کاروبار میں اولاد کی شرکت

۱- زید بسلسلۂ تجارت اپنا شریکِ کار اپنی بالغ اولاد میں سے کسی ایک کو آدھا یا چوتھائی کا بنا سکتا ہے یا نہیں ؟
۲- اگر تجارت میں شریک بنا دیا ہے تو کیا اولاد مذکور اس متعین حصہ کی مالک ہوسکتی ہے یا نہیں ؟
۳- مذکورہ متعینہ حصہ کو اگر کل یا بعض، والد یا اولاد لے تو حقوق العباد میں گرفتار ہوں گے یا نہیں ؟
۴- گھریلو اخراجات کو جانبین میں سے کوئی ایک برداشت کرے گا یا مشترکہ دولت سے؟
۵- مشترکہ نفع میں سے اگر کوئی چیز خریدی گئی تو جانبین میں سے ہر ایک حق دار ہوگا یا کوئی ایک؟

زمانۂ عدّت میں ملازمت

میں ایک مسئلہ میں قرآن و حدیث اور دورِ حاضر کے حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے آپ کا فتویٰ معلوم کرنا چاہتی ہوں ۔
میں ایک بیوہ ہوں ، میرے شوہر ڈیوٹی پر جا رہے تھے کہ اچانک ان کا راستہ ہی میں انتقال ہوگیا۔ میرے دو بچے ہیں جن میں سے ایک کی عمر تقریباً سولہ سال ہے۔ ایک بچی کی عمر ۹ سال ہے۔ بچی کی پیدائش کے بعد بیماری کی وجہ سے مجھے بچہ دانی کا آپریشن کرانا پڑا۔ اس پر آٹھ سال گزر گئے۔ اس دوران مجھے کبھی حمل نہیں ہوا۔
۲- میں ایک غیر مستقل ملازم ہوں اور میرا تقرر صرف تین تین ماہ کے لیے ہوتا ہے۔ میرے اوپر گھر کی تمام ذمے داری ہے۔ میرے یا میرے شوہر کے خاندان میں کوئی ایسا آدمی نہیں ہے جو میرا اور میرے بچوں کا بوجھ برداشت کرسکے۔ میرے پاس کوئی منقولہ یا غیر منقولہ جائداد بھی نہیں ہے جس سے گزر بسر ہوسکے۔ صرف میری تنخواہ سے گزر ہوتی ہے ـــــ اور ڈیوٹی پر نہ جانے کی صورت میں میری ملازمت برقرار نہ رہ سکے گی۔ ان حالات میں میرے لیے عدت گزارنے کا کیا حکم ہے؟ دوبارہ عرض کردوں کہ میں ایک غیر مستقل ملازم ہوں ۔ ڈیوٹی پر نہ جانے کی صورت میں نوکری ہمیشہ کے لیے ختم ہوجائے گی۔

عورت کی ملازمت کے لیے نئے قواعد کی ضرورت

آپ نے اپنے خطاب میں فرمایا کہ عورت کسی دور میں معیشت کے لیے زیادہ کام نہیں کرسکتی تو دوسرے دور میں کرسکتی ہے۔ لیکن اگر اسے معاشی جدوجہد میں آنا ہے تو اسے شروع سے اس کے لیے تیار ہونا پڑے گا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اس کی تعلیم پیشہ ورانہ ہو۔ ورنہ وہ بعد میں اس میدان میں کیسے داخل ہوگی؟

نان نفقہ کی نوعیت

حدیث میں مرد سے کہا گیا ہے کہ جو خود کھاؤ وہ بیوی کو کھلاؤ، جو خود پہنو وہ بیوی کو پہناؤ، اس بنیاد پر بعض خواتین سمجھتی ہیں کہ کھانا پکانا اور کھلانا اور باورچی خانہ کے دوسرے کام ان کی ذمے داری میں شامل نہیں ہیں ۔ اس لیے وہ یہ کام نہیں کریں گی۔ مرد کی ذمے داری ہے کہ وہ تیار کھانا فراہم کرے۔ کیا فقہاء کرام نے بھی اس طرح کی کوئی بات کہی ہے؟

ناجائز سروس کی مجبوری

بعض اوقات ایسے حالات ہوتے ہیں ، جیسے شوہر کی آمدنی کم ہے اور دوسرے وسائل بھی نہیں ہیں تو مجبوراً ایسی سروس بھی قبول کرنی پڑتی ہے، جس میں احکام شریعت کی پابندی نہیں ہو پاتی۔ اس میں صحیح رویہ کیا ہوگا؟

جائز ملازمتیں

ہمارے معاشرے میں وہ کون سی ملازمتیں ہیں جو اسلامی حدود کے اندر خواتین کے لیے درست قرار پاسکتی ہیں ؟

زمین داری کی حفاظت کے لیے مطالبۂ شریعت

میاں ممتاز دولتانہ اور دیگر وزرا کی حالیہ تقاریر سے متاثر ہوکر مالکان زمین اس بات پر آمادہ ہورہے ہیں کہ وہ اپنے حقوق کو محفوظ کرانے کے لیے شریعت کے قانون کے نفاذ کا مطالبہ کریں اور دوسری کسی ایسی ویسی اسکیم کو تسلیم نہ کریں جو ان کے حقوق کو سلب کرنے والی ہو۔چنانچہ کیمبل پور میں ایسے ہی لوگوں نے مل کر’’طالبان قانون شریعت‘‘ کے نام سے ایک انجمن کی بنیاد ڈالی ہے جو کیمبل پور کے ضلع میں اس مطالبہ کو اُٹھائے گی اور دوسرے اضلاع میں بھی اس کو حرکت میں لانے کی کوشش کرے گی۔ اس انجمن نے اس غرض کے تحت ایک ہینڈ بل بعنوان’’انجمن طالبان قانون شریعت کا مطالبہ‘‘ اور ایک اور مراسلہ بنام ممبران پنجاب اسمبلی طبع کرایا ہے۔ موجودہ حالات میں ہمیں توقع ہے کہ یہ لوگ ہمارے نصب العین یعنی نفاذ قانون شریعت سے دل چسپی لیں ۔اس بارے میں آپ ہمیں ہدایت فرمائیں کہ آیا ہم ان کے ساتھ مل کر کام کرسکتے ہیں ؟

زمین داری کے مکروہات

میں جماعت اسلامی کا لٹریچر پڑھ کر کافی متاثر ہوں ،ذہن کا سانچا بدل چکا ہے اور یہ سانچا موجودہ ماحول کے ساتھ کسی طرح سازگار نہیں ہورہا۔مثلاً ایک اہم اُلجھن کو لیجیے۔ہمار ا آبائی پیشہ زمین داری ہے اور والد صاحب نے مجھے اسی پر مامور کردیا ہے۔ زمین داری کا عدالت اور پولیس وغیرہ سے چولی دامن کا ساتھ ہوگیا ہے۔عدالت اور پولیس سے بے تعلقی کا اظہار زمین دار کی کامل معاشی موت ہے۔ حدیہ کہ عدالت اور پولیس کی پُشت پناہی سے بے نیا زہوتے ہی خود اپنے ملازمین اور مزارعین پر زمین دار کا کوئی اثر نہیں رہ جاتا۔خود پولیس جب یہ دیکھتی ہے کہ کوئی زمین دار اس کی ’’بالائی آمدنی‘‘ میں حائل ہورہا ہے تو وہ اسی کے مزارعین اور ملازمین کو اُکسا کر اس کے مقابلے پر لاتی ہے۔اسی طرح عدالتوں کا ہوّا جہاں کارندوں کے سامنے سے ہٹا، پھر ان کو ضمیر کی آواز کے سوا کوئی چیز فرائض پر متوجہ نہیں رکھ سکتی، اور حال یہ ہے کہ ان لوگوں کے لیے مادّی فائدے سے بڑھ کر کسی شے میں اپیل نہیں ہے۔مزید وضاحت کے لیے ایک مثال کافی ہوگی۔ ہمارے ہاں دستور تھا کہ کارندوں کے کام میں نقص رہے یا وہ کسی قسم کا نقصان کردیں تو ان سے تاوان وصول کیا جاتا تھا۔ہم نے یہ تاوان وصول کرنا بند کردیا،کیوں کہ پولیس کی مدد کے بغیر یہ سلسلہ چل نہیں سکتا۔رویے کی اس تبدیلی کے ساتھ معاً کاشت کاروں نے نقصان کرنا شروع کردیا اور کارندوں نے بھی جرمانے کی رقم میں سے جو حصہ ملنا تھا،اس سے مایوس ہوکر چشم پوشی اختیار کی۔ اب حالات اس حد تک پہنچ گئے ہیں کہ میں زمین داری کو سرے سے ختم کرنے کا فیصلہ کرنے پر مجبور ہورہا ہوں ۔آپ کی راے میں چارۂ کار کیا ہے؟

ملکیتوں کو نظامِ حکومت کے سپرد کرنا

ایک عالم نے یہ سوال کیا ہے کہ قرآن کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ جہان کی نعمتوں سے ہر فر د بشر کو منتفع ہونا چاہیے۔ اب انتفاع عامہ کے لیے اگر ملکیتوں کو نظام حکومت کے سپرد کردیا جائے تو یہ قرآن کا منشامعلوم ہوتا ہے۔

آپ نے فرمایا ہے کہ میرے ملازمین یا منیجروں کو مزارعین کے کام میں دخل دینے کا حق نہیں پہنچتا۔سوال یہ ہے کہ اگر ان کی نگرانی نہ کی جائے تو وہ مالک زمین کا حق مار کھائیں گے اور کماحقہ محنت نہ کریں گے۔ ملازمین کے مصارف کا بوجھ صرف مجھی پر ہوتا ہے، مزارعین کو اس سے کوئی تعلق نہیں ۔