مملکت کی سربراہی
کہا جاتا ہے کہ عورت کسی اسلامی ریاست کی سربراہ نہیں ہوسکتی۔ اگر یہ صحیح ہے تو مولانا مودودیؒ نے مادرِ ملت فاطمہ جناح کے بارے میں جو رائے اختیار کی اسے کیا سمجھا جائے؟
کہا جاتا ہے کہ عورت کسی اسلامی ریاست کی سربراہ نہیں ہوسکتی۔ اگر یہ صحیح ہے تو مولانا مودودیؒ نے مادرِ ملت فاطمہ جناح کے بارے میں جو رائے اختیار کی اسے کیا سمجھا جائے؟
آپ کی جملہ تصانیف اور سابق عنایت نامہ پڑھنے کے بعد میں یہ فیصلہ کرنے میں حق بجانب ہوں کہ آپ خالص اسلامی طرز کی حکومت قائم کرنے کے خواہاں ہیں اور اس اسلامی حکومت کے عہد میں ذمی اور اہلِ کتاب کی حیثیت بالکل ایسی ہی ہوگی جیسی ہندوئوں میں اچھوتوں کی۔
جداگانہ انتخاب کے ساتھ مسلمانوں کی وابستگی، نفسیاتی وابستگی ہے، جو گزشتہ پچاس ساٹھ سال سے برابر چلی آرہی ہے۔ جداگانہ انتخاب، الیکشن میں بطور نمایندگی کے، ہندوئوں کی عددی اکثریت کے مقابلے پر وجود میں آیا تھا، اور بدقسمتی سے یہ مسلمانان ہند کی سیاست کا واحد شاہکار بن کر رہ گیا۔ اب اگر اس ذریعے کو اسلامی دستور کے مقاصد کے حصول کے لیے پاکستان میں استعمال کیا گیا تو بوجوہ ذیل ان مقاصد کا حاصل کرنا نہایت مشکل ہوجائے گا:
اوّلاً، اس صورت میں اسلامی پروگرام رکھنے والے فریق کی بہ نسبت اسلامی نام اور غیر مسلموں کی مخالفت کے نعروں اور سنسنیوں سے ووٹروں کو اپیل کرنے والا فریق ہمیشہ پیش پیش رہے گا، جیسا کہ گزشتہ پچا س سال سے وہ پیش پیش رہتا چلا آ رہا ہے۔ اس فریق نے پہلے بھی اسلام کا مقدس نام اپنی خواہشات کے لیے استعمال کیا اور اسلام کی غلط نمایندگی کی۔ آج بھی اس کی ذہنیت اور عملی زندگی بدستور سابق ہے، اور پہلے کی بہ نسبت کامیابی کے ذرائع آج اس کے پاس بہت زیادہ ہیں ۔
ثانیاً، مسلمان کثرت تعداد کے باوجود خود غرض سیاست دانوں کی دانش فریبیوں کے ہاتھوں غیر مسلموں کے مقابلے میں خوف واحساس کم تری کی ہسٹریائی کیفیت میں بآسانی مبتلا رکھے جائیں گے۔
ثالثاً، مسلمان راے دہندوں کے سامنے اپنے حلقوں سے تعلق رکھنے والے مسلمان امیدواروں کو کام یاب بنادینا ہی اسلام کا سب سے بڑا مسئلہ بن کر رہ جایا کرے گا۔
رابعاً ،مسلم حلقوں میں ایک سے زیادہ مسلمان امید واروں کے درمیان اسلام کے نام پر جو کش مکش برپا کی جاتی رہے گی، وہ بجاے خوداسلام اور مسلمانوں کے لیے تباہ کن ثابت ہوسکتی ہے۔
خامساً، غیر مسلم حلقے زیادہ سے زیادہ متحد ہوتے رہیں گے اور آگے چل کر وہ ایک ایسا متحدہ بلا ک بن سکتے ہیں جو غیر ملکی طاقتوں کا آلۂ کار ہو سکتا ہے اور جن کی ہم دردی میں غیر ملکی طاقتیں معاملات میں ایسی مداخلتیں کرسکتی ہیں جن سے ملک میں اعصابی جنگ اور کش مکش جاری رہے۔
سادساً ،آئندہ خطرہ ہے کہ ملک کی اس فرقہ وارانہ سیاست میں اسلام کی حیثیت ثانوی نہ رہ جائے، اسلام کی عمومی دعوت کے امکانات کم سے کم نہ ہوتے جائیں اور ملک کے اندر باہر غیر مسلم حلقے، اسلام کے مستقل حریف نہ بنتے جائیں ۔
سابعاً ،غیر اسلامی ملکوں میں اسلام کے قیام کے لیے کام کرنے والوں کے واسطے یہ ایک ایسی مثال ہوگی جس سے ان کی مشکلات میں بے اندازہ اضافہ ہوجائے گا اور وہ غیر مسلم اقوام وعوام کو انسانیت کی سطح پر اپیل کرنے کی پوزیشن میں ہرگز نہیں رہیں گے۔
اور آخر میں یہ کہ ہمارے اس ملک میں اہل ثروت واہل ریاست کو جو اثر حاصل ہے،اور جس طرح وہ فسق وفجور کی امامت میں پیش پیش ہیں ،جداگانہ انتخاب کے بعد ان کے ہاتھ اور مضبوط ہوجائیں گے۔ ان کے حلقے الیکشن کے لیے جس طرح آج ان کی بلا شرکت غیرے میراث بنے ہوئے ہیں ،جداگانہ انتخاب سے وہ مستحکم تر ہوتے چلے جائیں گے۔ اب یا تو ان کی ثروت وریاست ختم ہو،یا ان کے مزاج اسلامی بنیں ۔ اور یہ دونوں چیزیں اﷲ کی خاص مہربانی سے ہی ممکن ہیں ،بندوں کے اختیار وتدبیر سے مشکل ہیں ۔
اس کے برخلاف،مخلوط انتخاب کی صورت میں ،جسے بجاے مخلوط کے عمومی انتخابات کہنا زیادہ موزوں ہو گا، پارٹی پروگرام پر کامیابی کی بنیاد رہ جائے گی، اگرچہ اس وقت اسلام کے لیے جدوجہد کرنے والی جماعت کو پوری پوری تن دہی اور جاں فشانی سے کام لینا ہوگا لیکن وہ اسلام کو پارٹی پروگرام بنا کر،اوّل تو ملک کے تمام باشندوں کو اپیل کرنے کی پوزیشن میں آجائے گی، دوسرے یہ کہ وہ اس پروگرام کو نظری طور پر بین الاقوامی تحریک کی پوزیشن میں لا سکے گی، اور اسلام کے لیے، اسلامی اور غیر اسلامی ممالک میں کام کرنے والوں کے درمیان نقطۂ اتحاد کا کام دے سکے گی۔ تیسرے یہ کہ مقابلہ اشخاص سے اشخاص کا نہیں رہے گا بلکہ جماعتوں کے اصول اور پروگرام کا ایک دوسرے سے مقابلہ ہوگا۔ہم اسلام کے اصول اور پروگرام کو لے کر پوری قوم اور پورے ملک کے پاس جائیں گے۔ اس طرح اصول اور پروگرام پر دوسرے خود غرض اور مفاد پرست گروہوں سے کھلا ہوا آزادانہ اور مساویانہ مقابلہ ممکن ہوسکے گا۔ اور چوتھے یہ کہ جب بھی اسلامی جماعت کام یاب ہوگی،دوسرے عناصر کے تعاون کی محتاج ہوئے بغیر نہایت آسانی سے ملک کی پوری ہیئت ترکیبی کو اسلامی قالب میں تبدیل کرسکے گی اور ایک مثالی ریاست کا نمونہ پیش کرنے کے قابل بن سکے گی۔ آپ کے پمفلٹ’’مخلوط انتخاب کیوں اور کیوں نہیں ‘‘ میں اس حیثیت سے مسئلۂ انتخاب کا تجزیہ نہیں کیا گیاہے۔ میں گزارش کروں گا کہ آپ ان پہلوئوں پر بھی غور فرمائیں ۔ ساتھ ہی یہ بات بھی ملحوظ رہے کہ مخلوط انتخاب کے موجودہ حامیوں کے ساتھ میں ہرگز متفق نہیں ہوں ، اس لیے کہ ان کا مقصد اس سے ایک ایسی پاکستانی نیشن بنانا ہے جس میں نہ کوئی مسلمان،مسلمان رہے اور نہ کوئی ہندو،ہندو۔جب کہ میرا مقصد اس سے پاکستان میں ایک ایسی نیشن بنانا ہے جو خالص مسلمان ہی مسلمان ہو۔ اگر سوئے تدبیر سے مخلوط انتخاب کو اوّل مقصد کے لیے ذریعہ بنایا گیا تو یقیناً میرا تعاون جداگانہ انتخاب کے ساتھ ہو گا۔ تاہم میری ہنوز دیانت دارانہ اور مخلصانہ راے یہ ہی ہے کہ اسلام کو، پارٹی پروگرام بنا کر، مخلوط انتخابات کو ذریعہ نمائندگی بنایا جائے، بشرطیکہ خالص اسلامی لیجس لیچر کا قیام فی الوقت ممکن نہ ہو۔ اس طرح اسلامی مقاصد بہتر طریقے پر اور آسانی سے حاصل کیے جاسکیں گے، اور جداگانہ انتخاب کے مقابلے میں کم رکاوٹیں پیش آئیں گی۔
طریق انتخاب کے مسئلے میں جماعت اسلامی نے ریفرنڈم کرانے کا جو مطالبہ کیا تھا، اس پر مختلف حلقوں کی طرف سے مختلف اعتراضات کیے گئے ہیں ۔ میں ان کا خلاصہ پیش کرکے آپ سے دریافت کرنا چاہتا ہوں کہ آپ کے پاس ان اعتراضات کا کیا جواب ہے:
۱۔جداگانہ انتخاب اگر دین اور شریعت کے اصول اور احکام کا لازمی تقاضا ہے تو اس پر عوام سے استصواب کے کیا معنی؟ کیا اسی طرح کل نماز اور روزے پر بھی استصواب کرایا جائے گا؟ کیا آپ یہ اصول قائم کرنا چاہتے ہیں کہ عوام کی اکثریت جس چیز کو حق کہے وہ حق، اور جس چیز کو باطل کہے وہ باطل؟ فرض کیجیے کہ ریفرنڈم میں اکثریت کا فیصلہ مخلوط انتخاب کے حق میں نکلے تو کیا آپ اس کو حق مان لیں گے اور پھر جداگانہ انتخاب اسلامی اصول واحکام کا تقاضا نہ رہے گا؟
۲۔ جداگانہ اور مخلوط دونوں ہی طریقے غیر اسلامی ہیں ، کیوں کہ اسلام کی رو سے تو مجلس شوریٰ میں غیر مسلم کی نمایندگی ہی اصولاً غلط ہے۔آپ جب جداگانہ انتخاب کا مطالبہ کرتے ہیں تو کیا اس کے معنی یہ نہیں ہیں کہ آپ نے اسلامی ریاست کی مجلس شوریٰ میں غیر مسلم کی شرکت کا اصول مان لیا۔
۳۔ استصواب راے کی تجویز لا کر آپ نے طریق انتخاب کے مسئلے کو اس خطرے میں ڈال دیا ہے کہ شاید اس کا فیصلہ مخلوط انتخاب کے حق میں ہو۔ آخر آپ کے پاس اس امر کی کیا ضمانت ہے کہ اس کا نتیجہ لازماً جداگانہ طریق انتخاب ہی کے حق میں ہوگا۔
۴۔ یہ عجیب بات ہے کہ آپ مخلوط انتخاب کے مخالف ہیں مگر طریق انتخاب کا فیصلہ مخلو ط راے شماری سے کرانے کے لیے تیار ہیں ۔آخر ریفرنڈم بھی تو مخلوط ہی ہوگا۔
۵۔آپ طریق انتخاب کے مسئلے پر ریفرنڈم کرانے کے بجاے یہ کیوں نہیں کرتے کہ ملک کے آئندہ انتخابات عام میں اس مسئلے پر الیکشن لڑیں ؟ اگر عوام الناس جداگانہ انتخاب کے حامی ہیں تو وہ انھی لوگوں کو ووٹ دیں گے جو اس طریق انتخاب کے حامی ہوں گے۔اس طرح اس مسئلے کا تصفیہ ہوجائے گا۔
۶۔ ریفرنڈم کے لیے ملک کے موجودہ دستور میں کوئی گنجائش نہیں ہے،اس لیے ناگزیر ہوگا کہ پہلے قومی اسمبلی اس مقصد کے لیے دستور میں ترمیم کرے، اور ترمیم کے لیے لامحالہ۲/۳ اکثریت درکار ہو گی۔ سوال یہ ہے کہ جب مخلوط انتخاب کے قانون کو بدلنے کے لیے مجرد اکثریت بہم نہیں پہنچ رہی ہے تو ریفرنڈم کے لیے۳ /۲ اکثریت کہاں سے بہم پہنچے گی؟
۷۔جمہوری ممالک میں بالعموم ریفرنڈم کے ذریعے سے ملکی مسائل کا فیصلہ کرنے کے بجاے پارلیمنٹ یا ایوان نمائندگان ہی کو آخری فیصلے کے اختیارات دیے گئے ہیں ۔براہِ راست عوام سے مسائل کا تصفیہ کرانے میں بہت سی قباحتیں ہیں جن کی وجہ سے یہ طریقہ جمہوری ملکوں میں مقبول نہیں ہوا ہے۔
یہ ہیں وہ بڑے بڑے اعتراضات جو ریفرنڈم کی تجویز پر میں نے سنے یا پڑھے ہیں ۔ان سے کم ازکم شک یا تذبذب کی کیفیت تو ذہنوں میں پیدا ہوہی جاتی ہے،اس لیے مناسب ہوگا کہ آپ ان سب کو صاف کرکے عوام کو اس مسئلے میں پوری طرح مطمئن کردیں ۔
مَیں نے جناب کی خلافت و ملوکیت اور عباسی صاحب کی جوابی کتاب تبصرہ محمودی حصہ اول و دوم کا غیر جانب دارانہ مطالعہ کیا اور میں اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ عباسی صاحب اسلام کے سیاسی نظام کا کوئی واضح تصور نہیں رکھتے ہیں ۔ چنانچہ انھوں نے اسلام کا جو سیاسی نظریہ پیش فرمایا ہے وہ ذہنی پیچیدگی کا شاہکار ہے البتہ میں یہ محسوس کرتا ہوں کہ جناب چند باتوں کی وضاحت کردیں تو آپ کے خلاف پروپیگنڈا علمی طبقے میں مؤثر نہ ہوسکے گا۔
عباسی صاحب کا کہنا ہے کہ اسلام میں کوئی طریقہ انتخاب براے خلیفہ معین نہیں ہے اس لیے کہ سقیفہ بنی ساعدہ میں عوام کا اجتماع نہ تھا بلکہ چند افراد جس میں تمام طبقوں کی نمائندگی بھی نہ تھی جمع ہوئے، اس لیے یہاں عوامی راے یا تائید کا کوئی سوال نہیں تھا۔ حضرت عمرؓ کے معاملے میں آپ کو حضرت ابوبکرؓ نے نامزد کر دیا اور سب نے اس نامزدگی پر اتفاق کر لیا، راے عامہ کے اظہار کا یہاں بھی کوئی سوال نہیں آیا۔ پھر عباسی صاحب کہتے ہیں کہ اگر راے عامہ کے اصول کو تسلیم بھی کر لیا جائے تو بیعت تو صرف مدینہ میں ہوئی تھی۔ پورے ملک میں راے عامہ یا مسلمانوں کی رضامندی کا سوال یہاں بھی خارج از بحث ہوجاتا ہے۔ مہربانی کرکے وضاحت کیجیے۔
میں ہندو مہا سبھا کا ورکر ہوں ۔ سالِ گزشتہ صوبے کی ہندو مہا سبھا کا پروپیگنڈا سیکرٹری منتخب ہوا تھا۔میں حال ہی میں جناب کے نام سے شناسا ہوا ہوں ۔آپ کی چند کتابیں ’’مسلمان اور موجودہ سیاسی کش مکش‘‘ حصہ اوّل وسوم، ’’اسلام کا نظریۂ سیاسی‘‘، ’’اسلامی حکومت کس طرح قائم ہوتی ہے‘‘ ،’’سلامتی کا راستہ‘‘ وغیر ہ دیکھی ہیں ،جن کے مطالعے سے اسلام کے متعلق میرا نظریہ قطعاً بد ل گیا ہے اور میں ذاتی طور پر یہ خیال کرتا ہوں کہ اگر یہ چیز کچھ عرصہ پہلے ہوگئی ہوتی تو ہندو مسلم کا مسئلہ اس قدر پیچیدہ نہ ہوتا۔جس حکومت ِالٰہیہ کی آپ دعوت دے رہے ہیں ،اس میں زندگی بسر کرنا قابل فخر ہوسکتا ہے مگر چند اُمور دریافت طلب ہیں ۔خط وکتابت کے علاوہ ضرورت ہوگی تو جناب کا نیاز بھی حاصل کروں گا۔
سب سے پہلی چیز جو دریافت طلب ہے وہ یہ ہے کہ ہندوئوں کو حکومتِ الٰہیہ کے اندر کس درجے میں رکھا جائے گا؟آیا ان کو اہل کتاب کے حقوق دیے جائیں گے یا ذمی کے؟اہلِ کتاب اور ذمی لوگوں کے حقوق کی تفصیل ان رسائل میں بھی نہیں ملتی۔ مجھے جہاں تک سندھ پر عربی حملے کی تاریخ کا علم ہے،محمد بن قاسم اور اس کے جانشینوں نے سندھ کے ہندوئوں کو اہلِ کتاب کے حقوق دیے تھے۔اُمید ہے کہ آپ اس معاملے میں تفصیلی طور پر اظہارِ خیال فرمائیں گے۔
واضح رہے کہ میں محض ایک متلاشیِ حق کی حیثیت سے سوال کررہا ہوں ۔
اہل کتاب اور ذمی کے حقوق میں کیا فرق ہے؟
اسلامی مملکت میں اقلیتی فرقوں کو،مثلاًعیسائی، یہودی،بدھ، جین،پارسی،ہندو وغیرہ کو کیا مسلمانوں کی طرح پورے حقوق حاصل ہوں گے؟کیا ان کو اپنے مذہب کی تبلیغ کی بھی اسی طرح اجازت ہوگی جیسا کہ آج کل پاکستان اور دیگر ممالک میں کھلے بندوں پرچار ہوتا ہے؟ کیا اسلامی مملکت میں ایسے مذہبی یا نیم مذہبی ادارے مثلاًادارہ مکتی فوج(salvation army) کیتھڈرل، کانونٹ، سینٹ جان یا سینٹ فرانسز وغیرہ جیسے ادارے قانوناً بند کردیے جائیں گے (جیسا کہ حال میں سیلون میں ہوا یا دو ایک ممالک میں ہوچکا ہے)، یا فراخ دلی سے مسلمان بچوں کو وہاں بھی ماڈرن ایجوکیشن حاصل کرنے کی عام اجازت ہوگی؟ کیا اس صدی میں بھی ان اقلیتی فرقوں سے جزیہ وصول کرنا مناسب ہوگا(عالمی حقوق انسانی کی روشنی میں بھی) جب کہ وہ نہ صرف فوج اور سرکاری عہدوں پر فائز اور حکومت کے وفا دار ہوں ؟
کیا ہندوئوں کا قومی قانون(Personal Law) ہندوئوں پر نافذ ہوگا یا نہیں ؟ میر امدعا یہ ہے کہ ہندو اپنے قانونِ وراثت،مشترکہ فیملی سسٹم اور متبنّٰی وغیرہ بنانے کے قواعد( مطابق منوشاستر) کے مطابق زندگی بسر کریں گے یا نہیں ؟ دوسری دریافت طلب چیز یہ ہے کہ کیا قرآن کے فوج داری اور دیوانی احکام مسلمانوں کی طرح ہندوئوں پر بھی حاوی ہوں گے؟
کیا ذمی ملک کے نظم و نسق میں برابر کے شریک ہوسکتے ہیں ؟کیا پولیس ،فوج اور قانون نافذ کرنے والی جماعت میں ہندوئوں کاحصہ ہوگا ؟اگر نہیں تو کیا ہندوئوں کی اکثریت والے صوبوں میں آپ مسلمانوں کے لیے وہ پوزیشن قبول کرنے کو تیار ہوں گے جو کہ آپ حکومتِ الٰہیہ میں ہندوئوں کو دیں گے؟