کبائر کے مرتکب مسلمانوں کا حکم
کبائر کے مرتکب مسلمانوں کا کیاحکم ہے؟
کبائر کے مرتکب مسلمانوں کا کیاحکم ہے؟
ایسے مسلمان جو سرکاری دفاتر میں ملازم ہیں یا گورنمنٹ کی عدالتوں میں جج اور مجسٹریٹ ہیں اور ان کے ہاتھوں قانو ن ہند کا نفاذ ہوتا ہے، یا مجالس قانون سازکے رکن ہیں اور قانون سازی میں حصہ لیتے ہیں ،یہ لوگ آپ کے نقطۂ نظر سے دائرۂ اسلام میں داخل ہیں یا نہیں ؟ اور آپ حضرات کے نزدیک شرعی نقطۂ نظر سے ایسے لوگوں کا کیا حکم ہے؟
میں ایک ۱۸ سالہ سندھی نوجوان ہوں ۔اس وقت میٹرک میں ہوتے ہوئے ایک عربی مدرسے میں دو سال سے دینی تعلیم بھی حاصل کررہا ہوں ۔ہمارے ہاں عربی تعلیم کانظام کچھ اس طرز کا ہے کہ ابتدا ہی میں میرے اندر اس تعلیم سے نفرت اور بیزاری پیدا ہوگئی اور ایک سال کے اندر اندراسی عربی تعلیم نے مجھے ’’لامذہب‘‘ بنا کے رکھ دیا۔لیکن چوں کہ میرے اندر صراط مستقیم پانے کی دلی تمنا تھی اس لیے میں ہمیشہ بارگا ہِ الٰہی کے حضور میں دعا کرتا رہا کہ وہ مجھے’’ راہ ِراست‘‘ پر لے آئے۔اﷲ تعالیٰ نے انتہائی کرم فرمائی کی کہ مجھے ایمان ایسی دولت پھر سے عطا ہوئی۔ چنانچہ میں اب اسی کے فضل وکرم سے دل وجان سے مسلمان ہوں ،قومیت سے سخت متنفر اور نظریۂ انسانیت کا پیروکار۔ اس ایک سال کے عرصے میں ،میں نے ’’مسند ومنبر‘‘ دونوں کو دیکھالیکن کہیں سے اطمینان قلبی نصیب نہیں ہوا۔اور اگر کہیں سے یہ نعمت میسر آئی تو پھر اسی کتاب الٰہی کے مطالعے سے جسے لوگ قرآن حکیم کہتے ہیں ۔
یوں تو اب میں اسلام کو اپنا دین مان چکا ہوں لیکن پھر بھی مطالعے کے دوران میں بعض احادیث اور فقہی مسائل ایسے آتے ہیں جو بسااوقات مجھے پریشان کرتے ہیں ۔ آج ہی کی بات ہے کہ مدرسے میں مشکوٰۃکا درس ہورہا تھا۔جب اس حدیث پر پہنچا جو باب الایمان بالقدر میں ہے کہ:
قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: الْوَائِدَةُ وَالْمَوْءُودَةُ فِي النَّارِ({ FR 1772 })
’’لڑکی کو زندہ گاڑنے والی اور وہ لڑکی جو زندہ گاڑی گئی،دونوں جہنم میں جائیں گی۔‘‘
تو میں نے استاذ مکرم سے صرف یہ کہا کہ حضور یہ حدیث میر ی سمجھ میں نہیں آئی۔انھوں نے جواب دیا کہ تمھاری سمجھ ہے ہی کیا کہ تم اسے سمجھ سکو، تمھیں تو بس آمَنَّاوَصَدَّقْنَاہی کہنا چاہیے۔ میں نے عرض کیا کہ یہ صحیح ہے کہ میری سمجھ ناقص ہے لیکن میں اتناتو سمجھ سکتا ہوں کہ حضور اکرمﷺ کے دہن مبارک سے ایسے ناانصافی کے الفاظ نہیں نکل سکتے۔اگر آپؐ نے یہ حدیث فرمائی ہے تو اس کا مفہوم یہ نہیں ہوسکتا جو کہ بظاہر ترجمے سے معلوم ہوتا ہے،اور اگر اس کا مفہوم یہی ہے توپھر یہ حدیث حضور سرور کائناتؐ کی نہیں ہوسکتی۔ میرے یہ الفاظ کہنے تھے کہ میرے لیے مصیبت پیدا ہوگئی۔ مجھے محض اس وجہ سے مدرسے سے خارج کردیا گیا اور کہا گیا کہ تم منکر حدیث ہو۔ حالاں کہ میں منکرین حدیث کے مسلک کو صحیح نہیں سمجھتا اور اسے گمراہ کن خیال کرتا ہوں ۔لیکن سوال یہ ہے کہ کیا ہمیں احادیث کو سمجھنے کا حق بھی پہنچتا ہے یا نہیں ؟ ہم بلا سوچے سمجھے کس طرح اس قسم کی احادیث پر آمَنَّاوَصَدَقّنَا کہنا شروع کردیں حالاں کہ بعض محدثین نے اس کی اسناد کو بھی ضعیف قرار دیا ہے۔براہِ کرم اس حدیث کی وضاحت فرما کر میری راہ نمائی فرمائیں ۔
سورۃ الاحقاف آیت۲۹، حاشیہ۳۵۔(کے مطالعہ کے بعد یہ بات وضاحت طلب ہے کہ) جِنّ مکی دور ہی میں ایمان لے آئے تھے لیکن انھوں نے رسول اللّٰہﷺ اور مسلمانوں کے دورِ مصائب میں کسی طرح کی کوئی مدد نہیں کی، نہ اس کے بعد کسی جہاد میں حصہ لیا۔ کیا سارا قرآن (اوامر و نواہی) جس طرح انسانوں کے لیے واجب الاطاعت ہے جنّوں کے لیے بھی اسی طرح اس پر عمل لازم نہیں ؟ کیاصلاۃ، صوم، زکاۃ اور جہاد (بالمال و بالنفس) جنّوں پر بھی فرض نہیں تو استثنا کی بنیاد کیا ہے؟ اور اگر فرض ہے تو جِنوں نے کب اور کیسے ان پر عمل کیا؟
ترجمان القرآن ماہ اکتوبر۱۹۶۰ء میں سورۂ العنکبوت کے تفسیری حاشیے نمبر۹۱ کے مطالعے کے دوران میں چند باتیں ذہن میں اُبھریں جو حاضر خدمت ہیں ۔اس سیاق وسباق میں لفظ’’اُمّی‘‘کا مطلب جو کچھ میں سمجھا ہوں وہ یہ کہ نبیﷺ بعثت سے پہلے اُمّی اور ناخواندہ تھے۔لیکن بعد میں آپ کے خواندہ ہوجانے اور لکھ پڑھ سکنے کی نفی نہیں ۔ یہ البتہ یقیناً ممکن ہے کہ نبوت کے بعد آپ کے خواندہ بن جانے میں انسانی کوشش یا اکتساب کو دخل نہ ہو بلکہ معجزانہ طور پر اﷲ تعالیٰ نے خود معلم بن کر آپ کو پڑھنا لکھنا سکھادیا ہو۔ میری اس تشریح کے بارے میں آپ کا خیال کیا ہے؟میرے خیال میں تو الفاظ میں بڑی گنجائش ہے جس سے میرے مطلب کی تائید ہوتی ہے۔
میرےایک رشتہ دار جو لا مذہب ہوچکے ہیں ، رسولﷺ کو ایک مصلح(reformer) سے زیادہ درجہ دینے کے لیے تیار نہیں ۔ البتہ انھیں وہ نیک اور غیر معمولی قابلیت کا انسان بھی سمجھتے ہیں ۔وضاحت فرمائیں ۔
اپریل۱۹۷۶ء کے ترجمان القرآن میں آپ کا جو مقالہ بعنوان ’’اسلام کس چیز کا علم بردار ہے؟‘‘ چھپا ہے۔اس کے جملے ’’پیغمبر مافوق البشر نہیں ہوتا‘‘ کا کیا مفہوم ہے؟ کیا اس سے مراد خدائی اختیارات کا حامل ہونا ہے؟ یا بشریت سے ماورا ہونا؟ معترضین نے یہ نکتہ برآمد کیا ہے کہ مافوق البشر کا مطلب عام بشر سے فائق ہونا ہے اور پیغمبر اس معاملے میں فائق ہی ہوتے ہیں ۔
مذکورہ مقالے پر دوسرا اعتراض اس پر ہے کہ مقالہ نویس نے پیغمبرﷺ کو بشری کمزوریوں سے مبرا تسلیم نہیں کیا۔ حالانکہ وہ ہر لحاظ سے معصوم ہوتے ہیں ۔ بشری کمزوریوں سے مراد بشریت کے لوازمات ہیں یا اور کچھ مراد ہے؟
آپ نےلکھا ہے کہ ’’بعض پیغمبروں کا مشن ناکام ہوگیا۔‘‘ یہ اندازِ بیان انبیا کے شایانِ شان نہیں ہے۔ معترضین کا زیادہ تر زور اس پر تھا کہ چاہے نیت بخیر ہو، مگر اندازِ بیان گستاخانہ ہے۔
بخاری شریف کی تیسری حدیث میں نزول وحی اور رسول اللّٰہ ﷺ کی کیفیات کا ذکر ہے، جس سے معلوم ہوتا ہے کہ نزول وحی کی ابتدا میں آں حضرت ﷺ پر اضطراب طاری ہوگیا تھا۔ دریافت طلب یہ امر ہے کہ حضور ﷺ گھبراے کیوں تھے؟ یہ بات کہ یہ رسالت کی ذمہ داریوں کے احساس کا نتیجہ تھا، دل کو مطمئن نہیں کرتی، ورنہ، وَرَقہ کے پاس لے جانے کے کوئی معنی نہیں بنتے۔ بعض لوگوں کا یہ اشتباہ کہ حضور علیہ الصلاۃ والسلام پر اس وقت اپنی رسالت کا کماحقہ وضوح نہیں ہوا تھا،کچھ بامعنی بات نہیں معلوم ہوتی۔ اگر یہ صحیح ہے تو جن کے پاس آپ یہ معاملہ لے کر گئے تھے کیا وہ ان کیفیات کے پس منظر کو حضور ﷺ سے زیادہ جانتے تھے۔ ورقہ کے یہ الفاظ ’’ھٰذا النَّامُوسُ الَّذِیْ اَنْزَلَ اللّٰہُ عَلٰی مُوسٰی‘‘ ({ FR 1790 }) اس امر کے مؤید ہیں کہ واقعی حضورﷺ پراپنی رسالت کا کماحقہ وضوح نہیں ہوا تھا۔ اس کے بعد صورتِ حال مزید مخدوش ہوجاتی ہے۔ صحیح صورتِ حال کیا ہے؟