے جاتے ہیں جہاں جمعہ کی نمازہوتی ہے۔ بعض ظہر کی نماز ادا کرتے ہیں ۔
یہ بات بھی مد نظر رہے کہ گاؤں میں تقریباً بیس(۲۰) سال قبل جمعہ کا آغاز کیا گیا تھا، لیکن درج بالا وجوہ سے دو تین ہفتہ کے بعدہی موقوف کر دیا گیا۔