کرنسی نوٹ میں زکوٰۃ کا نصاب
زکوٰۃ کے لیے موجودہ کرنسی نوٹ کی مقدار کیا ہے؟ ساڑھے سات تولہ سونا کے برابر یا ۵۲ تولہ چاندی کے برابر کی رقم، معیار سونا ہے یا چاندی؟
زکوٰۃ کے لیے موجودہ کرنسی نوٹ کی مقدار کیا ہے؟ ساڑھے سات تولہ سونا کے برابر یا ۵۲ تولہ چاندی کے برابر کی رقم، معیار سونا ہے یا چاندی؟
زکوٰۃ کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ سید خاندان کو زکوٰۃ دینا جائز نہیں ہے۔ یعنی اس خاندان کے لوگوں کے لیے صدقہ یا زکوٰۃ لینا حرام ہے۔ اس کی کیا وجہ ہے؟
میرا تعلق درمیانی طبقہ سے ہے۔ میری شادی کو ایک سال سے کچھ زائد ہوچکا ہے۔ مجھے اپنی شادی میں اتنے زیورات ملے تھے، جن پر زکوٰۃ نکالنا فرض ہوجاتا ہے۔ زیورات پر زکوٰۃ کے سلسلے میں جب میں نے اپنے شوہر محترم سے رجوع کیا تو انھوں نے مجھے ایک عجیب سی الجھن میں ڈال دیا۔ کہنے لگے کہ زیورات آپ کی ملکیت ہیں ۔ ان کی زکوٰۃ آپ ہی کو نکالنی ہے۔ انھوں نے مہر کی رقم ادا کردی تھی۔ میں نے اس رقم کو بھی زیورات میں تبدیل کرلیا تھا۔ سسرال میں میرے پاس اپنی کوئی جائیداد تو ہے نہیں ۔ میری ساری جمع پونجی یہی زیورات ہیں ۔ ان کی زکوٰۃ کس طرح نکالوں ، یہ میری سمجھ میں نہیں آتا۔ زکوٰۃ کے لیے درکار پیسے کہاں سے لاؤں ؟ والدین کی طرف بھی رجوع نہیں کرسکتی، کیوں کہ وہ اپنی ضرورتیں بھی بڑی مشکل سے پوری کر پاتے ہیں ۔
یہ اکیلے میرا مسئلہ نہیں ہے۔ درمیانی طبقے کی ہماری زیادہ تر بہنوں کے پاس اپنے زیورات کے علاوہ اور کوئی جائداد تو ہوتی نہیں ہے۔ ہم اپنے زیورات بیچ کر ہی ان کی زکوٰۃ ادا کرسکتی ہیں ۔ اس طرح چند سالوں میں ان کی مالیت اتنی کم ہوجائے گی کہ زیورات کا اصل مقصد ہی فوت ہوجائے گا۔ درمیانی طبقے کی خواتین کے لیے یہ ایک پیچیدہ مسئلہ ہے۔ زکوٰۃ نہ نکالنے پر احساسِ گناہ کے ساتھ زیورات کو زیب تن کرنا ان کا مقدّر بن جاتا ہے۔
اس سلسلے میں دو سوالات جواب طلب ہیں :
(۱) کیا بیوی کی ملکیت والے زیورات کی زکوٰۃ نکالنا شوہر پر فرض نہیں ہے؟
(۲) اگر شوہر سے الگ بیوی کے پاس اپنی جداگانہ ملکیت ہو تو کیا اسلام میں اسے اپنی جائداد کے انتظام کی وہی آزادی حاصل ہے، جو شوہر کو اپنی جائداد کے لیے حاصل ہے؟
حالاتِ حاضرہ کا پیدا کردہ ایک سوال دریافت کرتا ہوں ۔یہ کہ کیا ہماری شریعت میں کسی کافر کو یہ حق پہنچتا ہے کہ وہ ہم سے صدقاتِ واجبہ وصول کرے یا یہ کہ حکومتِ کفر کی قانونی قوت کے ذریعے ان کی وصولی کا اہتمام کیا جائے، اور وہ اس طرح کہ اسمبلی میں ایک زکاۃ بل پاس کرالیا جائے؟اُمید ہے کہ واضح جواب دیا جائے گا۔
علماے حنفیہ بالعموم ادائگی زکاۃ کے لیے تملیکِ شخصی کو لازم قرار دیتے ہیں ۔اس لیے ان کا فتویٰ یہ ہے کہ حیلہِ تملیک کے بغیررفاہِ عام کے اداروں مثلاً مدارس اور شفا خانوں وغیرہ کے اجتماعی مصارف میں زکاۃدینا صحیح نہیں ۔ اس پر ایک مستفسر نے بعض اشکالات وسوالات علماے کرام کی خدمت میں پیش کیے تھے جو ترجمان القرآن، محرم۱۳۷۴ھ میں بھی شائع ہوئے تھے۔ سائل کا بنیادی اعتراض یہ تھا کہ فقہ حنفی میں تملیک کی جو شرط لگائی جاتی ہے اور اس کی بِنا پر جو فروعی احکام بیان کیے جاتے ہیں ،وہ صرف اسی صورت میں قابل عمل ہیں جب کہ لوگ انفرادی طور پر زکاۃ نکال کر انفرادی طور پر ہی اسے خرچ کریں ۔ لیکن اجتماعی طور پر مثلاً اسلامی حکومت کے ذریعے سے اگر زکاۃ کی وصولی وصرف کا انتظام کیا جائے تو شرط تملیک اپنے جزوی احکام کے ساتھ ایک دن بھی نہیں چل سکتی۔کیوں کہ زکاۃ کے نظام کو وسیع اور مستحکم کرتے ہوئے زکاۃ کی تقسیم وتنظیم،حمل ونقل اور متعلقہ ساز وسامان کی فراہمی میں بے شمار شکلیں ایسی پیدا ہوں گی جن میں شرطِ تملیک کی پابندی محال ہوگی۔ ان سوالات کا جو جواب دیا گیا تھا وہ درج ذیل ہے:
جس فتوے پر یہ سوالات کیے گئے ہیں ،میرے نزدیک وہ آیت اِنَّمَا الصَّدَقٰتُ لِلْفُقَرَآئِ… کی اس تأویل کے اعتبار سے بھی صحیح نہیں ہے جو حنفیہ نے اختیار فرمائی ہے۔اس مطلب کو سمجھنے کے لیے آیت کے الفاظ پر ایک نگاہ ڈال لیں ۔اﷲ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
اِنَّمَا الصَّدَقٰتُ لِلْفُقَرَاۗءِ وَالْمَسٰكِيْنِ وَالْعٰمِلِيْنَ عَلَيْہَا وَالْمُؤَلَّفَۃِ قُلُوْبُہُمْ ( التوبۃ:۶۰)
’’صدقات تو فقرا کے لیے ہیں اور مساکین کے لیے،اور ان لوگوں کے لیے جو ان پر کام کرنے والے ہوں ،اور ان کے لیے جن کی تالیف قلب مقصود ہو…۔‘‘
زکاۃجمع کرنے اور ا س کا انتظام کرنے کے لیے جو عملہ رکھا جائے اس کی تنخواہیں ، الائونس، پنشن، پراویڈنٹ فنڈ اور شرائط ملازمت کیا ہونی چاہییں ؟
فطرہ کی مقدار کے بارے میں بڑا اختلاف پایا جاتا ہے۔کوئی سوا سیر گیہوں دیتا ہے تو کوئی پونے دو سیر‘ اور کوئی سوا دوسیر۔ صحیح مقدار کیا ہے اور اس سلسلے میں آپ کا عمل کیا ہے؟
فطرہ کے سلسلے میں دوسری بات یہ دریافت کرنی ہے کہ اگر کوئی شخص خود صاحب نصاب نہیں ہے بلکہ اس کی بیوی صاحب نصاب ہے توفطرہ محض بیوی پر واجب ہوگا یا شوہر پر بھی؟ اور یہ کہ اولاد کی طرف سے بھی فطرہ دیا جائے گا یا نہیں ؟
کیا یہ لازمی ہے کہ زکاۃ کی رقم کا ایک حصہ ان مصارف میں سے ہر ایک مصرف پر خرچ کرنے کے لیے الگ رکھا جائے جن کا قرآن کریم میں ذکر آیا ہے یا زکاۃ کی پوری رقم قرآن مجید میں بتائے ہوئے تمام مصارف پر خرچ کرنے کے بجاے ان میں سے کسی ایک یا چند مصارف میں بھی خرچ کی جاسکتی ہے۔
کیا یہ ضروری ہے کہ زکاۃ جس علاقے سے وصول کی جائے،اُسی علاقے میں خرچ کی جائے یا اُس علاقے سے باہر یا پاکستان سے باہر تالیف قلوب کے لیے یا آفات ارضی وسماوی مثلاً زلزلہ یا سیلاب وغیرہ کے مصیبت زدگان کی امداد پر بھی خرچ کی جاسکتی ہے؟اس سلسلے میں آپ کے نزدیک علاقے کی کیا تعریف ہوگی؟