مسلمانوں کو بحیثیت مسلمان ہونے کے اسمبلی کی ممبری جائز ہے یا نہیں ؟ اگر نہیں تو کیوں ؟ یہاں مسلمانوں کی دو بڑی جماعتوں کے نمائندے اسمبلی کی رکنیت کے لیے کھڑے ہورہے ہیں اور ان کی طرف سے ووٹ حاصل کرنے کے لیے مجھ پر دبائو پڑ رہا ہے، حتیٰ کہ علما تک کا مطالبہ یہی ہے۔ اگر چہ مجملاً جانتا ہوں کہ انسانی حاکمیت کے نظریے پر قائم ہونے والی اسمبلی اور اس کی رکنیت دونوں شریعت کی نگاہ میں ناجائز ہیں ، مگر تاوقتیکہ معقول وجوہ پیش نہ کرسکوں ،ووٹ کے مطالبے سے چھٹکارا پانا دشوار ہے۔

نظامِ کفر کی ملازمت

سرکاری ملازمت کی حیثیت کیا ہے؟اس معاملے میں بھی سرسری طور پر میری راے عدم جواز کی طرف مائل ہے مگر واضح دلائل سامنے نہیں ہیں ۔

اسلامی دستور کے نفاذ کے لیے اقتدار کا حصول

’’ترجمان القرآن‘‘ کے گزشتہ سے پیوستہ پرچے میں ایک سائل کا سوال شائع ہوا ہے کہ نبی ﷺ کو کسی منظم اسٹیٹ کا سامنا نہیں کرنا پڑا ،مگر حضرت یوسف ؈ کے سامنے ایک منظم اسٹیٹ تھا اور انھوں نے جب ریاست کو اقتدار کلی منتقل کرنے پر آمادہ پایا تو اسے بڑھ کر قبول کرلیا اور یہ طریقِ کار اختیار نہیں کیاکہ پہلے مومنین صالحین کی ایک جماعت تیار کریں ۔کیا آج بھی جب کہ اسٹیٹ اس دور سے کئی گنازیادہ ہمہ گیر ہوچکا ہے،اس قسم کا طریق کار اختیار کیا جاسکتا ہے؟اس سوال کے جواب میں آپ نے جو کچھ لکھا ہے،اس سے مجھے پور اپورا اطمینان نہیں ہوا۔({ FR 2246 }) مجھے یہ دریافت کرنا ہے کہ ہم کو حضرت یوسف ؈ کا اتباع کرنا ہی کیوں چاہیے؟ ہمارے لیے تو صرف نبی ﷺ کا اُسوہ واجب الاتباع ہے۔آپؐ نے اہلِ مکہ کی بادشاہت کی پیش کش کو رَدّ کرکے اپنے ہی خطوط پر جداگانہ ریاست کی تعمیر وتشکیل کا کام جاری رکھنے کا فیصلہ کیا تھا اور ہمارے لیے بھی طریقِ کار اَب یہی ہے۔واضح فرمایئے کہ میری یہ راے کس حد تک صحیح یا غلط ہے۔

انتخابات کے ذریعے دستورِ حکومت کو تبدیل کرنے کا جواز

آپ نے یہ تحریر فرمایا ہے کہ کسی مرحلے پر اگر ایسے آثار پیدا ہوجائیں کہ موجود الوقت دستوری طریقوں سے نظامِ باطل کو اپنے اُصول پر ڈھالا جاسکے تو ہمیں اس موقع سے فائدہ اُٹھانے میں تأمل نہ ہوگا۔ اس جملے سے لوگوں میں یہ خیال پیداہورہا ہے کہ جماعت اسلامی بھی ایک حد تک اسمبلیوں میں آنے کے لیے تیار ہے اور الیکشن کو جائز سمجھتی ہے ۔اس معاملے میں جماعتی مسلک کی توضیح فرمایئے۔

حکومت ِالٰہیہ اور پاپائیت کا اصولی فرق

رسالہ ’’پیغامِ حق‘‘میں ابو سعید بزمی صاحب نے اپنے ایک مضمون کے سلسلے میں لکھا ہے:
’’اسلامی ریاست کا ایک تصور وہ بھی ہے جسے حال ہی میں مولانا ابوالاعلیٰ مودودی نے بڑے زور شورکے ساتھ پیش کیا ہے اور جس کا بنیادی نقطہ یہ ہے کہ حکومت عوام کے سامنے جواب دہ نہ ہو۔ تاریخی حیثیت سے یہ اُصول نیا نہیں ۔ یورپ میں ایک عرصے تک تھیاکریسی (theocracy) کے نام سے اس کا چرچا رہا اور رُوم کے پاپائے اعظم کا اقتدار اسی تصور کا نتیجہ تھا۔ لیکن لوگوں نے یہ محسوس کیا کہ چوں کہ خدا کوئی ناطق ادارہ نہیں ، اس لیے جس شخص کو خدا کے نام پر اختیار واقتدار مل جائے،وہ بڑی آسانی سے اس کا غلط استعمال کر سکتا ہے۔ مولانا مودودی کے حلقۂ خیال کے لوگ یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ ان کا تصورِ سیاست پاپائے اعظم کے تصور سے مختلف ہے۔لیکن چوں کہ وہ حکومت کو عوام کے سامنے جواب دہ قرار نہیں دیتے اور اسی بنیاد پر جمہوریت کو غلط سمجھتے ہیں ، اس لیے نتیجتاً ان کا تصورپاپائے اعظم ہی کا تصور ہوکر رہ جاتا ہے۔‘‘
پھر بزمی صاحب اپنی طرف سے ایک حل پیش کرتے ہیں ،لیکن وہ بھی وجہ تسلی نہیں ہوتا۔ آپ براہِ کرم ’’ترجمان القرآن‘‘ کے ذریعے سے اس غلط فہمی کا ازالہ فرما دیں اور صحیح نظریے کی توضیح کر دیں ۔

دستور کی تعبیر کا حق

دستور کی تعبیر کا حق کس کو ہونا چاہیے؟ مقننہ کو یا عدلیہ کو؟ سابق میں یہ حق عدلیہ کو تھا اور موجودہ دستور میں یہ حق عدلیہ سے چھین کر مقننہ کو ہی دے دیا گیا ہے۔ا س پریہ اعتراض کیا گیا کہ عدالتوں کے اختیارات کو کم کردیا گیا ہے اور یہ حق عدلیہ کے پاس باقی رہنا چاہیے۔ اس مسئلے پر ایک صاحب نے یہ فرمایا ہے کہ اسلام کے دور اوّل میں عدالتوں کا کام صرف مقدمات کا فیصلہ کرنا تھا۔قانون کی تشریح اور تعبیر کا حق عدالتوں کو نہ تھا اور نہ عدالتیں یہ طے کرنے کی مجاز تھیں کہ قانون صحیح ہے یا غلط۔ یہ راے کہاں تک درست ہے ؟

الخلافت یا الحکومت

اگر بیسیویں صدی میں بھی اسلام قابل نفاذ ہے تو موجودہ رجحان ونظریات کی جگہ لینے میں جو مشکلات یا موانع درپیش ہوں گے ان کا بہترین حل ابن خلدون کے ہر دو نظریہ حکومت وریاست یعنی الخلافت یا الحکومت کس سے ممکن ہے؟

نظام عدل میں تغیرات اور ان کی نوعیت

اس برصغیر میں چوں کہ تمام قانونی ضابطہ ہاے دیوانی، فوج داری،مالیاتی اور عمل درآمد کے قوانین(Procedural Law) وغیرہ عرصے سے ہر عدالت میں جاری وساری ہیں ،اور چوں کہ ڈیڑھ صدی سے تما م لوگ بالخصوص جج اور وکلا وغیرہ نہ صرف ان قوانین سے پوری طرح مانوس بلکہ اس کا وسیع علم رکھتے ہیں ، اس لیے بھی اسلامی مملکت کے قیام سے یہاں برطانوی دور کے نظام عدل(British Rule of Law) کا سارا ڈھانچا بدلنا ممکن نہ ہوگا۔ تو کیا پھر بھی عدالتی ریفارم لائی جائیں گی جب کہ اسلامی قانون کسی پہلو سے جامع،مرتب یا مکمل اور مدوّن (codified) نہیں ہے؟ اسلامی عدالتی نظام میں وکلا کی حیثیت کیا ہو گی؟ کیا اسی طرح (Procedural Law) کے تحت انھیں مقدمہ جات لڑنے اور مقدمہ بازی (litigation) کو طول دینے کا اختیار ہو گا؟ کیا اس موجودہ ترقی یافتہ دور میں بھی چور کا ہاتھ کاٹنے اور زانی کو سنگ ساری کی سزائیں دی جائیں گی؟ اور کیا قاضیوں کو قانون شہادت (Evidence Law) کی مدد کے بغیر فیصلے صادر کرنے ہوں گے؟ پھر بین الاقوامی قسم کے ادارے مثلاً اقوام متحدہ(United Nations) کی جنرل اسمبلی، سیکورٹی کونسل،بین الاقوامی عدالت، انصاف یا کمرشیل ٹربیونل او ر لیبر قوانین وغیرہ کی عمل داری، دخل اندازی یا انٹرنیشنل لا پر عمل پیرا ہونے اور ان کی من وعن قبولیت کے لیے اسلامی حکومت کا کیا رویہ ہو گا؟ اگر اسی قسم کے ادارے اسلامی کنفیڈریشن یا اسلامی بلاک بنا کر عمل میں لائے جائیں تو ان کو کیا حیثیت حاصل ہوگی؟ کیا اسلامی قانون ساز اسمبلی کے پاس شدہ یا اجتہادی احکام پر اسلامی عدلیہ کو نظر ثانی(review) کرنے کا اختیار ہوگا؟اسلامی ممالک اور مسلمانوں کو ایک اسٹیج پر لانے کے لیے اختلافات کس طرح رفع کیے جاسکتے ہیں ؟