جماعت اسلامی کے افرادکی اصلاح کی کوشش

میرے قریبی حلقوں میں جماعت کے کارکن حضرات،جن کے اخلاص،دیانت اور سرگرمی کامیں دل سے قدر داں ہوں اور جن کے احترام سے میرا قلب ہر وقت معمور رہتا ہے ،وہ اپنے عام اجتماعات میں نہ تو دستور کے ناقص پہلوؤں پر عوام کو توجہ دلاتے ہیں اور نہ مسئلۂ انتخاب کے سلسلے میں خالص اسلامی مجلس شوریٰ کا نظریہ عوام کے سامنے رکھتے ہیں ۔ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ عوام اس غلط فہمی میں مبتلا ہوتے جا رہے ہیں کہ ہمارے ملک کا دستور کامل اسلامی دستور بن چکا ہے، صرف جداگانہ انتخاب کی ایک آخری اسلامی مہم باقی ہے۔پھر عوام سے ربط بڑھانے کا طریقہ بھی تنقیدی اور منفی ڈھنگ کا ہوتا ہے جس سے خواہ مخواہ مقامی، شخصی اور جزوی اختلافات کو ابھرنے کا موقع ملتا ہے۔جماعتی عصبیت میں اتنے کلیت پسند بن جاتے ہیں کہ بعض سیاسی ومذہبی امور پر جزوی وفروعی اختلاف کو بھی جماعت سے ذاتی یا گروہی عناد کا درجہ دے دیتے ہیں ، اور اس ملک کی گزشتہ سیاسی ومذہبی تاریخ سے شاید پوری طرح واقف نہ ہونے کی بِنا پر یا جماعتی غلو کے غیر شعوری جذبے کی بِنا پر موجودہ حالات کو گزشتہ معاملات سے اس طرح کڑی در کڑی ملاتے ہیں کہ پیش روئوں کے کاموں کی اکثر غلط ترجمانی ہوتی ہے اور اسلاف کی بصیرت اسلامی اور خلوص مشکوک نظر آنے لگتا ہے۔اگرچہ اس بارے میں جماعت کے بعض اہل قلم اور آپ سے بھی کم وبیش شکایت ہوسکتی ہے، لیکن ہمارے قریبی کارکن اور معزز ارکان جماعت تو اس بارے میں بجاے خود بہت سی غلط فہمیوں میں مبتلا ہیں اور اس وقت اور اس ماحول کے معیار پر گزشتہ معاملات کو قیاس کرنے کے عادی سے بن گئے ہیں ۔ کیا ہی اچھا ہو کہ وسیع النظری اور وسیع القلبی سے کام کیاجائے اور مقصد سے نیچے نہ آیا جائے۔بایں ہمہ موجودہ سوسائٹی میں مجھے یہ سب سے زیادہ عزیز اور قابل احترام ہیں ۔اﷲ ہمیں ایک دوسرے کے ساتھ زیادہ سے زیادہ تعاون کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور اپنے دین کی صحیح صحیح خدمت لینے کے قابل بناے۔

انقلاب کا راستہ،زبانی تبلیغ یا عملی اقدام

تحریک اسلامی سے مجھے بہت دل چسپی ہے مگر چند روز سے ایک اہم اعتراض دماغ میں چکر لگا رہا ہے،جسے آپ کے سامنے رکھ کر راہ نمائی چاہتا ہوں کہ اگر مسلمان موجودہ طاغوتی نظام سے بالکل علیحدگی اختیار کرلیں تو ان کی حیثیت ہندستان میں غلام یا اچھوت کی سی رہ جائے گی۔پس کیایہ اچھا نہ ہوگا کہ آپ جیسے اعلیٰ دماغ حضرات مسلمانوں کو اس نظام سے فائدہ اُٹھانے کی گنجائش دے کر ذہنی تربیت کا کام کرتے رہیں ، تا آں کہ پوری مسلمان قوم کی ذہنیت ایک ہی طرزِ فکر کی حامل ہوجائے اور پھر موقع آنے پر وہ یک دم نظامِ حق کے لیے اُٹھ کھڑی ہو۔
اگر تمام مسلمان آپ کی تحریک اسلامی کے ساتھ ہوگئے ہوتے تب تو طاغوتی نظام میں جذب ہوئے بغیر کام یابی کا امکان تھا،مگر اب جب کہ مسلمانوں کی اکثریت تحریک اسلامی کے نام سے بھی واقف نہیں اور علما جن کا فرض ہی احیاے دین کی جدوجہد ہے ،اس کو ناقابل عمل بتاتے ہیں ،نظامِ باطل سے کٹ کر کام یابی حاصل کرنے کا کوئی موقع نہیں ہے۔پھر کیا آپ اس پر متفق نہیں ہوں گے کہ ابھی آپ صرف تبلیغی کام کرتے رہیں اور جب بالعموم مسلمانوں کے ذہن تحریکِ اسلامی کو سمجھنے لگیں اس وقت عملی کا م کا آغاز کیا جائے؟

وقت کے سیاسی مسائل میں جماعتِ اسلامی کا مسلک

اس وقت مسلمانانِ ہند دو فتنوں میں مبتلا ہیں :اوّل کانگریس کی وطنی تحریک کا فتنہ جو واحد قومیت کے مفروضے اورمغربی ڈیموکریسی کے اصول پر ہندستان کی اجتماعی زندگی کی تشکیل کرنا چاہتی ہے۔دوم مسلم نیشنل ازم کی تحریک جسے لیگ چلا رہی ہے اور جس پر ظاہر میں تو اسلام کا لیبل لگا ہوا ہے مگر باطن میں روحِ اسلامی سراسر مفقود ہے۔’’مسلمان اور موجودہ سیاسی کش مکش‘‘ کے مطالعے سے یہ بات ہم پر واضح ہو چکی ہے کہ یہ دونوں تحریکیں اسلام کے خلاف ہیں ۔ لیکن حدیث میں آیاہے کہ انسان جب دو بلائوں میں مبتلا ہو تو چھوٹی بلا کو قبول کرلے۔اب کانگریس کی تحریک تو سراسر کفر ہے۔اس کا ساتھ دینا مسلمانوں کی موت کے مرادف ہے۔اس کے مقابلے میں لیگ کی تحریک اگرچہ غیر اسلامی ہے،لیکن اس سے یہ خطرہ تو نہیں کہ دس کروڑ مسلمانانِ ہند کی قومی ہستی ختم ہوجائے۔لہٰذا کیا یہ مناسب نہ ہوگا کہ ہم لیگ سے باہر رہتے ہوئے اس کے ساتھ ہم دردی کریں ؟ اس وقت ہندستان میں انتخابات کی مہم درپیش ہے({ FR 1021 }) اور یہ فیصلہ کن حیثیت رکھتے ہیں ۔ ایک طرف تمام غیر لیگی عناصر مل کر مسلم لیگ کو پچھاڑنے کی کوشش کررہے ہیں جن میں اگر وہ کام یاب ہوجائیں تو اس کا لازمی نتیجہ یہ ہوگا کہ کانگریس کی وطنی تحریک مسلمانوں پر زبردستی مسلّط ہوکے رہ جائے گی۔دوسری طرف مسلم لیگ یہ ثابت کرنا چاہتی ہے کہ مسلمان ایک مستقل قوم ہیں اور وہ اپنی قومی حکومت قائم کرنے کے خواہش مند ہیں ۔ان دونوں کا فیصلہ راے دہندوں کے ووٹ پر منحصر ہے۔ایسی صورت میں ہم کو کیا رویہ اختیار کرنا چاہیے؟کیا ہم لیگ کے حق میں ووٹ دیں اور دلوائیں ؟یا خاموش بیٹھے رہیں ؟یا خود اپنے نمائندے کھڑے کریں ؟

ملکی فسادات میں ہمار افرض

ہم ایک ہندو اسٹیٹ میں رہتے ہیں جہاں برطانوی ہندکے مقابلے میں کتنی ہی زائد پابندیاں عائدہیں ۔ محض نماز روزے کی آزادی ہے، اور یہ آزادی بھی برادرانِ وطن کی آنکھوں میں کانٹے کی طرح کھٹک رہی ہے۔ان کو تو ہمارے نام سے نفرت ہے اور جو مسلمان جتنا ہی زیادہ پابندِشرع ہے، وہ اتنا ہی زیادہ ان کے بُغض کا مستحق ہے۔ان حالات میں آپ کا کہنا کہ ’’جماعت اسلامی کی پالیسی تو فسادات میں غیر جانب داررہنے کی ہے‘‘، اور یہ کہ’’یہ جماعت تو مظلوم کو مظلوم اور ظالم کو ظالم کہے گی اور بوقت ضرورت بے لاگ گواہیاں دے گی‘‘ اکثر لوگوں کی سمجھ میں نہیں آتا۔ چناں چہ میرے ایک دوست پوچھتے ہیں کہ کیا ہم اس وقت تک خاموش بیٹھے رہیں جب کہ ہمیں گواہی دینے کا موقع آئے؟شہر میں فساد کے شعلے بھڑک اُٹھیں اور ہم بس یہ دیکھتے رہیں کہ کون کس پر ظلم کرتا ہے؟پھر جو قوم صرف مسلمان کے نام کی دشمن ہے،وہ ایسے مواقع پر خود ہم پر ہاتھ اُٹھانے سے کب باز رہ جائے گی؟ وہ اس بات کا لحاظ ہی کیوں کرنے لگی کہ یہ فساد میں شریک نہیں ہیں ،صرف تماش بین کی حیثیت رکھتے ہیں ؟ نیز اگر میرے کسی مسلمان پڑوسی پر غیر مسلموں نے ظالمانہ طورپرحملہ کردیا تو اسلامی نقطۂ نظر سے میرے لیے یہ جائز کیسے ہوسکتا ہے کہ خاموش بیٹھا رہوں اور اس کی جان بچانے کے لیے اپنی جان خطرے میں نہ ڈال دوں ؟
موصوف یہ خیال کرتے ہوئے بطور خود کتاب وسنت کی روشنی میں اس کے دو حل بتاتے ہیں :
ایک تو یہ کہ اگر ہم مقابلے کی قدرت رکھتے ہوں تب تو اپنی مدافعت کی خاطر ان کا مقابلہ کرنا چاہیے۔ دوسرا یہ کہ چوں کہ ہم اقلیت میں ہیں اس لیے ایسی جگہ ہجرت کرجائیں جہاں ہماری اکثریت ہو۔
اُمید ہے کہ آں جناب ان حالات میں ہماری مناسب راہ نمائی فرمائیں گے۔اِدھر ریاست کے مسلمانو ں کا حال یہ ہے کہ ان میں پچاس فی صدی بالکل جاہل اور آبا پرست اور پچیس فی صدی نیم خواندہ مگر پکے پیر پرست،بقیہ پچیس فی صدی تعلیم یافتہ مگر ان میں سے بیس فی صد علمِ دین سے کورے اور خانقاہیت سے متاثر، اور باقی پانچ دنیا کے بندے۔

پاکستان میں اسلامی نظام اور مسلم لیگی قیادت

ہفت روزہ ’’طاہر‘‘ میں اور اس کے بعد ’’نواے وقت‘‘ میں جناب کے حوالے سے مسلم لیگی قیادت کے لیے لفظ فراڈ استعمال کیا گیا ہے۔ میں ایک مسلم لیگی ہوں اور سمجھتا ہوں کہ مسلم لیگ نے قائداعظمؒ کی آنکھیں بند ہوتے ہی ہما لائوں سے بڑی بڑی غلطیاں کی ہیں ۔ لیکن جناب قائداعظمؒ کے متعلق میرا ایمان و ایقان ہے کہ اگر حیات ان سے وفا کرتی تو وہ اس مملکتِ خداداد میں اسلامی آئین کے نفاذ کے لیے مقدور بھر ضرور سعی فرماتے۔ میرا خیال ہے کہ تقریر کرتے وقت آپ نے جس مسلم لیگی قیادت کو فراڈ کے خطاب سے نوازا، یہ وہ مسلم لیگ تھی جو قائداعظمؒ کے مسلم لیگ کی صدارت سے مستعفی ہونے کے بعد چودھری خلیق الزماں اور لیاقت علی خاں کی قیادت میں ابھری۔ یقیناً جناب کا منشا قائداعظمؒ کی ذات ستودہ صفات سے نہیں ہوگا۔
نواے وقت میں جو افسوس ناک بحث چل نکلی ہے، جناب کی طرف سے خاموشی اس کو مزید تقویت دے رہی ہے۔ جناب کی معمولی سی تردید، اس آڑے وقت میں جبکہ ملت کو ’’نواے وقت‘‘ کی راہ نمائی اور جناب کی قیادت کی از بس ضرورت ہے، ختم کرنے میں ایک مجاہدانہ کردار ادا کرے گی۔

مسلم حکومتوں کے معاملے میں جماعت اسلامی کا مسلک

انگلستان سے ایک صاحب نے مجھے لکھا ہے:
مختلف مسلمان حکومتوں ، خصوصاً سعودی حکومت کے ساتھ اسلامی کارکنوں کے تعاون سے بہت کچھ نقصان ہو رہا ہے۔ ہم نے اسلامک کونسل آف یورپ کی طرف سے منعقد کی جانے والی بین الاقوامی معاشی کانفرنس میں یہ مشاہدہ کیا ہے کہ اس چال کے ذریعے سے مسلم حکومتوں کے معاملے میں اسلام کے موقف کو طرح طرح کی غلط فہمیوں میں اُلجھا دیا گیا ہے۔ اسلامک کونسل آف یورپ نے اس کانفرنس میں اسلام کی بہت سی بنیادی تعلیمات کو الٹ کر رکھ دیا ہے۔ بعض لوگ جو آپ کی تحریک سے مضبوط تعلق رکھتے ہیں ان کی اس کانفرنس میں شرکت لوگوں میں یہ خیال پیدا کرنے کی موجب ہوئی ہے کہ انھیں آپ کی تائید حاصل ہے اور یہ چیز مسلمان حکومتوں ، خصوصاً سعودی حکومت کی پالیسیوں کو سندِ جواز بہم پہنچاتی ہے۔ ہم پورے زور کے ساتھ اصرار کرتے ہیں کہ آپ اپنی تحریک کے کارکنوں کو مسلم حکومتوں کی خدمت انجام دینے والی قومی اور بین الاقوامی ایجنسیوں اور پلیٹ فارموں سے الگ رکھنے کے لیے اپنا پورا اثر استعمال کریں ۔
اس خط کے ساتھ ایک محضر نامہ بھی ہے جس پر بہت سے اشخاص کے دستخط ہیں ۔

قضیۂ فلسطین میں جماعت کا رویّہ

بعض اصحاب پوچھتے ہیں کہ فلسطین کی سیاست میں امریکا اور برطانیا کی خود غرضی و اسلام دشمنی کے نتائج آشکارا ہیں ۔جماعت اسلامی نے اس معاملے میں کبھی اپنی پالیسی کا اظہار کیوں نہ کیا؟

تحریک اسلامی کی دعوتی ترجیحات

اگر آپ اپنی اسلامی تحریک کو کفار و مشرکین سے شروع کرتے اور ’’نسلی مسلمانوں ‘‘ کو ان کی حالت پر چھوڑ دیتے تو کیا یہ اچھا نہ ہوتا؟ (اس کے علاوہ اس مراسلہ میں ’’نسلی مسلمان‘‘ کی اصطلاح پر بھی سخت آزردگی کا اظہار کیا گیا ہے)

جماعتِ اسلامی اور علماے کرام

جماعتِ اسلامی اور علماے حق کا نزاع اندریں صورت قابل افسوس ہے۔اس سے اصل کام کی رفتار پر بہت برا اثر پڑے گا اور یہ معمولی بات نہ سمجھی جائے۔ مذہبی جماعتوں میں سے جماعتِ اسلامی کو اچھی نگاہ سے دیکھنے والی اور جائز حد تک اتفاق ظاہر کرنے والی ایک اہل حدیث کی جماعت ہے( جو قلیل ہے )اور دوسری جماعت علماے حق کی ہے جو اہل دیوبند سے متعلق ہے (یعنی بریلویوں کے مقابلے میں )اور یہ کثیر تعداد میں ہے۔اگر اس گروہِ عظیم کے اکابر واصاغر جماعتِ اسلامی سے اس رنگ میں متنفر ہوتے ہیں تو بنظر غائر دیکھ لیا جائے کہ عوام میں کتنی بے لطفی پیدا ہوجائے گی اور اصل مقصد سے ہٹ کر جماعتِ اسلامی کے افراد کس فرقہ بندی کی مصیبت میں مبتلا ہوجائیں گے۔
تاحال ابھی اختلافات کی ابتدا ہے۔بریلویوں کی طرف سے’’خطرے کی گھنٹی‘‘ شائع ہوئی ہے۔معلّمین اہل دیو بند کی طرف سے دو چار اشتہار شائع کیے گئے ہیں ۔ان کا تدارک ہوسکتا ہے، غلط فہمی کا ازالہ کیا جاسکتا ہے۔ اگر تھوڑی دیر جماعت کے تمام مقاصد کی سیاست کو سامنے نہ بھی رکھا جائے تب بھی سوء ظنی عامۃ المسلمین کی دور کرنی تو ان حالات میں ازروے اسلام ضروری ہے۔
جماعتِ اسلامی کی طرف سے میری دانست کے موافق شاید’’کوثر‘‘ میں ان شکایات کا جائزہ کچھ سرسری طور پر لیا گیا ہے۔باقی مستقل طور پر ان کے جوابات کی طرف توجہ نہیں کی گئی ہے۔اس میں تاخیر وتاجیل بتقاضاے وقت میرے خیال میں ہرگز درست نہیں ۔
موٹے موٹے اعتراضات یا شکایات قریباً سامنے آچکے ہیں جو عبارتوں کی قطع وبرید کرکے تیار کیے گئے ہیں ،یا باستنباط تجویز ہوئے ہیں ۔بہرکیف ان کا نمبروار تسلی بخش جواب جماعت کی طرف سے آجا نا چاہیے اگر وہ معاملہ جماعت سے تعلق رکھتا ہے۔
اور اگر آپ کی ذات سے متعلق ہے تو اس کو آپ ذاتی طور پر بطریق احسن واضح کریں تاکہ ایک سلیم الطبع آدمی کو پھر سوال وجواب کی زحمت گوارا نہ کرنی پڑے۔
ان ساری تسلی بخش تفصیلات کے بعد پھر بھی ضدی قسم کے لوگ اگر جوں کے توں سوال جڑتے رہیں تو اس وقت آ پ بے شک جواب سے سروکار نہ رکھیں اور اپنے کام میں مصروف رہیں ۔ اور جماعت کے تمام افراد کو بھی یہی تلقین ہونی چاہیے کہ اپنے مسلک کی وضاحت کے سوا اعتراض وجواب سے خاموشی اختیار کی جائے اور معاملہ اﷲ جل جلالہ کے سپرد کردیا جائے۔