دوبارہ متکلف ہوں کہ جو چند باتیں جناب کے نوازش نامے سے نہیں سمجھ سکا، ان کی مزید توضیح کی درخواست کروں :
اگرتین سیر فی من بٹائی کے علاوہ لینا درست نہیں ہے تو پھر دوسرا یہ راستہ ہے کہ بٹائی کی شرح تبدیل کروں ۔ مثلاً ۳۱ کے بجاے ۵۲ یا ۵۳ کی شرح قائم کی جاسکتی ہے،یا کوئی اور صورت جو شرعاً زیادہ مناسب ہو تحریر فرمائیں ۔حصہ داروں اور ملازمین کے رقبوں کو علیحدہ کرنے کے لیے میں نے آج ہی کہہ دیا ہے۔بہرحال بٹائی کے شرعی طریق یا تناسب سے مطلع فرمائیں ۔

میری ملکیت وراثتاً میرے پاس منتقل ہوئی ہے اور میرے آبائ و اجداد نے حکومت سے یادوسرے زمین داروں سے’’قیمتاً‘‘لی تھی۔میرے پاس کوئی سرکار ی جاگیر وغیرہ نہیں ۔ اس کی شرعی حیثیت بیان کیجیے۔

میرے ملازمین کاشت بھی ہیں جن میں سے چند حصہ پر ہیں اور چند تنخواہ دار ہیں ۔ حصہ داری پر کام کرنے والے میرے بیلوں کے ساتھ میری اراضی میں میرے منیجروں کی ہدایات کے تحت کام کرتے ہیں ۔بیج میرا ہوتا ہے۔ بعد میں ملکیت کے طور پر ۳۱ حصہ بٹائی اورتین سیر فی من کل انبارمیں سے وصو ل کرتا ہوں ۔بقیہ غلہ کا نصف بیلوں کے مصارف میں لیا جاتا ہے اور نصف کارکنوں کی کارکردگی کے حق میں دیا جاتا ہے۔
مثلاً الف،ب،ج میرے حصے دار ہیں اورد،ذ میرے ملازم ہیں ۔ان کے پاس میرےپانچ جوڑی بیل کاشت کے لیے ہیں ۔ میں ۵۰من غلے میں سے اپنی بٹائی لے کرتین حصے الف،ب،ج کو دوں گا،باقی پانچ حصے بیلوں کے اور دو حصے تنخوا ہ دار ملازموں کے میں لوں گا،کیوں کہ ان کی تنخواہ میرے ذمے ہے۔آبیانہ وغیرہ علاوہ ملکیتی لگان سرکاری کے مندرجۂ بالا نسبت سے ادا ہوگا۔

تین سیر فی من( ۳۱ حصۂ پیدا وار کے علاوہ)کل پیدا وار میں سے جداگانہ طو رپر وصول کیا جاتا ہے اور کسی طرح کا لگان یا بیگار پہرہ وغیرہ کی خدمات نہیں لی جاتیں ۔

تخم پختہ اجناس بذمہ مزارعان ہوتا ہے اور قیمتی اجناس کے تخم کا ۳۱ حصہ میں دیتا ہوں ۔

زمین داری میں رضا کارانہ طور پر اصلاحات کا آغاز

میں ایک بڑ ی زمین داری کا مالک ہوں ۔میں نے تہیہ کرلیا ہے کہ اپنے مزارعین سے شریعت محمدیؐ کے مطابق معاملہ کروں ۔ اس مقصد کے لیے میں اپنے موجودہ طرز عمل کی تفصیلات تحریر کررہا ہوں ۔({ FR 1551 }) ان کے بارے میں واضح فرمایے کہ کیا کیا چیزیں غلط ہیں اور کیا کیا صحیح ہیں ؟
میں نے ہر مزارع کو دس بارہ ایکٹر زمین فی ہل دے رکھی ہے۔بیگار مدت سے رائج تھی، لیکن میں نے بند کردی ہے۔صرف وسائل آب پاشی کی درستی مزارعین کے ذمے ہے۔

اسلامی اُصولوں پر بنکنگ کی ایک اسکیم

اسلامی اُصولوں پر ایک غیر سودی بنک چلانے کے لیے ایک اسکیم بھیجی جارہی ہے۔ اس کو ملاحظہ فرما کر ہماری راہ نمائی کیجیے کہ کیا شرعاً یہ اسکیم مناسب ہے؟یا اس میں کسی ترمیم واضافہ کی ضرورت ہے؟
اسکیم کا خلاصہ
مسلما ن زمیں دار،تجار اور اہل حرفہ مدتوں سے ساہوکاروں کے پنجے میں پھنستے جارہے ہیں اور۲۵،۲۵ فی صدی تک سود ادا کرتے کرتے تباہ ہورہے ہیں ۔بڑے تاجر اور زمیں دار تو خیر بری بھلی طرح پنپ بھی رہے ہیں لیکن کم استطاعت مسلمانوں کا حال سودی قرضوں نے بہت ہی پتلا کردیا ہے۔ہم چاہتے ہیں کہ ایک مسلم بنک مسلمانوں کو غیر سودی قرض دینے اور زکاۃکی وصولی کا انتظام کرنے کے لیے قائم ہو۔ ابتداء ً ایک ضلع میں اس کا تجربہ کیا جائے اور پھر ملک بھرمیں اسے پھیلا دیا جائے۔مجوزہ بنک کے لیے ذیل میں چند اُصول ومبادی درج کیے جاتے ہیں :
(۱) یہ بنک قانونِ شریعت کا پورا پورا پابند ہوگا اور مفرد اور مرکب ہر طرح کے سود سے دامن پاک رکھ کے کاروبار کرے گا۔ اس بنک سے حاجت مند مسلمانوں کو جائدادی کفالتوں پر اور تجارت پیشہ لوگوں کو مضاربت کے اُصولوں پر کاروبار چلانے کے لیے سرمایہ فراہم کیا جائے گا۔قرض دارکو ازرُوئے معاہدہ اس امر کا پابندہونا پڑے گا کہ وہ اپنے اموال اور کاروباری سرماے پر ایک خاص عرصے تک باقاعدگی سے بنک کو زکاۃادا کرے۔اس طریقے سے ایک تو بلا سود سرمایہ حاصل کرکے مسلمان تاجر یا صناع اپنا کاروبار بخوبی چلا سکے گا اور اپنے سرماے پر سود ادا کرنے والے غیر مسلم حریفوں کا بخوبی مقابلہ کرنے کے قابل ہوجائے گا، اور دوسری طرف نظامِ زکاۃ کے احیا میں وہ حصہ دار بنے گا جس کے مٹ جانے کی وجہ سے ہمارے عوام کی غریبی اور بے روزگاری لاعلاج ہوکے رہ گئی ہے۔
(۲) یہ بنک چوں کہ بہت ہی سادہ اور پاکیزہ طریق پر عوام سے معاہداتی معاملہ کرے گا،اس لیے یہ بآسانی ممکن ہے کہ حکومت سے قانونی طور پراس کی توثیق کرا لی جائے۔ضرورت ہوتو اسمبلی میں بل پیش کیا جاسکتا ہے۔پہلے زکاۃ کی جبری وصولی کے لیے ایک دفعہ حکومت کے سامنے سوال اُٹھایا گیا تھا تو یہ اس وجہ سے نامنظور ہوا تھا کہ اس سے مسلمانوں کی ’’متوازی‘‘حکومت قائم ہوتی ہے ۔لیکن ہماری تجویز کے مطابق زکاۃ کی جبری وصولی اس معاہدے کے زیر اثر ہوگی جو بنک اپنے مقروض سے طے کرے گا۔کوئی حکومت معاہداتی معاملات کی تصدیق سے انکار نہیں کرسکتی۔
(۳)یہ بنک زکاۃ اور دوسرے صدقات کی منظم وصولی کا فریضہ بھی اپنے ذمے لیتا ہے۔انفرادی طورپر زکاۃ تقسیم کردینا ایک ناقص طریقہ ہے۔ شریعت اس کا اجتماعی نظم چاہتی ہے۔لہٰذا ہم سمجھتے ہیں کہ مسلم پریس اور پلیٹ فارم کو ہماری اس تجویز کی پوری پوری پشت پناہی کرنی چاہیے۔
(۴) اس بنک کا منظور شدہ اور ادا شدہ سرمایہ کم ازکم۵ لاکھ روپے ہوگا جو دس دس روپے کے پچاس ہزار حصص پر مشتمل ہو گا۔۴لاکھ کا سرمایہ مناسب صنعتی کاروبار میں لگا کر کم از کم ۶فی صدی سالانہ منافع حاصل کیا جاسکے گا۔بقیہ ایک لاکھ ادنیٰ طبقے کے مسلمان کاری گروں اور پیشہ وروں کو قرضہ دینے کے لیے مخصوص کردیا جائے گا۔ اور ابتداء ً قلّت ِ سرمایہ کی وجہ سے قلیل مدت کے لیے قرضے جاری کیے جائیں گے۔
انتظامی مصارف کو تجارتی سرمایے کے منافع کے ۲۵فی صدی یعنی چھ ہزار روپیا سالانہ کے اندر اندر پورا کیا جائے گا۔ اخراجات کا تخمینہ حسب ذیل ہے:
ایک منیجر ۲۰۰روپے ماہوار ۲۴۰۰سالانہ
ایک اکائونٹنٹ ۱۰۰روپے ماہوار ۱۲۰۰ سالانہ
ایک اسٹینو گرافر ۵۰روپے ماہوار ۶۰۰ سالانہ
دوکلرک ۳۰روپے ماہوار ۷۲۰سالانہ
دوچیراسی ۲۰روپے ماہوار ۴۸۰سالانہ
متفرق مصارف ۱۲۰الانہ
میزان: ۶۰۰۰ روپے سالانہ
پہلے سال چند ہزار روپے فرنیچر، ٹائپ مشینوں اور آہنی الماریوں وغیرہ پر بھی صرف ہوں گے۔اس لیے چار لاکھ کے کاروباری سرمایے پر متوقع۲ فی صدی منافع میں سے۶فی صدی الگ کرکے بھی ہم۴ فی صدی حصے داروں میں تقسیم کر سکیں گے، اور اگر ان’’ امانتوں ‘‘ کا منافع بھی محسوب کیا جائے جو ہمارے بنک کے حوالے کی جائیں گی، تو یقیناً حصے داروں کو زیادہ منافع ملے گا۔
زکاۃ کی رقم کو ٹھیک ٹھیک شرعی مصارف پر صرف کیا جائے گا اور دوسرے صدقات بھی مسلمان عوام کی بہبود کے لیے ڈائرکٹروں کی ’’شوریٰ‘‘ کے مشورے سے خرچ کیے جائیں گے۔ڈائرکٹروں کی تجویز کے مطابق منافعوں کا ایک مناسب حصہ فلاحِ عامہ کے فنڈ میں بھی شامل ہوتا رہے گا۔’’شوریٰ‘‘ صرف ایسے اصحاب پر مشتمل ہوگی جو بااثر ہوں اور مختلف طبقات کے مفاد کی نمائندگی کرسکیں ۔
(۵) بنک اس کامجاز ہوگا کہ میعادی امانتوں (fixed deposits) کی جو رقمیں اس کے پاس ہوں ،انھیں صنعتی،تجارتی اور زرعی بیوپاروں میں لگا کر منافع حاصل کرے۔ایسے منافع میں سے ایک حصہ امانت داروں کو تقسیم کردیا جائے گا تاکہ لوگوں میں ہمارے پاس امانتیں رکھوانے کی طرف رغبت پیدا ہو۔
ہمارے بنک کے امتیازات یہ ہوں گے کہ:
ا۔ اس کی اساس لوٹ کھسوٹ کی خواہش پر نہیں بلکہ خدمت اور تعاون کے جذبے پر ہوگی اور اس وجہ سے اس کی کشش ہر اس شخص کے لیے ہے جو نفع اندوزی کی جگہ خدمت کرنا چاہے،خواہ وہ ہندو ہو یا مسلم۔
ب۔ یہ بنک ان لوگوں سے بھی زکاۃ جمع کرنے کی کوشش کرے گا جو بنک کے مقروض نہ ہوں ، مگر زکاۃ کو اجتماعی نظم کے ساتھ اداکرنا چاہیں ۔
ج۔ ’’میعادی امانتوں ‘‘پر یہ بنک سودنہیں دے گا بلکہ اس کے بجاے ان امانتوں کو کاروبار میں لگا کر منافع حاصل کرے گا اور اس کاحصہ امانت داروں کو دے گا۔

بنک میں رقم رکھوانے کی جائز صورت

بنک میں رقم جمع کرنے کے معاملے میں میرا سوال یہ ہے کہ اگر میں سیونگ اکائونٹ میں رقم جمع کراتا ہوں تو بنک اس پر سود دے گا۔ لیکن اگر کرنٹ اکائونٹ میں رقم جمع کرائی جائے تو اگرچہ اس پر مجھے سود نہیں ملے گا مگر بنک اس رقم کو سودی کاروبار میں استعمال کرے گا۔ گویا میری رقم پر بنک تو سود لے گا۔ اس کے بجاے میں یوں کیوں نہ کروں کہ سیونگ اکائونٹ میں رقم جمع کرائوں اور اس پر جو سود مجھے ملے اسے حاجت مندوں کی ضروریات پر صرف کروں ؟ وہ سود بنک کیوں کھائے؟ کسی ضرورت مند کی ضرورت کیوں نہ پوری کر دی جائے؟ اس معاملے میں میری راہ نمائی فرمائی جائے۔‘‘

غیر سودی معیشت میں حکومت کو قرض کی فراہمی کا مسئلہ

میں آج کل غیر سودی نظام بنک کاری پر کتاب لکھ رہاہوں ۔ اسی سلسلے میں ایک باب میں حکومت کو قرض کی فراہمی کے مسئلے پر لکھنا ہے۔ آج کل حکومت کو متعدد وجوہ سے جس وسیع پیمانے پر قرض کی ضرورت ہے اس کے پیش نظر صرف اخلاقی اپیل پر انحصار نہ کرکے اصحاب سرمایہ کو قرض دینے کے کچھ محرکات فراہم کرنے کی ضرورت محسوس ہوتی ہے۔
میری راے یہ ہے کہ غیر سودی معیشت میں جو لوگ حکومت کو قرض کے طور پر سرمایہ فراہم کریں ان کو قرض دیئے ہوئے سرمایے پر بعض محاصل میں تخفیف یا بعض محاصل سے استثنا کی رعایت دی جائے۔ مثلاً آمدنی کا جو حصہ بطورِ قرض حکومت کو دیا جائے اس پر انکم ٹیکس کی شرح رعایتی طور پر کم کر دی جائے۔ یہ رعایت حکومت کے لیے قرض کی فراہمی میں مددگار ہوگی۔
یہاں تک تو اس تجویز کا تعلق ان وضعی محاصل سے تھا جو ایک اسلامی ریاست عشرو زکاۃ وغیرہ شرعی محاصلِ و اجبہ کے علاوہ عائد کرتی ہے۔ اب ایک بالکل علیحدہ مسئلے کے طور پر یہ بھی دریافت کرنا ہے کہ اگر مذکورئہ بالا راے کو اختیار کرنے کی آپ گنجائش سمجھتے ہوں تو کیا یہ بھی ممکن ہے کہ جو سرمایہ جتنی مدت کے لیے حکومت کو قرض دیا گیا ہو اس سرمایے پر اتنی مدت تک قرض دینے والے سے زکاۃ نہ وصول کی جائے۔
دونوں تجاویز کے موافق اور مخالف جو دلائل میرے سامنے ہیں ان کا آپ کے سامنے اعادہ کرکے آپ کا قیمتی وقت صرف کرنے کی بجاے صرف اتنا لکھنا کافی سمجھتا ہوں کہ پہلی راے کے حق میں تو مجھے اپنی حد تک اطمینان ہے کہ اس میں کوئی شرعی اصول پامال نہیں ہوتا۔ مسئلہ صرف عملی مصالح کی روشنی میں فیصلے کا طالب ہے۔ البتہ دوسری راے پر مجھے اطمینان نہیں ہے۔ دونوں رایوں کے سلسلے میں آپ سے علیحدہ علیحدہ راہ نمائی کا طالب ہوں ۔

غیر مسلم ممالک سے اقتصادی اور صنعتی قرضے

کیا اسلامی حکومت موجودہ دور میں جب کہ ایک ملک دوسرے ملک سے قطع تعلق کرکے ترقی نہیں کرسکتا،غیر ممالک سے متعلق اقتصادی،فوجی،ٹیکنیکل امداد یا بین الاقوامی بنک سے شرح سود پر قرض لینا بالکل حرام قرار دے گی؟پھر مادّی، صنعتی، زراعتی و سائنسی ترقی وغیرہ کی جو عظیم خلیج مغربی ترقی یافتہ(advanced)ممالک اور مشرق وسطیٰ بالخصوص اسلامی ممالک یا اس ایٹمی دور میں haveاورhave notکے درمیان حائل ہے ،کس طرح پُر ہوسکے گی؟نیز کیا اندرون ملک تمام بنکنگ وانشورنس سسٹم ترک کرنے کا حکم دیا جائے گا؟ سود، پگڑی، منافع وربح اور گڈوِل(goodwill) اور خرید وفروخت میں دلالی وکمیشن کے لیے کون سی اجتہادی راہ نکالی جاسکتی ہے؟کیا اسلامی ممالک میں سود، منافع، ربح وغیرہ پر کسی صورت میں لین دین کرسکتے ہیں ؟