مسلم سوسائٹی میں منافقین

اسلام کے خلاف دو طاقتیں ابتدا ہی سے برسر پیکار چلی آرہی ہیں ۔ ایک کفر اور دوسری نفاق۔ مگر کفر کی نسبت منافق زیادہ خطرناک دشمن ثابت ہوا ہے۔ کیوں کہ وہ مارِآستین ہے جو ماتھے پر اُخوت اور اسلام دوستی کا لیبل لگا کر مسلمانوں کی بیخ کنی کرتا ہے۔غالباً یہی وجہ ہے کہ اگرچہ کافر اور منافق دونوں ہی بالآخر جہنم کا ایندھن بننے والے ہیں ، لیکن منافق کی سزا کچھ زیادہ ہی’’بامشقت‘‘ بتائی گئی ہے ’’بے شک منافق جہنم کے سب سے نچلے طبقے میں ہوں گے۔‘‘({ FR 2170 }) (النساء:۱۴۵) اسی گروہ کے متعلق خدا تعالیٰ نے یوں دوٹوک فیصلہ کردیا ہے کہ’’اے پیغمبر! ان منافقوں کے حق میں تم خواہ دعاے مغفرت کرو یا نہ کرو(برابر ہے کیوں کہ) چاہے تم ستر مرتبہ ہی مغفرت کے لیے دعا کیوں نہ کرو، تب بھی اﷲ انھیں کبھی معاف نہیں کرے گا۔‘‘({ FR 2171 }) (التوبہ:۸۰) کم وبیش ساٹھ مختلف علامات اور امتیازی نشانیاں منافقین کی اﷲ نے قرآن پاک میں بیان فرمائی ہیں ،جن کی روشنی میں ہم پاکستان کے اندر بسنے والی اس قوم کو جب دیکھتے ہیں جو مسلمان کہلاتی ہے تو اکثریت بلامبالغہ منافقین کی نظر آتی ہےــــــــگناہ گار مسلمان اس گروہ منافقین میں شامل نہیں ــــــــ مگر گناہ گار مسلمان وہ ہے جس سے برائی کا فعل باقتضائے بشریت جب کبھی سرزد ہوجاتا ہے تو فوراً ہی خدا اور قیامت کا خیال اسے آجاتا ہے۔سچے دل سے توبہ اور پشیمانی کا اظہار کرتا ہے اور آئندہ کے لیے اپنی اصلاح کرلیتا ہے۔منافق اس کے خلاف اپنے برے کاموں پر واقعی نادم ہونے کے بجاے دانستہ کیے جاتا ہے۔
آپ کی نگاہ اور مطالعہ زیادہ وسیع ہے،براہ کرم آپ اپنی راے بیان فرمایئے کہ موجودہ مدعیان اسلام میں منافقین اور گناہ گار اور متقی مسلمانوں کا تناسب اندازاًکیا ہے؟
دوسرا سوال گروہ منافقین کے ساتھ مسلمانوں کے طرز عمل کا ہے۔قرآن کریم کی رو سے یہ لوگ مسلمانوں کی جماعت سے خارج ہیں : ’’اور یہ منافق قسمیں کھا کھا کر کہتے ہیں کہ ہم تمھاری جماعت میں ہیں ۔حالاں کہ وہ تم میں سے نہیں ۔‘‘({ FR 2582 })(التوبہ:۵۶) صرف یہی نہیں کہ ملت اسلامیہ سے خارج ہیں ،بلکہ اس سے بڑھ کر یہ کہ مسلمانوں کے دشمن ہیں :’’یہ منافق تمھارے دشمن ہیں ،ان سے خبر دار رہو۔‘‘({ FR 2172 }) (المنافقون:۴)
چوں کہ یہ دشمن ہیں لہٰذا حکم ہوتا ہے کہ ان دشمنان دین سے کامل علیحدگی اختیار کرلو۔ان منافقوں میں سے اپنے ساتھی اور دوست نہ بنائو: ’’اور ان میں سے کسی کو نہ اپنا دوست سمجھونہ مدد گار۔‘‘({ FR 2173 })(النساء:۸۹)
اس بائیکاٹ میں یقیناً یہ بات بھی شامل ہے کہ منافقوں سے رشتے ناتے نہ کیے جائیں ۔ علیحدگی کی ایک اور صورت یہ بیان فرمائی ہے کہ ’’اے نبی!اﷲ سے ڈرو اور ان کافروں اور منافقوں کی کسی بات کی پیروی نہ کرو۔‘‘({ FR 2174 }) (الاحزاب:۱) یعنی نہ تو نماز میں منافقوں کی پیروی کی جائے اور نہ ہی سیاسی قیادت قبول کی جائے وغیرہ۔ بائیکاٹ کا اظہار ایک اور طریقے سے بھی کرنا ضروری ہے۔ ’’اور ان منافقوں میں سے اگر کوئی مرجائے تو کبھی اس کی نماز جنازہ نہ پڑھو،اور نہ ہی اس کی قبر پر دعاے مغفرت کے لیے کھڑے ہو۔‘‘({ FR 2175 })( التوبہ:۸۴)
بحیثیت ایک مسلمان کے خود آپ کا طرز عمل اس علیحدگی کے بارے میں کیا ہے؟کیا مسلمانوں کو (جو اقلیت میں ہیں )منافقوں سے(جن کی اکثریت ہے) قطع تعلق کرلینا چاہیے یا کچھ اتمام حجت کی گنجائش ہے؟

’’گناہ گار مومن ‘‘اور ’’نیکوکار کافر‘‘ کا فرق

آج کل ایف ایس سی کی ایک طالبہ نہایت ہی ذہین مسیحی لڑکی میرے پاس انگریزی پڑھنے آتی ہے۔ وہ تقریباً روزانہ مجھ سے مذہبی امور پر تبادلہ خیالات کرتی ہے۔ میں بھی اس موقع کو غنیمت سمجھتے ہوئے اسے دین اسلام کی تعلیمات سے روشناس کرنے کی کوشش کرتا ہوں بحمداللّٰہ کہ میں نے دین اسلام کے بارے میں اس کی بہت سی غلط فہمیوں کو دور کر دیا ہے۔
لیکن ایک دن اس نے میرے سامنے ایک سوال پیش کیا جس کا جواب مجھے نہ سوجھ سکا۔ ازاں بعد میں نے آپ کی تصانیف سے بھی رجوع کیا مگر تاحال کوئی شافی اشارات وہاں سے نہیں مل سکے۔
میری مسیحی شاگرد کہنے لگی کہ میں نے میٹرک میں اسلامیات کے کورس میں ایک حدیث پڑھی تھی جس میں کہا گیا ہے کہ مسلمان چاہے کتنا ہی بڑا گناہ گار ہو وہ کچھ عرصہ دوزخ میں اپنے گناہوں کی سزا بھگت کر آخرکار ضرور جنت میں چلا جائے گا مگر کافر ہمیشہ ہمیشہ کے لیے دوزخ میں رہیں گے۔ پھر وہ کہنے لگی آپ ہمیں بھی کافر ہی سمجھتے ہیں ۔ کوئی عیسائی خواہ وہ کتنا ہی نیکوکار ہو مسلمانوں کے عقیدے کے مطابق دوزخ ہی میں جائے گا، آخر اس کی کیا وجہ ہے؟

غیر اسلامی قانون نافذ کرنے والے مسلمانوں کا حکم

ایسے مسلمان جو سرکاری دفاتر میں ملازم ہیں یا گورنمنٹ کی عدالتوں میں جج اور مجسٹریٹ ہیں اور ان کے ہاتھوں قانو ن ہند کا نفاذ ہوتا ہے، یا مجالس قانون سازکے رکن ہیں اور قانون سازی میں حصہ لیتے ہیں ،یہ لوگ آپ کے نقطۂ نظر سے دائرۂ اسلام میں داخل ہیں یا نہیں ؟ اور آپ حضرات کے نزدیک شرعی نقطۂ نظر سے ایسے لوگوں کا کیا حکم ہے؟

کیا مشرکین کے بچے جنت میں جائیں گے؟

میں ایک ۱۸ سالہ سندھی نوجوان ہوں ۔اس وقت میٹرک میں ہوتے ہوئے ایک عربی مدرسے میں دو سال سے دینی تعلیم بھی حاصل کررہا ہوں ۔ہمارے ہاں عربی تعلیم کانظام کچھ اس طرز کا ہے کہ ابتدا ہی میں میرے اندر اس تعلیم سے نفرت اور بیزاری پیدا ہوگئی اور ایک سال کے اندر اندراسی عربی تعلیم نے مجھے ’’لامذہب‘‘ بنا کے رکھ دیا۔لیکن چوں کہ میرے اندر صراط مستقیم پانے کی دلی تمنا تھی اس لیے میں ہمیشہ بارگا ہِ الٰہی کے حضور میں دعا کرتا رہا کہ وہ مجھے’’ راہ ِراست‘‘ پر لے آئے۔اﷲ تعالیٰ نے انتہائی کرم فرمائی کی کہ مجھے ایمان ایسی دولت پھر سے عطا ہوئی۔ چنانچہ میں اب اسی کے فضل وکرم سے دل وجان سے مسلمان ہوں ،قومیت سے سخت متنفر اور نظریۂ انسانیت کا پیروکار۔ اس ایک سال کے عرصے میں ،میں نے ’’مسند ومنبر‘‘ دونوں کو دیکھالیکن کہیں سے اطمینان قلبی نصیب نہیں ہوا۔اور اگر کہیں سے یہ نعمت میسر آئی تو پھر اسی کتاب الٰہی کے مطالعے سے جسے لوگ قرآن حکیم کہتے ہیں ۔
یوں تو اب میں اسلام کو اپنا دین مان چکا ہوں لیکن پھر بھی مطالعے کے دوران میں بعض احادیث اور فقہی مسائل ایسے آتے ہیں جو بسااوقات مجھے پریشان کرتے ہیں ۔ آج ہی کی بات ہے کہ مدرسے میں مشکوٰۃکا درس ہورہا تھا۔جب اس حدیث پر پہنچا جو باب الایمان بالقدر میں ہے کہ:
قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: الْوَائِدَةُ وَالْمَوْءُودَةُ فِي النَّارِ({ FR 1772 })
’’لڑکی کو زندہ گاڑنے والی اور وہ لڑکی جو زندہ گاڑی گئی،دونوں جہنم میں جائیں گی۔‘‘
تو میں نے استاذ مکرم سے صرف یہ کہا کہ حضور یہ حدیث میر ی سمجھ میں نہیں آئی۔انھوں نے جواب دیا کہ تمھاری سمجھ ہے ہی کیا کہ تم اسے سمجھ سکو، تمھیں تو بس آمَنَّاوَصَدَّقْنَاہی کہنا چاہیے۔ میں نے عرض کیا کہ یہ صحیح ہے کہ میری سمجھ ناقص ہے لیکن میں اتناتو سمجھ سکتا ہوں کہ حضور اکرمﷺ کے دہن مبارک سے ایسے ناانصافی کے الفاظ نہیں نکل سکتے۔اگر آپؐ نے یہ حدیث فرمائی ہے تو اس کا مفہوم یہ نہیں ہوسکتا جو کہ بظاہر ترجمے سے معلوم ہوتا ہے،اور اگر اس کا مفہوم یہی ہے توپھر یہ حدیث حضور سرور کائناتؐ کی نہیں ہوسکتی۔ میرے یہ الفاظ کہنے تھے کہ میرے لیے مصیبت پیدا ہوگئی۔ مجھے محض اس وجہ سے مدرسے سے خارج کردیا گیا اور کہا گیا کہ تم منکر حدیث ہو۔ حالاں کہ میں منکرین حدیث کے مسلک کو صحیح نہیں سمجھتا اور اسے گمراہ کن خیال کرتا ہوں ۔لیکن سوال یہ ہے کہ کیا ہمیں احادیث کو سمجھنے کا حق بھی پہنچتا ہے یا نہیں ؟ ہم بلا سوچے سمجھے کس طرح اس قسم کی احادیث پر آمَنَّاوَصَدَقّنَا کہنا شروع کردیں حالاں کہ بعض محدثین نے اس کی اسناد کو بھی ضعیف قرار دیا ہے۔براہِ کرم اس حدیث کی وضاحت فرما کر میری راہ نمائی فرمائیں ۔

جِنات کا کفر وایمان کی کش مکش میں کردار

سورۃ الاحقاف آیت۲۹، حاشیہ۳۵۔(کے مطالعہ کے بعد یہ بات وضاحت طلب ہے کہ) جِنّ مکی دور ہی میں ایمان لے آئے تھے لیکن انھوں نے رسول اللّٰہﷺ اور مسلمانوں کے دورِ مصائب میں کسی طرح کی کوئی مدد نہیں کی، نہ اس کے بعد کسی جہاد میں حصہ لیا۔ کیا سارا قرآن (اوامر و نواہی) جس طرح انسانوں کے لیے واجب الاطاعت ہے جنّوں کے لیے بھی اسی طرح اس پر عمل لازم نہیں ؟ کیاصلاۃ، صوم، زکاۃ اور جہاد (بالمال و بالنفس) جنّوں پر بھی فرض نہیں تو استثنا کی بنیاد کیا ہے؟ اور اگر فرض ہے تو جِنوں نے کب اور کیسے ان پر عمل کیا؟

نبی کریمﷺ کے اُمّی ہونے کا صحیح مفہوم

ترجمان القرآن ماہ اکتوبر۱۹۶۰ء میں سورۂ العنکبوت کے تفسیری حاشیے نمبر۹۱ کے مطالعے کے دوران میں چند باتیں ذہن میں اُبھریں جو حاضر خدمت ہیں ۔اس سیاق وسباق میں لفظ’’اُمّی‘‘کا مطلب جو کچھ میں سمجھا ہوں وہ یہ کہ نبیﷺ بعثت سے پہلے اُمّی اور ناخواندہ تھے۔لیکن بعد میں آپ کے خواندہ ہوجانے اور لکھ پڑھ سکنے کی نفی نہیں ۔ یہ البتہ یقیناً ممکن ہے کہ نبوت کے بعد آپ کے خواندہ بن جانے میں انسانی کوشش یا اکتساب کو دخل نہ ہو بلکہ معجزانہ طور پر اﷲ تعالیٰ نے خود معلم بن کر آپ کو پڑھنا لکھنا سکھادیا ہو۔ میری اس تشریح کے بارے میں آپ کا خیال کیا ہے؟میرے خیال میں تو الفاظ میں بڑی گنجائش ہے جس سے میرے مطلب کی تائید ہوتی ہے۔

کیا رسول صرف مصلح تھے؟

میرےایک رشتہ دار جو لا مذہب ہوچکے ہیں ، رسولﷺ کو ایک مصلح(reformer) سے زیادہ درجہ دینے کے لیے تیار نہیں ۔ البتہ انھیں وہ نیک اور غیر معمولی قابلیت کا انسان بھی سمجھتے ہیں ۔وضاحت فرمائیں ۔

پیغمبر مافوق البشر نہیں ہوتا

اپریل۱۹۷۶ء کے ترجمان القرآن میں آپ کا جو مقالہ بعنوان ’’اسلام کس چیز کا علم بردار ہے؟‘‘ چھپا ہے۔اس کے جملے ’’پیغمبر مافوق البشر نہیں ہوتا‘‘ کا کیا مفہوم ہے؟ کیا اس سے مراد خدائی اختیارات کا حامل ہونا ہے؟ یا بشریت سے ماورا ہونا؟ معترضین نے یہ نکتہ برآمد کیا ہے کہ مافوق البشر کا مطلب عام بشر سے فائق ہونا ہے اور پیغمبر اس معاملے میں فائق ہی ہوتے ہیں ۔

رسول کی بشری کمزوریوں سے مراد

مذکورہ مقالے پر دوسرا اعتراض اس پر ہے کہ مقالہ نویس نے پیغمبرﷺ کو بشری کمزوریوں سے مبرا تسلیم نہیں کیا۔ حالانکہ وہ ہر لحاظ سے معصوم ہوتے ہیں ۔ بشری کمزوریوں سے مراد بشریت کے لوازمات ہیں یا اور کچھ مراد ہے؟