وقت ضرورت ڈاڑھی چھوٹی کرالینا یا منڈوالینا جائز ہے

کورونا وائرس کے علاج معالجہ میں جو ڈاکٹر اور دیگر طبی عملہ کے لوگ لگے ہوئے ہیں ان کے تحفظ کے لیے غیر معمولی اقدامات کیے جارہے ہیں ۔ ان کا پورا جسم ڈھکا ہوا ہوتا ہے اور وہ چہرے پر ماسک لگاتے ہیں ۔ڈاڑھی لمبی ہو تو اس پر ماسک ٹھیک سے فٹ نہیں ہوتا، دوسرے اس سے انفیکشن ہونے کا امکان بڑھ جاتا ہے۔ اس بنا پر ڈاڑھی والے ڈاکٹروں سے کہا جا رہا ہے کہ وہ شیو کرالیں ۔
ایک ڈاکٹر جو دینی جذبے سے ڈاڑھی رکھے ہوئے ہے، ان حالات میں کیا کرے؟ کیا وہ شیو کرالے، یا اس موقع پر اپنی خدمات سے معذرت کرلے؟

سال گرہ پرمبارک باددینا

سال گرہ سے متعلق چند سوالات ہیں ۔ بہ راہِ کرم قرآن وسنت کی روشنی میں رہ نمائی فرمائیں :
– کیا کوئی مسلمان اپنی سال گرہ منا سکتا ہے؟
– کیا کوئی غیر مسلم ہماری تاریخ پیدائش پر ہمیں مبارک باد دے تواسے قبول کرنا چاہیے؟
– کیا کسی غیر مسلم کی سال گرہ پر اسے مبارک باد دینا، شال اورپھولوں کے گل دستے سےاس کا استقبال کرنادرست ہے؟

ٹخنے سے نیچے کپڑا ہونے کی ممانعت

مردوں کے لیے ٹخنے سے نیچے لنگی،پاجامہ،پینٹ یا کرتا وغیرہ پہننا جائز ہے یا ناجائز ؟ کیا حکم ہے؟ بعض روایات میں ’تکبر‘ کی شرط ہے، اس کی بھی وضاحت فرمادیں ۔ آج کل اکثر لوگ ٹخنے سے نیچے کپڑاپہنتے ہیں اور کہتے ہیں  کہ میرے دل میں  تکبر نہیں  ہے۔کیا ان کا یہ کہنا کافی ہے؟ کیا ایسا کرنے سے حدیث رسول ﷺ کی مخالفت نہ ہوگی؟

نذر کی شرعی حیثیت

بعض لوگ نذر مانتے ہیں کہ اگر میرا فلاں کام ہوگیا تو میں اتنی رکعت شکرانہ نماز ادا کروں گا یا اتنی رقم خیرات کردوں گا؟ یہ تو اللہ تعالیٰ سے سودے بازی معلوم ہوتی ہے۔ کیا اس طرح نذر ماننی درست ہے؟ بہ راہِ کرم نذر کی شرعی حیثیت سے آگاہ فرمائیے۔

دینی اجتماعات میں خواتین کے لیے پروجیکٹر کا استعمال

ادارہ فلاح الدارین کے نام سے ہم ایک ادارہ چلا رہے ہیں ، جس کے تحت مختلف اوقات میں کانفرنسوں اور دینی اجتماعات کا انعقاد کیا جاتا ہے۔ ان میں عورتوں کو بھی مدعو کیا جاتا ہے، لیکن بدقسمتی سے ہمارے یہاں مساجد میں خواتین کے لیے الگ جگہیں مخصوص نہیں ہوتی ہیں ۔ اس وجہ سے ہم انھیں مسجد کی دوسری منزل پر بٹھاتے ہیں ۔ چوں کہ مقرر سامنے نہ ہونے کی وجہ سے خواتین کی توجہ پروگرام سے ہٹ جاتی ہے اور مقصد فوت ہوجاتا ہے، اس لیے اگر پروگرام کو مؤثر بنانے کے لیے خواتین کے لیے Projectorیا L.C.D.کا انتظام کیا جائے تو کیا ایسا کرنا جائز ہوگا؟ مہربانی کرکے ہماری رہ نمائی فرما کر مشکور فرمائیں ۔

دینی اجتماعات کی فوٹو گرافی

آج سے بیس پچیس سال قبل جماعت اسلامی ہند میں فوٹو گرافی اور فوٹو کھنچوانے کا رواج نہیں تھا۔ ہمارے علماء اور اکابر اسے ناپسند کرتے تھے، کسی جلسۂ عام میں اگر پریس رپورٹر آجاتے تھے، ان کے پاس کیمرے ہوتے تو وہ فوٹو کھینچ لیا کرتے تھے۔ ہمارے علماء اور اکابر میں ایسے بھی تھے، جو فوٹو گرافی کروانے سے منع کردیتے تھے۔ بعض ایسے بھی تھے جو کیمرے کی زد میں آنے سے بچنے کے لیے چہرے پر کسی کاپی یا کتاب کی اوٹ کرلیا کرتے تھے۔ ان کا یہ رویہّ تحریکی مزاج اور تقویٰ سے کس حد تک ہم آہنگ تھا، یہ وہ جانیں ۔ یہ وہ علماء اور اکابر تھے، جو ناگزیر ضرورت سامنے آنے پر ہی فوٹو کھنچواتے تھے۔ مگر اب یعنی مولانا ابو اللیث ندویؒ کی امارت کے بعد سے فوٹو گرافی اور فوٹو کھنچوانے کی ہمارے یہاں ایک وبا سی آگئی ہے اور اس وبا کو جنم دینے اور پروان چڑھانے میں ہماری قیادت کا مؤثر رول ہے۔
قرآن حکیم، حضرت محمد ﷺ اور حقوق انسانی کے تحفظ وغیرہ عنوانات پر جماعت نے جو حلقے اور کل ہند سطح پر مہمیں چلائی ہیں ان میں تو گویا فوٹو گرافی کا ایک زبردست طوفان امڈ پڑا تھا۔ اب ہمارا کوئی بھی اجتماع، خواہ وہ ضلع کی سطح کا ہو یا صوبہ کی سطح کا، ہمارا کوئی بھی خطاب عام، خواہ کہیں بھی ہو، فوٹو گرافروں کی خدمات حاصل کیے بغیر نہیں ہوتا۔ ہمارا اسٹیج اب اتنی وسعت اختیار کر گیا ہے کہ اس پر درجہ بہ درجہ ذمہ داران کے جلوہ افروز ہونے اور فوٹو کھنچوانے کی گنجائش پیدا کرلی گئی ہے۔ ہمارے ملکی سیشن، ملّی سیشن، سمپوزیم اور سیمینار میں اظہارِ خیال کرنے والوں کے فوٹو (مسلم و غیر مسلم دونوں کے) پورے اہتمام کے ساتھ کھنچوائے جاتے ہیں ۔ بعد میں ان کی طلب پر اور اکثر بلاطلب ان کے پاس ارسال کیے جاتے ہیں ۔ ہمارے دفاتر میں ان فوٹوؤں کے البم قطار اندر قطار سجا کر رکھے جاتے ہیں ۔ حتی کہ خواتین کے اجتماعات میں بھی فوٹو گرافی ہوتی ہے۔
بعض ذمے داران سے جب دریافت کیا جاتا ہے کہ یہ سب کیااور کیوں ہورہا ہے؟ تو جواب ملتا ہے کہ ’’یہ دور سائنس اور ٹکنالوجی کا دور ہے۔ اگرہم یہ سب نہ کریں گے تو بہت پیچھے رہ جائیں گے۔‘‘ جائز ناجائز کی بات کیجیے تو جواب ملتا ہے کہ ’’موجودہ حالات نے ہمیں مجبور کردیا ہے کہ ہم یہ سب کچھ کریں ۔ ہم ان سے بچنا چاہیں بھی تو نہیں بچ سکتے۔‘‘ جواب کی تان یہاں آکر ٹوٹتی ہے کہ یہ سب تو ہمارے اکابر اور علماء کرام خود مرکز جماعت میں کرتے ہیں اور دوروں میں ان کے جو پروگرام ہوتے ہیں ان میں ان کی مرضی اور ہدایت سے یہ سب کچھ ہوتا ہے۔ پھر جب ہم اپنے مرکزی علماء کرام اور قائدین سے دریافت کرتے ہیں تو جواب میں ہمیں مسکراہٹ آمیز خاموشی سے سابقہ پیش آتا ہے۔ میرے نزدیک آپ بھی تحریک و جماعت کے قابلِ ذکر علماء میں سے ایک ہیں ،جن کی نظر قرآن حکیم اور سنت ِ رسولؐ پر گہری ہے، جو تحریک و جماعت کے مزاج شناس ہیں ۔ میں آپ سے دریافت کرنا چاہتا ہوں کہ خود آپ کا ضمیر، آپ کا علم قرآن و سیرت اس سلسلے میں کیا کہتا ہے؟

کمیشن پر چندہ

یہاں مسجد اور مدرسے کے چندے کے لیے کمیشن سسٹم رائج ہے۔ منتظمین کا کہنا ہے کہ تنخواہ کے مقابلے میں کمیشن (جو پچیس سے پچاس فی صد ہوتا ہے) پر چندے کی وصولی زیادہ ہوتی ہے۔ کیا شرعی نقطۂ نظر سے یہ طریقہ جائز ہے؟

گھر سے نکلنے کے آداب

میں ایک انٹر کالج میں معلمی کے فرائض انجام دیتا ہوں ۔ ہم اساتذہ میں دینی معلومات کی کمی کے باعث بعض معاملات میں بحث و مباحثہ ہوجایا کرتا ہے۔ ایک موقعے پر ہمارے درمیان اس معاملے میں اختلاف ہوگیا کہ گھر سے نکلتے وقت داہنا پیر پہلے نکالنا چاہیے یا بایاں پیر؟ ایک مقامی عالمِ دین سے رجوع کیا گیا تو انھوں نے داہنا پیر پہلے نکالنے کی بات بتائی اور دلیل یہ دی کہ رسول اللہ ﷺ ہر کام دائیں طرف سے شروع کرتے تھے۔ ایک دوسرے عالمِ دین نے کسی حدیث کا حوالہ دیتے ہوئے فرمایا کہ مسجد اور گھر امن کی جگہ ہے، چناں چہ مسجد اور گھر سے نکلتے وقت پہلے بایاں پیر باہر نکالنا چاہیے۔ علماء کے متضاد جوابات سے ہمیں کنفیوژن ہوگیا ہے۔ بہ راہِ کرم اس سلسلے میں ہماری صحیح رہ نمائی فرمائیں ۔ رسول اللہﷺ کا طریقہ کیا تھا؟ ہم لوگوں کو کیا طریقہ اپنانا چاہیے؟

وسوسوں کا علاج

مجھے وسوسے بہت آتے ہیں اور ایسے آتے ہیں کہ بسا اوقات خطرہ محسوس ہوتا ہے کہ کہیں یہ گناہِ کبیرہ یا شرک کے دائرے میں نہ آگیا ہو۔ میری ملازمت ایسی ہے کہ مجھے جنس مخالف سے اکثر و بیش تر ملتے رہنا پڑتا ہے۔ اگر اللہ تعالیٰ نے مجھے نہ بچایا ہوتا تو یقینا میں زنا جیسے فعل کا مرتکب ہوجاتا۔ لیکن اللہ کا فضل ہے کہ لمحۂ آخر میں وہ مجھے ضرور اس دلدل سے بچا لیتا ہے، لیکن نگاہ کا اور کچھ فعل بد کا عمل سرزد ہوجاتا ہے۔ برائے مہربانی مجھے کوئی وظیفہ یا کوئی طریقہ ایسا بتائیے کہ میں ان دونوں افعال سے بچ جاؤں ۔