مخالف ماحول میں ہم کیا کریں ؟

میں دینی مزاج رکھتی ہوں ، لیکن میری سسرال والے بالکل دین پسند نہیں ہیں ۔ انہیں نماز روزے سےکوئی مطلب ہے نہ زکوٰۃ ادا کرتے ہیں ۔ میں انہیں سمجھانے کی کوشش کرتی ہوں تو وہ برا مانتے ہیں ۔ میری سمجھ میں نہیں آرہا ہے کہ میں کیسے ان کی اصلاح کروں ؟ میں بہت پریشان ہوں ۔ بہ راہِ کرم میری رہ نمائی فرمائیں ۔

مریض سے مصنوعی تنفّس کے آلات کب ہٹائے جاسکتے ہیں ؟

کسی بھی بیماری کے نتیجے میں جب مریض موت کے قریب پہنچ جاتا ہے تو اس کے جسم کا ایک ایک عضو بے کار ہونے لگتا ہے۔ ایسے میں اس مریض کو مشین (Ventilator) کے ذریعے مصنوعی تنفس دیا جاتا ہے۔ بلڈ پریشر کم ہونے لگے تو اسے نارمل رکھنے کے لیے انجکشن لگائے جاتے ہیں ۔ خون میں سوڈیم، پوٹیشیم وغیرہ کی کمی ہوجائے تو ان کو بھی خون کی رگوں میں چڑھایا جاتا ہے۔ ایسا مریض (Intensive Care Unit) I.C.Uمیں مشینوں اور نلکیوں کے درمیان گھری ہوئی ایک زندہ لاش کی مانند ہوتا ہے۔ طب میں ایک اصطلاح ’دماغی موت‘ (Brain Death)کی استعمال ہوتی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر انسانی دماغ کو آکسیجن نہ ملے تو چار منٹ کے اندر اس کے اہم حصے (Centers) مر جاتے ہیں ۔ دماغی موت کے بعد بھی انسان زندہ رہتا ہے اور کسی بھی ذریعے سے یہ معلوم کرنا ممکن نہیں ہوتا کہ دماغ کا کتنا حصہ متاثر ہوا ہے؟ ایسے مریضوں کو اس امید پر کہ جب تک سانس ہے تب تک آس ہے، کئی کئی دنوں تک ونٹی لیٹر پر رکھا جاتا ہے۔
سوال یہ ہے کہ کیا ایسے مریض کو، جس کی دماغی موت واقع ہوچکی ہو، ونٹی لیٹر پر رکھنا درست ہے؟ یہ طبی اخلاقیات کا ایک اہم مسئلہ ہے، بالخصوص ہمارے ملک میں جہاں ایک عام آدمی I.C.U. کا مہنگا علاج زیادہ دنوں تک برداشت نہیں کرسکتا۔ ایک بات یہ بھی ہے کہ جہاں I.C.U.میں بستروں اور مشینوں کی پہلے ہی سے کمی ہو، وہاں ایسے مریض کو، جس کی زندگی کی امید تقریباً ختم ہوچکی ہو، کئی کئی دنوں تک رکھا جائے تو نئے آنے والے مریضوں کے لیے گنجائش باقی نہیں رہتی، جب کہ ان پر زیادہ توجہ دے کر ان کی زندگی بچائی جاسکتی ہے۔
بہ راہ مہربانی اس مسئلے کو اسلامی نقطۂ نظر سے واضح فرمائیں ۔

صحابۂ کرامؓ کے کرداروں پر مبنی ادا کاری

میرے موضع میں کچھ حضرات ویڈیو ٹیپ لائے ہیں ، جن میں جنگ ِ بدر اور کچھ دوسرے غزوات کی منظر کشی کی گئی ہے۔ صحابۂ کرامؓ دکھائے گئے ہیں ۔ البتہ حضور ﷺ کی شبیہ دکھانے سے احتراز کیا گیا ہے۔ آواز سنائی گئی ہے۔ لوگ بڑی عقیدت سے اسے دیکھتے ہیں ۔ کیا ایسے کیسٹ بنانا اور دیکھنا مناسب ہے؟ جب کہ یہ سب کو معلوم ہے کہ ایسی منظر کشی میں کیسٹ بنانے والے کو اختیار ہوتا ہے کہ وہ اپنے خیالات کی آمیزش کرلے۔
بہ راہِ کرم اس مسئلے پر مدلل اظہار فرمائیں ۔ کیا صرف حضوؐر کی شبیہ کو دکھانا ہی قابل ِ اعتراض ہے یا صحابۂ کرامؓ کی منظر کشی بھی نہیں ہونی چاہیے؟

طبی اخلاقیات

طب کے میدان میں ڈاکٹروں ، اسپتالوں ، تشخیصی مراکز (لیباریٹری وغیرہ) اور دوا ساز کمپنیوں کا طرز عمل کچھ یوں ہے:
(۱) ایک ڈاکٹر دوسرے ڈاکٹر کو مریض حوالے(Refer)کرتا ہے، مگر اس وقت جب دوسرا ڈاکٹر پہلے ڈاکٹر یعنی حوالے کرنے والے کو اپنے بل کا ۲۰ سے ۳۰ فی صد دے۔ اگر کوئی ایسا نہیں کرتا تو اسے کیس ریفر نہیں کیے جاتے، بل کہ کئی بار تو اس میں مقابلے کی کیفیت ہوتی ہے، یعنی جو زیادہ دیتا ہے اسے مریض ریفر کیے جاتے ہیں ۔ یہ مارکیٹ کا تقریباً طے شدہ اصول ہے اور اس کی ادائی باضابطہ چیک سے ہوتی ہے۔
(۲) تشخیصی مراکز کا بھی یہی معاملہ ہے۔ ایک ڈاکٹر مخصوص مرکز سے ہی اپنے مریضوں کے ٹسٹ کرواتا ہے، جہاں سے اسے بل کا طے شدہ حصہ ملتاہے، جو کبھی کبھی ۴۰ فی صد تک ہوتا ہے۔ اس میں عموماً مریض سے جو کچھ لیا جاتا ہے وہ یکساں رہتاہے۔ ڈاکٹر لے یا نہ لے اور گاہے ڈاکٹر کے کہنے پر کچھ تخفیف بھی کردی جاتی ہے، جس سے مریض کو تھوڑا فائدہ ہوتا ہے، مگر ایسا بہت کم ہوتا ہے۔
(۳) دوا ساز کمپنیاں اپنی مصنوعات کو بڑھا وا دینے کی خاطر اطباء کو کچھ مراعات (مثلاً تحفے جو معمولی سے لے کر کار، بیرون ملک سفر اور دوسرے خاطر خواہ فوائد، جو تجارتی زبان میں Incentivesکہلاتے ہیں ) دیتی ہیں ۔ یہ ڈھکی چھپی بات نہیں ، بل کہ اس بات کے لیے کمپنیوں میں باضابطہ فنڈ ہوتا ہے۔
(۴) پھر کچھ کمپنیاں کھلے طور سے یہ کہتی ہیں کہ جتنا زیادہ ہماری مصنوعات کو بڑھاوا دیں گے اسی قدر آپ کو زیادہ سے زیادہ Incentive دیا جائے گا۔
(۵) کچھ اطبا دوا ساز کمپنیوں سے اپنی مشتہری کا کام کرواتے ہیں ، جس پر تمام پیسہ کمپنی خرچ کرتی ہے۔ اس کے عوض ڈاکٹر اس مخصوص کمپنی کی مصنوعات تجویز کرنے میں امتیاز سے کام لیتے ہیں ۔
ان حالات کے مد ِ نظر درج ذیل سوالات پیدا ہوتے ہیں :
٭ کیا اس طرح کا لین دین، جو ڈاکٹروں کے مابین ہو، یا تشخیصی مراکز اور اطباء کے مابین ہو، جائز ہے یا نہیں ؟
٭ کیا دواساز کمپنیوں سے مراعات لی جاسکتی ہیں ؟
٭ کیا دوا ساز کمپنی سے اپنے کاروبار / کسب کے بڑھاوے کے لیے مشتہری کا کام لیا جاسکتا ہے؟
ان امور میں قرآن و سنت کی رہ نمائی مطلوب ہے۔ اللہ آپ کو بہترین بدلہ عطا کرے اور اپنا قرب بخشے۔

قرآن کے بوسیدہ اوراق کے ساتھ کیا کیا جائے؟

گزشتہ دنوں اخبار میں ایک خبر شائع ہوئی ہے کہ ممبرا کے ایک علاقے میں قرآن کے اوراق کوڑے دان میں ملتے ہیں اور کوڑا چننے والی ایک غیر مسلم عورت انھیں جمع کرکے ایک مسلمان دوکان دار کو دیتی ہے۔ یہ کام وہ نیکی سمجھ کر کرتی ہے۔ مسلم اکثریت والے علاقے میں یہ کام مسلمانوں کا ہی معلوم ہوتا ہے۔ افسوس ہوتا ہے ان مسلمانوں پر جو دانستہ یا نادانستہ طور پر قرآن کے اوراق کے ساتھ یہ معاملہ کرتے ہیں ۔
اس موقع پر بعض علما کی طرف سے یہ اپیل شائع کی گئی کہ اگر قرآن کے بوسیدہ اوراق کو ضائع کرنے کی ضرورت پڑ جائے تو انھیں زمین میں دفن کردیا جائے یا سمندر میں پھینک دیا جائے۔ مگر یہ معلوم ہے کہ سمندر کوئی چیز اپنے پیٹ میں نہیں رکھتا۔ اسے واپس کنارے پر لگا دیتا ہے۔ یعنی پھر وہی بے حرمتی۔
آپ سے گزارش ہے کہ اس کا کوئی بہتر حل ہمیں بتائیں ۔ صحابۂ کرامؓ کے دور میں بھی ایسا مسئلہ پیش آیا ہوگا۔ انھوں نے اس وقت کیا رویہ اختیار کیا تھا؟ امید ہے قرآن و حدیث کی روشنی میں جواب دیں گے۔

نذر کی شرعی حیثیت

بعض لوگ نذر مانتے ہیں کہ اگر میرا فلاں کام ہوگیا تو میں اتنی رکعت شکرانہ نماز ادا کروں گا یا اتنی رقم خیرات کردوں گا؟ یہ تو اللہ تعالیٰ سے سودے بازی معلوم ہوتی ہے۔ کیا اس طرح نذر ماننی درست ہے؟ بہ راہِ کرم نذر کی شرعی حیثیت سے آگاہ فرمائیے۔

دینی اجتماعات میں خواتین کے لیے پروجیکٹر کا استعمال

ادارہ فلاح الدارین کے نام سے ہم ایک ادارہ چلا رہے ہیں ، جس کے تحت مختلف اوقات میں کانفرنسوں اور دینی اجتماعات کا انعقاد کیا جاتا ہے۔ ان میں عورتوں کو بھی مدعو کیا جاتا ہے، لیکن بدقسمتی سے ہمارے یہاں مساجد میں خواتین کے لیے الگ جگہیں مخصوص نہیں ہوتی ہیں ۔ اس وجہ سے ہم انھیں مسجد کی دوسری منزل پر بٹھاتے ہیں ۔ چوں کہ مقرر سامنے نہ ہونے کی وجہ سے خواتین کی توجہ پروگرام سے ہٹ جاتی ہے اور مقصد فوت ہوجاتا ہے، اس لیے اگر پروگرام کو مؤثر بنانے کے لیے خواتین کے لیے Projectorیا L.C.D.کا انتظام کیا جائے تو کیا ایسا کرنا جائز ہوگا؟ مہربانی کرکے ہماری رہ نمائی فرما کر مشکور فرمائیں ۔

دینی اجتماعات کی فوٹو گرافی

آج سے بیس پچیس سال قبل جماعت اسلامی ہند میں فوٹو گرافی اور فوٹو کھنچوانے کا رواج نہیں تھا۔ ہمارے علماء اور اکابر اسے ناپسند کرتے تھے، کسی جلسۂ عام میں اگر پریس رپورٹر آجاتے تھے، ان کے پاس کیمرے ہوتے تو وہ فوٹو کھینچ لیا کرتے تھے۔ ہمارے علماء اور اکابر میں ایسے بھی تھے، جو فوٹو گرافی کروانے سے منع کردیتے تھے۔ بعض ایسے بھی تھے جو کیمرے کی زد میں آنے سے بچنے کے لیے چہرے پر کسی کاپی یا کتاب کی اوٹ کرلیا کرتے تھے۔ ان کا یہ رویہّ تحریکی مزاج اور تقویٰ سے کس حد تک ہم آہنگ تھا، یہ وہ جانیں ۔ یہ وہ علماء اور اکابر تھے، جو ناگزیر ضرورت سامنے آنے پر ہی فوٹو کھنچواتے تھے۔ مگر اب یعنی مولانا ابو اللیث ندویؒ کی امارت کے بعد سے فوٹو گرافی اور فوٹو کھنچوانے کی ہمارے یہاں ایک وبا سی آگئی ہے اور اس وبا کو جنم دینے اور پروان چڑھانے میں ہماری قیادت کا مؤثر رول ہے۔
قرآن حکیم، حضرت محمد ﷺ اور حقوق انسانی کے تحفظ وغیرہ عنوانات پر جماعت نے جو حلقے اور کل ہند سطح پر مہمیں چلائی ہیں ان میں تو گویا فوٹو گرافی کا ایک زبردست طوفان امڈ پڑا تھا۔ اب ہمارا کوئی بھی اجتماع، خواہ وہ ضلع کی سطح کا ہو یا صوبہ کی سطح کا، ہمارا کوئی بھی خطاب عام، خواہ کہیں بھی ہو، فوٹو گرافروں کی خدمات حاصل کیے بغیر نہیں ہوتا۔ ہمارا اسٹیج اب اتنی وسعت اختیار کر گیا ہے کہ اس پر درجہ بہ درجہ ذمہ داران کے جلوہ افروز ہونے اور فوٹو کھنچوانے کی گنجائش پیدا کرلی گئی ہے۔ ہمارے ملکی سیشن، ملّی سیشن، سمپوزیم اور سیمینار میں اظہارِ خیال کرنے والوں کے فوٹو (مسلم و غیر مسلم دونوں کے) پورے اہتمام کے ساتھ کھنچوائے جاتے ہیں ۔ بعد میں ان کی طلب پر اور اکثر بلاطلب ان کے پاس ارسال کیے جاتے ہیں ۔ ہمارے دفاتر میں ان فوٹوؤں کے البم قطار اندر قطار سجا کر رکھے جاتے ہیں ۔ حتی کہ خواتین کے اجتماعات میں بھی فوٹو گرافی ہوتی ہے۔
بعض ذمے داران سے جب دریافت کیا جاتا ہے کہ یہ سب کیااور کیوں ہورہا ہے؟ تو جواب ملتا ہے کہ ’’یہ دور سائنس اور ٹکنالوجی کا دور ہے۔ اگرہم یہ سب نہ کریں گے تو بہت پیچھے رہ جائیں گے۔‘‘ جائز ناجائز کی بات کیجیے تو جواب ملتا ہے کہ ’’موجودہ حالات نے ہمیں مجبور کردیا ہے کہ ہم یہ سب کچھ کریں ۔ ہم ان سے بچنا چاہیں بھی تو نہیں بچ سکتے۔‘‘ جواب کی تان یہاں آکر ٹوٹتی ہے کہ یہ سب تو ہمارے اکابر اور علماء کرام خود مرکز جماعت میں کرتے ہیں اور دوروں میں ان کے جو پروگرام ہوتے ہیں ان میں ان کی مرضی اور ہدایت سے یہ سب کچھ ہوتا ہے۔ پھر جب ہم اپنے مرکزی علماء کرام اور قائدین سے دریافت کرتے ہیں تو جواب میں ہمیں مسکراہٹ آمیز خاموشی سے سابقہ پیش آتا ہے۔ میرے نزدیک آپ بھی تحریک و جماعت کے قابلِ ذکر علماء میں سے ایک ہیں ،جن کی نظر قرآن حکیم اور سنت ِ رسولؐ پر گہری ہے، جو تحریک و جماعت کے مزاج شناس ہیں ۔ میں آپ سے دریافت کرنا چاہتا ہوں کہ خود آپ کا ضمیر، آپ کا علم قرآن و سیرت اس سلسلے میں کیا کہتا ہے؟

کمیشن پر چندہ

یہاں مسجد اور مدرسے کے چندے کے لیے کمیشن سسٹم رائج ہے۔ منتظمین کا کہنا ہے کہ تنخواہ کے مقابلے میں کمیشن (جو پچیس سے پچاس فی صد ہوتا ہے) پر چندے کی وصولی زیادہ ہوتی ہے۔ کیا شرعی نقطۂ نظر سے یہ طریقہ جائز ہے؟