خلیفہ کا اختیار

کیا کوئی خلیفہ ایسا کام بھی کرسکتا ہے جو سابق خلفا کے طرز عمل سے مختلف ہو؟

ضبطِ ولادت کے جدید طریقوں کا حکم

آج کل ضبط ولادت کو خاندانی منصوبہ بندی کے عنوان جدید کے تحت مقبول بنانے کی کوشش کی جارہی ہے۔ اس کے حق میں معاشی دلائل کے علاوہ بعض لوگوں کی طرف سے مذہبی دلائل بھی فراہم کیے جارہے ہیں ۔ مثلاً یہ کہا جارہا ہے کہ حدیث میں عزل({ FR 2136 }) کی اجازت ہے اور برتھ کنٹرول کو اس پر قیاس کیا جاسکتا ہے۔علاوہ ازیں اب حکومت کی طرف سے مردوں کو بانجھ بنانے کی سہولتیں بھی بہم پہنچائی جارہی ہیں ۔چنانچہ بعض ایسے ٹیکے ایجاد ہورہے ہیں جن سے مرد کا جوہر حیات اس قابل نہیں رہتا کہ وہ افزائش نسل کا ذریعہ بن سکے لیکن جنسی لذت برقرار رہتی ہے۔بعض لوگوں کے نزدیک یہ طریقہ بھی شرعاً قابل اعتراض نہیں ،اور نہ یہ قتل اولاد یا اسقاط حمل ہی کے ضمن میں آسکتا ہے۔
براہِ کرام اس بارے میں بتائیں کہ آپ کے نزدیک اسلام اس طرز عمل کی اجازت دیتا ہے یا نہیں ؟

ضبطِ ولادت اور بڑھتی ہوئی آبادی

نیا کی بڑھتی ہوئی آبادی کے لیے آج اسلام کیا حل پیش کرتا ہے؟برتھ کنٹرول(پیدائش روکنے ) کے لیے دوائوں کا استعمال،فیملی پلاننگ وغیرہ کو کیا آج بھی غیر شرعی قرار دے کر ممنوع قرار دیا جائے گا؟

معاشی وجوہ سے منع حمل

میں اپنے ایک عزیز کے اس اعتراض کا جواب تسلی بخش طور پر نہ دے سکا۔ ازراہِ کرم راہ نمائی فرمائیں ۔ اعتراض یہ ہے:
مولانا نے قرآن مجید کی آیت وَلَا تَقْتُلُوْٓا اَوْلادَکُمْ خَشْیَۃَ إِمْلاقٍ نَّحْنُ نَرْزُقُہُمْ وَإِیَّاٖکُمْ إنَّ قَتْلَہُمْ کَانَ خِطْئًا کَبِیْرًا({ FR 2194 }) (بنی اسرائیل:۳۱) کی تفسیر میں انصاف سے کام نہیں لیا اور اس آیت کی تفسیر میں اپنے سیاسی مقاصد حاصل کرنے کے لحاظ سے مفہوم نکالا ہے۔ کیونکہ آیت میں قتل کرنے سے منع کیا گیا ہے، اور قتل اسی کو کیا جا سکتا ہے جس میں جان ہو، جب کہ جان اس جرثومے میں اسی وقت پڑتی ہے جب رحم مادر میں دو مخالف جرثوموں کا ملاپ واقع ہوتا ہے اور ایک جان دار شے وجود میں آتی ہے۔ چونکہ افزائش نسل کو روکنے کے طریقے عام طور پر مذکورہ ملاپ سے پہلے ہی عمل میں آ جاتے ہیں لہٰذا اس چیز کا قتل کیا معنی جس کا وجود یا جان ہی نہ ہو۔‘‘

شادی بیاہ ،پیدائش اور موت کی تقریبات

موجودہ مسلمان شادی بیاہ، پیدائش اور موت کی تقریبات پر چھٹی، چلّہ، باجا، منگنی، جہیز اور اسی طرح چالیسواں ، قُل وغیرہ کی جو رسوم انجام دیتے ہیں ان کی حیثیت شریعت میں کیا ہے؟

رسُومات کی اصلاح میں ترجیحات

میں عرصے سے تجرد کی زندگی گزار رہا ہوں اور اس سبب کی ذمہ داری میرے ’’اجتہاد‘‘ کے سر ہے۔ ہمارے اطراف میں کچھ اس قسم کے اصول ومراسم شائع ہیں جن کے بارے میں اگر فقہی موشگافیوں سے کام لینا شروع کردیا جائے تو ان کو ’’ناجائز‘‘اور’’غیر شرعی رسم‘‘کہنا مشکل ہوگا۔مثلاً یہ کہ منسوبہ یا منکوحہ کے لیے زیور وپارچہ جات کا مطالبہ، کچھ آپس کے لین دین، ایک دوسرے کے کمیوں اور خدمت گاروں کو بطور عطیہ وانعام کچھ دینا دلانا، برادری اور اہل قرابت کو بلانا اور ان کی ضیافت کرنا وغیرہ۔ یہ بہت سی چیزیں بظاہر اگر علیحدہ علیحدہ کرکے دیکھی جائیں تو ان میں سے غالباً کسی ایک کو بھی ناجائز نہ کہا جاسکے گا۔لیکن اگر ان مراسم کے اس پہلو پر نظر ڈالی جائے کہ ان کی پابندی اور التزام اس حد تک ہے کہ ان کے بغیر کامیابی ہی نہیں ہوتی اور کوئی کسی درجے کا آدمی کیوں نہ ہو،ان کی پابندی قبول کیے بغیر ازدواجی زندگی کا آغاز کرہی نہیں سکتا، تو بالکل صفائی سے یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ یہ چیزیں اب صرف ’’مباح‘‘ کے درجے پر باقی نہیں رہی ہیں ، بلکہ یہ سب برادری کا ایک قانون بن گئی ہیں اور ایسا قانون کہ ان کی خلاف ورزی کرنے والا گویامجرم متصور ہوتا ہے۔پس جب ہم یہ کہتے ہیں کہ ہر باطل قانون کو توڑ دیا جائے،چاہے وہ کہیں ہو،تو سوال یہ ہے کہ آیا مذکورہ بالا چیزیں اس شکست وریخت کی مستحق ہیں یا نہیں ؟ اگر یہ حملے کی مستحق ہیں جیسا کہ میری راے ہے، تو کیا یہ حقیقت آپ سے مخفی ہے کہ ہندستان کاکوئی گوشہ بھی ایسا نہیں ہے جہاں اس قسم کی ’’شریعتِ رسوم‘‘ نافذ العمل نہ ہو،خواہ اس کی تفصیلی اشکال کچھ ہی ہوں ۔
جن تقریبات کو آج کل ’’شرعی تقریبات‘‘کہا جاتا ہے وہ بھی بس صرف اس حد تک شرعی ہوتی ہیں کہ ان میں ناچ، باجا گاجا اور ایسی ہی دوسری خرافات ومزخرفات نہیں ہوتیں ،لیکن مذکورہ بالا رسوم کا جہاں تک تعلق ہے،وہ ان میں بھی بدرجۂ اتم موجود رہتی ہیں اور انھیں ’’اباحت‘‘ کی چادر میں چھپا لیا جاتا ہے۔پس کیا جماعتِ اسلامی کا یہ فرض نہیں ہے کہ وہ اپنے اراکین کو ’’غیر شرعی رسوم‘‘ کی وضاحت اس طرح کرکے بتلاے کہ یہ ’’اباحت‘‘ کی قبا چاک ہوجائے اور وہ اپنی تقریبات کو بالکل مسنون طریقے پرمنائیں ؟
اگر ان رسوم کے خلاف میرااحساس صحیح نہ ہو تو پھر کچھ وضاحت سے ’’شریعتِ رسوم‘‘ کے واجبات کو قابلِ بغاوت قوانین باطل سے مستثنیٰ قرار دینے کی وجوہ تحریر فرمائیں ۔اس سے اگر میرا اطمینان ہوگیا تو تجرد کی مصیبت سے نجات حاصل ہوسکے گی۔ اور اگر آپ نے میری راے کی تصدیق کی تو پھر میرے لیے بظاہر کامیابی کا کہیں موقع نہیں ہے۔مگر مجھے اس سے بڑی مسرت ہوگی،کیوں کہ پھر تکلیف صحیح معنوں میں اﷲ کی راہ میں ہوگی۔ لَعَلَّ اللہَ يُحْدِثُ بَعْدَ ذٰلِكَ اَمْرًا({ FR 2195 }) ( الطلاق:۱)

راجا کی غائبانہ سلامی

اسکول میں ڈرل کے بعد مہاراجا صاحب کی سلامی بینڈ پر اُتاری جاتی ہے۔یہ غائبانہ سلامی ہے اور اسے وفا داری کی علامت سمجھا جاتا ہے ۔میں نے ایک بندے کو خدا کی معبودیت میں شریک ماننے سے قولاً وعملاًانکار کیا ہے۔ہیڈ ماسٹر صاحب نے مجھے غور کے لیے مہلت دی ہے۔ آپ میری راہ نمائی فرمائیں ۔

عورتوں سے مصافحہ اور غضِ بصر

مغربی معاشرے میں رہنے کی ایک دقت یہ ہے کہ دفاتر میں عموماًعورتیں ملازم ہیں ،تعارف کے وقت وہ مصافحے کے لیے ہاتھ بڑھاتی ہیں ۔ اگر ہم ہاتھ نہ ملائیں تو اسے وہ اپنی توہین سمجھتی ہیں ۔اسی طرح راستوں میں بھی اتنی بھیڑ ہوتی ہے کہ اگر پیدل چلتے وقت ہم نگاہ نیچی رکھیں تو دھکا لگ جانے کا ہر وقت خطرہ رہتا ہے۔

غیر محرم قریبی اعزّہ سے پردے کی صورت

کیا شوہر بیوی کو کسی ایسے رشتہ دار یا عزیز کے سامنے بے پردہ آنے کے لیے مجبور کرسکتا ہے جو شرعاًبیو ی کے لیے غیر محرم ہو؟ نیز یہ کہ سسرال اور میکے کے ایسے غیر محرم قریبی رشتہ دار جن سے ہمارے آج کل کے نظامِ معاشرت میں بالعموم عورتیں پردہ نہیں کرتیں ، ان سے پردہ کرنا چاہیے یانہیں ؟اور اگر کرنا چاہیے تو کن حدود کے ساتھ؟