ضعیف اور موضوع احادیث

ہمارے روایتی مذہبی لٹریچر میں ، بالخصوص وہ لٹریچر جو خانقاہی، صوفیانہ، بریلوی اور بعض دیگر حلقوں میں زیادہ پڑھاجاتا ہے، درج ذیل حدیثوں کا ذکر جگہ جگہ ملتا ہے:
لَوْلاَکَ لَمَا خَلَقْتُ الْاَفْلاَکَ۔ کُنْتُ نَبِیًّا وَ آدَمُ بَیْنَ الْمَائِ وَالطِّیْنِ۔ اَوَّلُ مَا خَلَقَ اللّٰہُ نُوْرِیْ۔ اَنَا مَدِیْنَۃُ الْعِلْمِ وَ عَلِیٌّ بَابُھَا۔
دریافت طلب امر یہ ہے کہ کیا یہ حدیثیں صحیح ہیں ؟ سند، روایت، درایت، اور حدیثوں کی صحت و عدمِ صحت کے تعلق سے دیگر معیارات کے مد ِ نظر ان کی صحت ثابت شدہ ہے یا نہیں ؟ اگر یہ حدیثیں اپنے الفاظ اور ظاہری مفہوم کے اعتبارسے درست اور مبنی برحقیقت ہیں تو ان کا صحیح مفہوم و مدلول اور مقصود ِ بیان کیا ہے؟
بہ راہِ کرم جواب سے نوازیں ۔

بعض احادیث پر اشکالات

دو احادیث پر کچھ اشکالات پیدا ہورہے ہیں ، بہ راہِ کرم تشفی بخش جواب سے نوازیں :
(۱) ایک حدیث میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’اگر میں اللہ تعالیٰ کے سوا کسی کے لیے سجدے کا حکم دیتا تو بیوی کو حکم دیتا کہ وہ اپنے شوہر کو سجدہ کرے۔‘‘ (ابو داؤد)
اس حدیث پر درج ذیل اشکالات پیدا ہو رہے ہیں :
الف: یہ حدیث اسلام کے تصور ِ توحید کے منافی ہے۔
ب: ہندوؤں کے یہاں عورت کے بارے میں تصور ہے کہ وہ شوہر کی داسی ہے ۔ پتی ورتا ہونا اس کا دھرم ہے اور پتی ورتا کے معنیٰ یہ ہیں کہ شوہر اس کا معبود اور دیوتا ہے۔ اس حدیث سے بھی یہی تصور ابھرتا ہے۔
ج: یہ حدیث قرآن کی اس تعلیم کے خلاف ہے: ’’اللہ نے تم کو ایک نفس سے پیدا کیا اور اس کی جنس سے اس کے جوڑے کو پیدا کیا۔‘‘ (النساء: ۱)
د: اس حدیث سے عورت کی تذلیل و توہین معلوم ہوتی ہے۔
(۲) ایک حدیث ہے کہ حضرت سہل بن سعدؓ روایت کرتے ہیں : ’’میں کچھ لوگوں کے ساتھ رسول اللہ ﷺ کے پاس بیٹھا ہوا تھا کہ ایک عورت آئی اور اس نے عرض کیا: ’اے اللہ کے رسولؐ! میں اپنے آپ کو آپ کے لیے ہبہ کرتی ہوں ۔‘ آپؐ نے اسے کوئی جواب نہیں دیا۔ کچھ دیر کے بعد ایک شخص نے اٹھ کر عرض کیا: ’اے اللہ کے رسولؐ! آپؐ اس سے میرا نکاح کرادیجیے۔‘ آپؐ نے فرمایا: ’کیا تمھارے پاس کوئی چیز ہے؟ (یعنی اسے مہر میں کیا دوگے؟)‘ اس نے کہا: ’کچھ بھی نہیں ۔‘ آپؐ نے فرمایا: ’جاکر تلاش کرو، کچھ نہیں تو لوہے کی انگوٹھی سہی۔‘ اس نے جاکر ڈھونڈا اور کچھ دیر کے بعد واپس آکر کہا۔ ’حضوؐر! مجھے کوئی چیز نہیں ملی، یہاں تک کہ لوہے کی انگوٹھی بھی مہیا نہیں کرسکا ہوں ، البتہ میرا یہ تہبند حاضر ہے۔ اس عورت کو میں آدھا تہبند دے دوں گا۔‘ آپؐ نے فرمایا: ’تیرا یہ تہبند کس کام کا؟، اگر اسے تو پہنے گا تو تیری بیوی برہنہ ہوجائے گی اور اگر اسے اس نے پہنا تو پھر تم کیا پہنوگے؟‘‘ پھر آپؐ نے اس سے فرمایا: ’تمھیں قرآن کا کچھ حصہ یاد ہے؟‘ وہ بولا: ’ہاں ! فلاں فلاں سورتیں یاد ہیں ۔‘ آپؐ نے فرمایا: ’جاؤ، میں نے قرآن کی ان سورتوں کے بدلے اس عورت سے تمھارا نکاح کردیا۔‘ (بخاری و مسلم)
اس حدیث پر کئی اشکالات وارد ہوتے ہیں :
۱- عورت نے اپنے آپ کو رسول اللہ ﷺ کو ہبہ کیا تھا۔ آپؐ کی خاموشی کے بعد حاضرین میں سے کسی شخص کا خواہش نکاح ناقابل فہم ہے۔
۲- عورت کی رائے معلوم کیے بغیر رسول اللہ ﷺ کا اس سلسلے کو آگے بڑھانا کیسے ممکن ہے؟
۳- مہر جو مرد پر فرض ہے اور عورت کا حق ہے، اس کو لوہے کی انگوٹھی جیسی حقیر چیز پر محمول کرنے کی کیا شریعت اجازت دیتی ہے؟
۴- اس شخص کا مہر میں تہبند پیش کرنا، اس سے زیادہ بیہودہ مذاق اور کیا ہوسکتا ہے؟
۵- اگر موصوف اس قدر مفلس تھے تو وہ اپنی بیوی کا نفقہ کس طرح ادا کرسکتے تھے؟ ایسے شخص کے لیے تو اللہ کے رسول ﷺ کی یہ تعلیم ہے کہ: ’’جو شخص نکاح کی ذمے داریاں ادا کرنے کی استطاعت نہ رکھتا ہو وہ روزہ رکھے، کیوں کہ یہ اس کے شہوانی جذبات کو کم کردے گا۔‘‘ (بخاری و مسلم)
۶- کیا ان حالات میں مہر مؤجّل پر عمل نہیں کیا جاسکتا تھا؟

ایک حدیث کا صحیح مفہوم

صحیح مسلم کی ایک حدیث ہے:
’’اگر تم گناہ نہیں کروگے تو اللہ تعالیٰ تمھیں ختم کردے گا اور تمھاری جگہ ایسے لوگوں کو لے آئے گا جو گناہ کریں گے، پھر اللہ سے استغفار کریں گے تو اللہ ان کی مغفرت فرمائے گا۔‘‘
اس حدیث کو سمجھنے میں دشواری پیش آرہی ہے۔ اس سے تو لگتا ہے کہ گناہ کرنے پر ابھارا جا رہا ہے، گناہ سے بچے رہنا کوئی خوبی نہیں ہے، بل کہ گناہ کا ارتکاب کرنا پسندیدہ ہے۔ بہ راہ کرم اس حدیث کا صحیح مفہوم واضح فرمادیں ۔

ایک حدیث کی تحقیق

میں جس مسجد میں جمعہ کی نماز پڑھتا ہوں اس میں خطبہ میں یہ حدیث پڑھی جاتی ہے: السُّلْطَانُ ظِلُّ اللّٰہِ فِی اَرْضِہ، مَنْ نَصَحہ ھَدَی وَ مَنْ غَشَّہ ضَلَّ۔ (حکم راں اللہ کی زمین میں اس کا سایہ ہے۔ جس نے اس سے خیرخواہی کی وہ راہ یاب ہوا اور جس نے اس کی بدخواہی کی وہ گم راہ ہوا)۔ جس مسجد میں یہ حدیث پڑھی جاتی ہے وہ ایک معروف مدرسے کی بڑی مسجد ہے۔
براہ کرم اس حدیث کے متعلق تفصیل سے تحریر فرمائیں ۔ جواب پاکر ممنوں ہوں گا۔

بعض احادیث کی تحقیق

ایک حدیث نظر سے گزری کہ ’’ جس شخص کی موت جمعہ کے دن یا رات میں ہوگی وہ قبر کے فتنے سے محفوظ ہوگا۔‘‘ بہ راہ کرم بتائیں  ، کیا یہ حدیث صحیح ہے؟ اگر صحیح ہے تو اس کا کیا مطلب ہے؟ کیا اس سے جمعہ کی فضیلت کا اثبات مقصود ہے؟

بعض احادیث کی تحقیق

ایک حدیث کا مفہوم سمجھنے میں دشواری ہورہی ہے۔ براہِ کرم اس کی وضاحت فرمادیں :
اِنْ یَعِشْ ہٰذَا لَا یُدْرِکْہُ الْہَرَمُ حَتّٰی تَقُوْمَ عَلَیْکُمْ سَاعَتُکُمْ

بعض احادیث کی تحقیق

سود کی ممانعت کے موضوع پر ایک حدیث بیان کی جاتی ہے :
عَنْ اَبی ہُرَیرَۃَ رضی اللہ عنہ اَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلّٰی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ: اَلرِّبَا سَبْعُوْنَ حُوْباً اَیْسَرُہَا اَنْ یَّنْکِحَ الرَّجُلُ اُمَّہٗ
(رواہ ابن ماجہ والبیہقی فی شعب الایمان )
’’حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :’’ سود کی شناعت ستر درجہ بڑھی ہوئی ہے اس کے مقابلے میں کہ آدمی اپنی ماں سے بدکاری کرے ۔‘‘
اس تمثیل پر آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں درج ذیل بیانات کی روشنی میں غور کیجئے:
۱- آپؐ استنجا کرتے وقت زمین کے قریب بیٹھ کر کپڑا ہٹاتے تھے۔
۲- آپؐ کا چرواہا ، جوبارہ سال کی عمر کا لڑکا تھا ، ایک مرتبہ بکریاں چرانے کے دوران بغیر کپڑے کے سورہا تھا ۔ اس حرکت کی وجہ سے آپ ؐ نے اسے برخواست کردیا ۔
۳- احادیث میں ہے کہ آپؐ نے نہ اپنی کسی زوجہ کی شرم گاہ کودیکھا نہ کسی زوجہ نے آپ کی شرم گاہ کودیکھا۔
۴- حدیث میں بیان کیا گیا ہے کہ تنہائی میں بلا ضرورت بغیر کپڑے پہنے رہنا مناسب نہیں ۔ اس سے بچنے کی تاکید کی گئی ہے ۔
۵- زنا کے قریب جانے کی حرکت ہی نہیں ، بلکہ گفتگو سے بھی سخت منع کیا گیا ہے ۔
۶- نگاہ کی خرابی کوزنا کی پہلی سیڑھی قرار دیا گیا ہے ۔
۷- زانی کے لیے کوڑے اورسنگ ساری کی سزا ہے ۔
۸- فحش باتیں پھیلانے والوں کو فوج داری سزا دی گئی ہے (واقعۂ افک )
۹- جماع کے وقت بھی کپڑے پوری طرح ہٹانے سے منع کیا گیا ہے ۔
عریانیت اورزنا کے تعلق سے اتنی حساس تعلیمات دینے والی ہستی کیوں کر ایسی تمثیل بیان کرسکتی ہے جومذکورہ بالا حدیث میں مذکور ہے ۔میں یہ نہیں کہتا کہ اس حدیث کورد کردیا جائے ، صرف اتنی درخواست ہے کہ اس کے سلسلے میں توقف اختیار کیا جائے اور اس کو مت بیان جائے ، تاآں کہ سند اور درایت کے لحاظ سے اس کی تحقیق کرلی جائے ۔

بعض احادیث کی تحقیق(۱)

ایک حدیث یہ بیان کی جاتی ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
’’ ہر عمل کے اللہ تعالیٰ کے یہاں پہنچنے کے لیے درمیان میں حجاب ہوتا ہے ، مگر لا الہ الا اللہ اورباپ کی دعا بیٹے کے لیے۔ ان دونوں کے لیے کوئی حجاب نہیں ‘‘۔
بہ راہِ کرم واضح فرمائیں کہ یہ حدیث کیا درجہ اورمقام رکھتی ہے؟ کیا اسلام میں صرف لڑکے ہی خصوصیت واہمیت رکھتے ہیں اوربھلائیوں اوررحمتوں کےمستحق ہیں ؟ لڑکیوں کی کوئی حیثیت واہمیت ؟ اگر باپ اپنی بیٹیوں کے لئےدُعا کرے تو کیا بہ راہِ راست اللہ تک نہیں پہنچتی؟ پھر اسلام کے متعلق یہ دعویٰ کیا مقام رکھتا ہے کہ اس نے عورت اورمرد کو برابر کا مقام عطا کیا ۔
امید ہے ، اس اشکال کا ازالہ فرمانے کی زحمت گوارا کریں گے۔

آیتِ رجم کی تحقیق

آپ نے رسائل ومسائل حصہ دوم[سوال نمبر۲۰۴] میں ’’ نسخ قرآن‘‘ پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھا ہے کہ ’’آیتِ رجم توریت کی ہے،قرآن کی نہیں ۔‘‘ میں حیران ہوں کہ آپ نے ایک ایسی بات کا انکشاف کیا ہے جو صاف تصریحات کے خلاف ہے۔ سلف سے خلف تک تمام علماے اہل سنت کا یہ عقیدہ ہے کہ قرآن کی بعض آیات ایسی ہیں جن کی تلاوت تو منسوخ ہے لیکن حکم ان کا باقی ہے: وَالنَّسْخُ قَدْ یَکُوْنُ فِی التِّلَاَ وَۃِ مَعَ بَقَائِ الْحُکمِ ({ FR 2129 })
اب میں وہ دلائل عرض کروں گا جن سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ’’آیت رجم‘‘ جناب رسول اکرم ﷺ پراتری اور وہ قرآن کی آیت تھی:
(۱)حضرت ابو ہریرہؓ اور زید بن خالدؓ کی روایت میں ہے جب دو آدمی زنا کا کیس لے کر آں حضرت ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے تو آپﷺ نے فرمایا: ’’بخدا میں تمھارا فیصلہ کتاب اﷲ کے مطابق کروں گا۔‘‘ پھر آپ ؐ نے شادی شدہ زانیہ کے لیے رجم کی سزا تجویز کی۔(۲) ظاہر ہے کہ کتاب اﷲ سے مراد قرآن مجید ہے۔
(۲)حضرت ابن عباس رضی اللّٰہ عنہما کی روایت ہے کہ حضرت عمرؓ نے اپنی تقریر میں فرمایا: ’’اﷲ تعالیٰ نے جناب محمدﷺ کو حق کے ساتھ بھیجا اور ان پر کتاب اتاری۔ رجم کی آیت بھی اس کتاب میں تھی جسے اﷲ نے اُتارا۔ ہم نے اس(آیت رجم) کو پڑھا، سمجھا اور یاد رکھا۔ حضور ؐ نے رجم کی سزا دی اور آپ کے بعد ہم نے بھی رجم کی سزا دی۔ کچھ زمانہ گزرنے کے بعد مجھے ڈر لگتا ہے کہ کوئی یہ نہ کہہ دے کہ کتاب اﷲمیں تو رجم کی آیت نہیں ہے اور خدا کے نازل کردہ فریضے کو چھوڑنے کی وجہ سے لوگ گمراہی میں مبتلا ہو جائیں ، حالاں کہ اﷲ کی کتاب میں رجم ثابت ہے۔‘‘ ({ FR 2036 })
(۳)سعید بن مسیب کی روایت ہے، حضرت عمرؓ نے فرمایا: خبردار، آیت رجم کا انکار کرکے ہلاکت میں نہ پڑنا کہ کوئی یہ کہہ دے کہ ہم زنا کی دونوں حدوں کو کتاب اﷲ میں نہیں پاتے۔ جناب رسول اﷲﷺ نے رجم کی سزا دی اور ہم نے بھی یہ سزا دی۔ خدا کی قسم! اگر مجھے اس الزام کا اندیشہ نہ ہوتا کہ عمر بن الخطاب نے کتاب اﷲ میں زیادتی کی ہے تو میں یہ آیت (قرآن میں ) لکھ دیتا: اَلشَّیْخُ وَالشَّیْخَۃُ اِذَا زَنَیَا فَارْجُمُو ھُمَا اَلْبَتَّۃَ({ FR 1916 }) ’’بوڑھا اور بوڑھی جب زنا کریں تو دونوں کو ضرور رجم کر دو‘‘۔ بے شک یہ ایک ایسی آیت ہے جسے ہم نے پڑھا۔
(۴)علامہ آلوسیؒ نےاپنی مشہور تفسیر میں لکھا ہے: وَنَسْخُ الْاًیۃِ عَلٰی مَا ارْتَضَاہٗ بَعْضُ الْاُصُوْلِیّیْنَ۔ بَیَانُ اِنْتِھَائِ التَّعَبُّدِ بِقَرَائتِھَا کَآیۃٍ (اَلشَّیْخُ والشَّیْخَۃُ اِذَا زَنَیَا فَارْجِمُوْھُمَا نَکَالاً مِنَّ اللّٰہ وِاللّٰہُ عَزِیْزٌ حَکِیْمٌ)({ FR 1917 })
احکام القرآن سے نسخ کا جو نظریہ میں نے نقل کیا ہے، وہ ذہن کو اُلجھن میں ضرور ڈالتا ہے کیونکہ جس آیت کا حکم باقی ہو، اس کے منسوخ التلاوۃ قرا ر دینے کی کوئی وجہ سمجھ میں نہیں آتی۔ مندرجہ بالا دلائل سے ثابت ہوتا ہے کہ آیت رجم جناب رسول اﷲﷺ پر نازل ہوئی اور وہ قرآن کی آیت ہے۔ لیکن وہ قرآن کے مجموعے میں نہیں پائی جاتی۔ کیوں ؟ یہ ایک ناقابل حل معما ہے جس نے مجھے بے حد پریشان کررکھا ہے۔ امید ہے کہ آپ میری ان قرآنی اُلجھنوں کو دور کرنے کی کوشش کریں گے۔ براہ عنایت ذرا تفصیل سے روشنی ڈالیے۔ اگر آپ میرے دلائل آپ کو اپیل کریں تو رسائل و مسائل کی مندرج عبارت کو آپ بدل دیں ۔‘‘

آیت رجم کے متعلق جناب نے جو بحث ترجمان میں فرمائی ہے،آپ نے اس کے ثبوت میں تأمل فرمایا ہے۔حالاں کہ بخاری شریف میں نوکر اور سیدہ کے زناکے معاملے میں لڑکے کے والد کا حضور ﷺ کو عرض کرنا، انْشُدُکَ اللّٰہَ اِلاَّ قَضَیْتَ بَیْنَنَا بِکِتَابِ اللّٰہِ، اور حضورﷺ کا فرمانا: وَالَّذِی نَفْسِی بِیَدِہِ لَاَقْضِیَنَّ بَیْنَکُمَا بِکِتَابِ اللّٰہِ ({ FR 2041 })ان دونوں قسموں کے بعد کون سا اشتباہ رہ جاتا ہے؟کیا حضورؐ کی قسم ہمارے یقین کے لیے ناکافی ہے؟ یا بخاری کی احادیث کو غلط قرار دیا جاسکتا ہے؟ پھر فاروق اعظمؓ کے خطبہ فَکَانَ مِمَّا اَنْزَلَ اللّٰہُ آیَۃُ الرَّجْمِ فَقَرَ أنَاھَا وَعَقَلْنَا ھَا وَوَعَیْنَاھَا ({ FR 2042 }) سے ہمیں یہ توقع ہوسکتی ہے کہ یوم الجمعہ مسجد میں فقہا صحابہ کی موجودگی میں کتاب اﷲ ورسول اﷲ پر افترا کرسکتے ہیں ۔ بصورتِ دیگر نعوذ باﷲ جو صحابہؓ موجود تھے،وہ سب حرارتِ ایمانی سے خالی ہوچکے تھے۔ ایک نے بھی نہ ٹوکا۔ جو ایک قمیص کے ٹکڑے پرحضرت عمرؓ کو اسی منبر پر ٹوک سکتے ہیں کتاب اﷲ پر افترا میں نہ ٹوک سکے۔ یا قرآن سے ایک قمیص کا ٹکڑا زیادہ قیمتی تھا؟ آپ کا یہ فرمانا کہ عمرؓ کے اس قول پر اجماع منعقد نہیں ہوا،اس لیے کہ سب صحابہؓکی موجودگی یقینی نہیں ، کیا صحابہ صلاۃ جمعہ سے بھی غیر حاضری کرتے تھے؟ حضرت عبدالرحمانؓکا یہ فرمانا: فَإِنَّھَا دَارُالْھِجْرَۃِ وَالسُّنَّۃِ فَتَخْلُصُ بِأَھْلِ الْفِقْہِ وَأشْرَافِ النَّاسِ ({ FR 2043 }) صاف تصریح نہیں ؟ ان دنوں فقہاے صحابہ مدینہ طیبہ میں موجود تھے۔بالفرض اگر تمام موجود نہ تھے،کیا موجود حضرات نے غیر موجود حضرات سے اس مسئلے کی تصدیق یا تکذیب کسی نے نہ کرائی؟اگر واقعی صحابہ کا کتاب اﷲ کے ساتھ یہی تساہل وتغافل رہا ہے اور کتاب اﷲ میں کمی بیشی ہوتی رہی تو روا فض بالکل حق بجانب ہیں ۔مہربانی فرما کر اس مسئلے کو کتاب وسنت سے مدلل بیان فرما ویں ۔ حضورﷺ کی قسم اور عمرؓ کا تشدیدی خطبہ، حدیث بخاری کے مقابل کوئی قوی دلیل چاہیے۔کسی مفسر ومجتہد کا قول مشکل سے مقابل ہوسکے گا۔