عہدِ نبوی میں پردہ کا معمول
عہد نبوی میں خواتین کے درمیان کس طرح کا پردہ رائج تھا؟
عہد نبوی میں خواتین کے درمیان کس طرح کا پردہ رائج تھا؟
اسلام میں عورت کی آواز کے پردے سے کیا مراد ہے ؟ اگر آواز کا پردہ ہے تواس کا دائرہ کہاں تک ہے ؟ کیا کوئی خاتون مردوں اورعورتوں کے مشترکہ اجتماع میں درسِ قرآن یا درسِ حدیث یا تقریر کرسکتی ہے ؟ زندگی میں کئی مواقع ایسے آتے ہیں کہ عورت کو غیر مرد سے بات کرنی پڑتی ہے ۔ ایسے حالات میں عورت اپنی آواز کا پردہ کہاں تک کرسکتی ہے ؟
آج کل عورتوں میں چست لباس بہت عام ہوگیا ہے ، خاص طورپر جسم کے نچلے حصے میں پہناجانے والا لباس ۔چنانچہ ٹانگوں کو حجم بالکل نمایاں رہتا ہے ۔ دینی حلقوں کی خواتین بھی ایسا لباس زیب تن کرنے میں کوئی عارمحسوس نہیں کرتیں ۔ کیا ’عموم بلویٰ ‘کی وجہ سے ایسا لباس اب جوا ز کے دائرے میں آگیا ہے؟بہ راہ کرم وضاحت فرمائیں ۔
کہاجاتا ہے کہ قرآن میں پردے کے تناظر میں برقعہ پہننے کا صریح حکم موجود نہیں ہے۔ اس لیے صرف اوڑھنی سے سر اور چہرے کا پردہ کرنا اور ساتھ ہی جہاں تک ہوسکے جسم کا ڈھکنا کافی ہے۔ اسی طرح یہ بھی کہا جاتاہے کہ چوں کہ ہمارے یہاں کے مخصوص حالات کی وجہ سے تلاشی کے دوران برقعہ والی خواتین کا برقعہ ہٹا کر تلاشی لی جاتی ہے اس لیے بھی برقعہ نہ پہننا بہتر ہے۔
جہاں تک میرا علم ہے، برقعہ اوڑھنا اسلامی شعار ہے اور برقعہ یا حجاب کا صریح حکم قرآن میں ڈھونڈنا ناروا ہے۔ جب کہ سنت سے حجاب کی اہمیت اور فرضیت واضح ہے۔
دو پٹے، اوڑھنی یا چادر سے سر، چہرے اور جسم کو ڈھانکنا میرے خیال میں ناکافی ہی نہیں ، بلکہ دعوت ِ نظارہ کے مترادف ہے۔ چوں کہ عموماً ہم لوگ باہر نکلتے وقت اہتمام سے نئے، خوش رنگ اور نظر کو بھلے لگنے والے کپڑے زیب تن کرتے ہیں ، ساتھ ہی عورتیں عام استعمال کے کپڑے بھی فیشن کو ملحوظ رکھ کر خریدتی ہیں ۔ اس لیے اس طرح کے کپڑوں کو پردہ کیسے تصور کیا جاسکتا ہے؟ جہاں تک تلاشی کے دوران تنگ کیے جانے کا سوال ہے تو میرے خیال میں اس وجہ سے حجاب ترک کرنا بھی گناہ ہے۔ اسے ہم اضطراری حالت تو نہیں کہہ سکتے۔ بھلے ہی انسان دل کو مطمئن کرنے کے لیے کتنے بھی بہانے بنالے، ویسے بھی پردہ دار خواتین کے ساتھ بلاوجہ زیادتی کوئی بھی غیرمسلم، چاہے وہ پولیس والا ہو یا فوجی، نہیں کرتا۔ الا احیاناً۔
یونیورسٹی، آفسوں اور خصوصاً ہسپتالوں میں لڑکے اور لڑکیاں سارا سارا دن گفتگو اور ہنسنے مسکرانے میں گزار دیتے ہیں ۔ سمجھانے یا منع کرنے پر کہا جاتا ہے کہ ہم تو اسلام کے بارے میں Discussکرتے ہیں ۔ یہ کون سا اسلام ہے، جس پر اجنبی اور غیرمحرم مرد و زن بے پردگی اور عریانیت کے ساتھ مل کر Discussکرسکتے ہیں ۔ ایک توحرام کام اور پھر اس پر ’’اسلام پر "Discussکرکے ثواب بھی کمایا جارہاہے۔
یہ حالات سخت ذہنی کوفت کاسبب ہیں ، لیکن ہماری بات اس لیے اثر نہیں کرتی کہ ہم دینی تعلیم تو برائے نام بھی کسی مدرسے سے حاصل نہیں کرپائے، صرف مروجہ تعلیم کے ساتھ گھر پر والدین کی توجہ سے تھوڑا سا دین کا علم ہے۔ آپ سے گزارش ہے کہ مذکورہ بالا امور پر خصوصی توجہ سے ہماری رہ نمائی فرمایئے۔ شاید کہ کسی پر اثر ہو۔
آپ نے پردہ کے تعلق سے جو اظہار ِ خیال فرمایا ہے وہ قطعی غلط ہے۔ حضرت مولانا سید ابو الاعلیٰ مودودیؒ تفہیم القرآن جلد چہارم میں سورۂ احزاب کی تفسیر فرماتے ہوئے مذکورہ بالا غلط تعبیر کی تردید فرماتے ہیں ۔ جلد چہارمص: ۱۲۹ پر جو سیر حاصل بحث مولانا نے فرمائی ہے اس کو پیش نظر رکھیے اور اپنا جواب ملاحظہ فرمائیے تو حقیقت کا علم ہوگا۔ پتہ نہیں ، کیوں ؟ جماعت اسلامی کے علما اس طرح کا طرز عمل اختیار کرتے ہیں ۔ جماعت اسلامی کے ارکان و کارکنان ہی نہیں ، بلکہ جماعت سے دور کا تعلق اور حسن ِ ظن رکھنے والوں کے ہاں باستر مکمل مع چہرہ کے ڈھانپنے والے برقع کا چلن ہے، بلکہ سخت پابندی کے ساتھ ہے۔ پھر آپ کا طرز ِ عمل کس طرح کے برقع کے استعمال کا ہے؟ یعنی آپ اپنے اہلِ خاندان اور اہلیہ محترمہ کو مروجہ طرز کا برقع استعمال کرواتے ہیں یا پھر اسی طرح کا، جس کا اظہار آپ نے اپنے اس جواب میں دیا ہے؟
عورت کو پردے کا حکم ہے اور مرد بغیر پردے کے رہتا ہے۔ کیا یہ قرینِ انصاف ہے؟ کیا یہ مساوات مرد و زن کے تصور کے خلاف نہیں ہے؟ کیا اس سے عدل و انصاف کے تقاضے مجروح نہیں ہوتے؟ انسان کی عقل کہتی ہے کہ مرد اور عورت دونوں کو برابر کی سطح پر ہونا چاہیے۔ آخر عورت کے پردے کے لیے کیا وجہ جواز ہے؟
میں آپ کی کتاب دینیات کا انگریزی ترجمہ پڑھ رہی تھی۔ صفحہ ۱۸۲ تک مجھے آپ کی تمام باتوں سے اتفاق تھا۔ اس صفحے پر پہنچ کر میں نے آپ کی یہ عبارت دیکھی کہ ’’اگر عورتیں ضرورتاً گھر سے باہر نکلیں تو سادہ کپڑے پہن کر اور جسم کو اچھی طرح ڈھانک کر نکلیں ، چہرہ اور ہاتھ اگر کھولنے کی شدید ضرورت نہ ہو تو ان کو بھی چھپائیں ۔‘‘ اور اس کے بعد دوسرے ہی صفحے پر یہ عبارت میری نظر سے گزری کہ ’’کوئی عورت چہرے اور ہاتھ کے سوا اپنے جسم کا کوئی حصہ (باستثناے شوہر) کسی کے سامنے نہ کھولے خواہ وہ اس کا قریبی عزیز ہی کیوں نہ ہو۔‘‘ مجھے اول تو آپ کی ان دونوں عبارتوں میں تضاد نظر آتا ہے۔ دوسرے آپ کا پہلا بیان میرے نزدیک قرآن کی سورئہ النور آیت ۲۴ کے خلاف ہے اور اس حدیث سے بھی مطابقت نہیں رکھتا جس میں نبی ﷺ نے حضرت اسماءؓ سے فرمایا تھا کہ لڑکی جب بالغ ہو جائے تو اس کے جسم کا کوئی حصہ ہاتھ اور منہ کے سوا نظر نہ آنا چاہیے۔
کتاب کے آخر میں آپ نے لکھا ہے کہ ’’شریعت کے قوانین کسی مخصوص قوم اور مخصوص زمانے کے رسم و رواج پر مبنی نہیں ہیں اور نہ کسی مخصوص قوم اور مخصوص زمانے کے لوگوں کے لیے ہیں ۔‘‘ مگر قرآن کو دیکھنے سے یہ صاف معلوم ہوتا ہے کہ پردہ محض ایک رواجی چیز ہے اور اسے اسلام کی تعلیمات سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ کیا آپ یہ مانیں گے کہ آپ نے اسلامی قانون کی غلط تعبیر کرکے بہت سے لوگوں کو اسلام سے برگشتہ کرنے کا سامان کیا ہے؟ ہم یہ نہیں چاہتے کہ ہمارا اسلام اس طرح پیش کیا جائے جس سے اس زمانے کے نوجوان اس کو قبول کرنے سے بھاگیں ۔ اسلام کی عائد کردہ قیود سے بڑھ کر اپنی طرف سے کچھ قیود عائد کرنے کا کسی کو کیا حق ہے؟
(یہ ایک مسلمان خاتون کے انگریزی خط کا ترجمہ ہے جو امریکا سے آیا تھا)
مغربی معاشرے میں رہنے کی ایک دقت یہ ہے کہ دفاتر میں عموماًعورتیں ملازم ہیں ،تعارف کے وقت وہ مصافحے کے لیے ہاتھ بڑھاتی ہیں ۔ اگر ہم ہاتھ نہ ملائیں تو اسے وہ اپنی توہین سمجھتی ہیں ۔اسی طرح راستوں میں بھی اتنی بھیڑ ہوتی ہے کہ اگر پیدل چلتے وقت ہم نگاہ نیچی رکھیں تو دھکا لگ جانے کا ہر وقت خطرہ رہتا ہے۔
کیا شوہر بیوی کو کسی ایسے رشتہ دار یا عزیز کے سامنے بے پردہ آنے کے لیے مجبور کرسکتا ہے جو شرعاًبیو ی کے لیے غیر محرم ہو؟ نیز یہ کہ سسرال اور میکے کے ایسے غیر محرم قریبی رشتہ دار جن سے ہمارے آج کل کے نظامِ معاشرت میں بالعموم عورتیں پردہ نہیں کرتیں ، ان سے پردہ کرنا چاہیے یانہیں ؟اور اگر کرنا چاہیے تو کن حدود کے ساتھ؟
اگر کسی غیر محرم رشتہ دار کے ساتھ ایک ہی مکان میں مجبوراًرہنا ہو یا کوئی غیر محرم عزیز بطور مہمان آرہے ہوں تو ایسی حالت میں پردہ کس طرح کیا جاسکے گا؟اسی طرح کسی قریبی عزیز کے ہاں جانے پر اگر زنانے سے بلاوا آئے تو کیا صورت اختیارکی جائے؟