فوج کی اخلاقی تربیت اور لونڈی سے تمتع کا معاملہ

آج کل جنگ میں جہاں سپاہیوں کو وطن سے ہزاروں میل دور جانا پڑتا ہے اور ان کی واپسی کم ازکم دو سال سے پہلے ناممکن ہوجاتی ہے، سوشل قباحتیں مثلاً زنا وغیرہ کا پھیل جانا لازمی ہے، کیوں کہ جنگ کے جذبے کی بے داری کے ساتھ تمام جذباتِ سفلی بھی بھڑک اُٹھتے ہیں ۔اس چیز کو روکنے کے لیے یا قابو میں لانے کے لیے فوجیوں کے لیے رجسٹر ڈ رنڈیاں بہم پہنچانے کی اسکیم پر عمل ہورہا ہے اور ان کے دلوں کو خوش رکھنے کے لیے(WACI)({ FR 2178 }) دفتروں میں ملازم رکھی جارہی ہیں ۔یہ دونوں صورتیں قابل نفرین ہیں ،لیکن سوال یہ ہے کہ ان کی تردید کے بعد اسلام اس عقدے کے حل کا کیا طریق بناتا ہے؟ کنیزوں کا سسٹم کس حد تک اس قباحت کا ازالہ کرسکتا ہے اور کیا وہ بھی ایک طرح کی جائز قحبہ گری(prostitution) نہیں ہے؟

گرل گائیڈز اورAPWA جیسے اداروں کا حکم

کیا گرل گائیڈ، اپوا (APWA)({ FR 2056 })، یا دیگر وائی ،ایم ،سی ،اے (YMCA)({ FR 2057 }) اور وائی، ڈبلیو، سی، اے (YWCA)({ FR 2058 }) جیسے ادارے اسلامی نظام میں گوارا کیے جاسکتے ہیں ؟

اسلامی حکومت اور یوتھ فیسٹیول

کیا خواتین کو یوتھ فیسٹیول، کھیلوں ، نمائش، ڈراموں ، ناچ، فلموں یا مقابلۂ حسن میں شرکت یا air hostess وغیرہ بننے کی آج بھی اسلامی حکومت مخالفت کرے گی۔

سینما، فلم، ٹیلی ویژن اور ریڈیوکا استعمال

ساتھ ہی قومی کردار تباہ کرنے والے ادارے مثلاً سینما، فلمیں ، ٹیلی ویژن، ریڈیو پر فحش گانے، یا عریاں رسائل ولٹریچر، موسیقی، ناچ ورنگ کی ثقافتی محفلوں وغیرہ کو بند کردیا جائے گا یا فائدہ اٹھانا ممکن ہوگا؟

مصافحہ اور معانقہ

بعض حضرات بعد نماز عید جب اپنے دوستوں اور رشتہ داروں کے ہاں ملنے جاتے ہیں تو یا تو وہ مصافحہ کرتے ہیں یا بغل گیر ہوتے ہیں ۔ معلوم یہ کرنا تھا کہ عید کے روز بغل گیر ہونا درست ہے؟ کیا حدیث میں یا کسی صحابی کے فعل سے اس کا جواز ثابت ہے؟

عریانی روکنے کی تدبیر

کیا اسلامی حکومت خواتین کی بڑھتی ہوئی آزادی کو سختی سے روکے گی؟جیسے ان کی زیبائش اور نیم عریاں لباس زیب تن کرنے اور فیشن کا رجحان، اور جیسے آج کل نوجوان لڑکیاں نہایت تنگ ودل فریب سینٹ سے معطر لباس اور غازہ وسرخی سے مزین اپنے ہر خدوخال اور نشیب و فراز کی نمائش برسر عام کرتی ہیں اور آج کل نوجوان لڑکے بھی ہالی وڈ کی فلموں سے متاثر ہوکر ٹیڈی بوائز بن رہے ہیں ۔تو کیا حکومت قانون(legislation) کے ذریعے سے ہر مسلم وغیر مسلم لڑکے اور لڑکی کے آزادانہ رجحان کو روکے گی؟ خلاف ورزی پر سزا دے گی؟والدین وسرپرستوں کو جرمانہ کیا جاسکے گا؟ تو اس طرح کیا ان کی شہری آزادی پر ضرب نہ لگے گی؟

عورت کی عصمت وعفت کا مستقبل

مارننگ نیوز] کراچی[ کی ایک کٹنگ ارسال خدمت ہے۔اس میں انگلستان کی عدالت طلاق کے ایک سابق جج سر ہربرٹ ولنگٹن نے ایک مکمل بیوی کی خصوصیات بیان کی ہیں ۔اس کٹنگ کا ترجمہ یہ ہے:
’’رومن کیتھولک عدالت طلاق کے سابق جج سرہربرٹ ولنگٹن نے اپنے ایک فیصلے میں ایک مکمل بیوی کی چودہ خصوصیات گنائی ہیں جن کی تفصیل یہ ہے: صوری کشش،عقل مندی، محبت، نرم خوئی، شفقت، خوش اطواری، جذبۂ تعاون، صبر وتحمل، غور وفکر، بے غرضی، خندہ روئی، ایثار، کام کی لگن اور وفا داری۔
سرہربرٹ نے اپنے فیصلے میں کہا ہے کہ یہ تمام خصوصیات ان کی دوسری بیوی میں موجود تھیں جس سے انھوں نے اگست ۱۹۴۵ء میں اپنی پہلی بیوی کے انتقال کے بعد شادی کی تھی۔سرہربرٹ جنھوں نے اپنی عدالت میں سیکڑوں ناکام شادیوں کو فسخ کیا ہے،۸۶برس کی عمر پاکر جنوری۱۹۶۲ء میں وفات پا گئے ہیں ۔‘‘
اس کٹنگ سے واضح ہوتا ہے کہ سرہربرٹ نے عفت یا پاک دامنی جیسی خوبی کو اِ ن چودہ نکاتی فہرست میں براے نام بھی داخل کرنا ضروری نہیں سمجھا۔گویا اب پاک دامنی کا شمار عورت کی خوبیوں میں نہیں کیا جاتا۔ میں یہ سمجھنے سے قاصر ہوں کہ ایک عورت پاک دامنی کے بغیر کس طرح خاوند کی وفا دار رہ سکتی ہے؟

اجتہاد کے حدود اور وضو کرنے کی حکمت

میرے ایک جرمن نومسلم دوست ہیں جن سے میرا رابطہِ مراسلت قائم ہے۔وہ مجھ سے اپنے بعض علمی وعملی اشکالات بیان کرتے رہتے ہیں ۔ چنانچہ حال ہی میں ان کا ایک خط آیا ہے جس میں انھوں نے دریافت کیا ہے کہ فقہی احکام میں ’’اجتہاد‘‘ کے اصول کے تحت کہاں تک تبدیلی کی جاسکتی ہے۔ان کا خیال ہے کہ اسلام کے بہت سے تفصیلی احکام فقہا کے اخذ کردہ اور مرتب کردہ ہیں اور نبیﷺ کی وفات کے بعد بعض خاص جغرافیائی اور تمدنی حالات کی پیداوار ہیں ۔ کئی صدیوں تک تو اجتہاد کا دروازہ کھلا رکھا گیا تھا مگر اس کے بعد اصولاً ضرورت اجتہاد کو تسلیم کرنے کے باوجود عملاًاسے بند کر دیا گیا۔ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ آج کل کے زمانے میں بالخصوص یورپ کے مسلمانوں کو بعض احکام کی تعمیل میں دشواری پیش آتی ہے ۔مثال کے طور پر وہ وضو کے مسئلے کو لیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ وضو میں ہر مرتبہ پائوں دھونا اہل یورپ کو مشکل اور غیر ضروری معلوم ہوتا ہے۔ان کا خیال ہے کہ وہاں لوگ ہمیشہ جراب اور بند جوتے استعمال کرتے ہیں ،اس لیے پائوں کے گرد آلود یا ناپاک ہونے کی نوبت کم ہی آتی ہے۔ سردیوں میں پائوں دھونا آسان بھی نہیں ہوتا۔یہی معاملہ منہ دھونے کا ہے۔یورپ کے شہروں میں بالعموم مٹی نہیں اُڑتی اورپسینہ بھی براے نام آتا ہے اس لیے ان کے نزدیک منہ اور پائوں کا دن میں ایک مرتبہ دھونا کافی ہونا چاہیے۔
آپ براہِ کرم میرے دوست کے خیالات پر صحیح اسلامی نقطۂ نظر سے تنقید کریں اور اس کا جو پہلو اصلاح طلب ہو، واضح فرمائیں ، تاکہ میں انھیں اطمینان بخش جواب دے سکوں ۔

دوسرے فقہی مذاہب پر عمل کا حکم

ہمارے اس زمانے میں مذاہب ِ اربعہ میں سے کسی ایک کی پابندی پہلے سے زیادہ لازمی ہوگئی ہے۔ مگر سوال یہ ہے کہ کیا کوئی صاحب علم وفضل چار معروف مذاہب فقہ کو چھوڑ کر حدیث پر عمل کرنے یا اجتہاد کرنے کا حق دار ہے یا نہیں ؟ اگر نہیں تو کس دلیل سے؟اور اگر جائز ہے تو پھر طحطاوی میں ایک بڑے صاحب کما ل فقیہ کے اس قول کا کیا مطلب ہے:
اَلْمُنْتَقِلُ مِنْ مَذْھَبٍ إِلٰی مَذْھَبٍ بِإِ جْتِھَادٍ وَبُرْھَانٍ اٰثِمٌ یَسْتَوْجِبُ التَّعزِیْرَ۔ ({ FR 2049 })

مقدمات کا کسی دوسری فقہ پر فیصلہ

اگر حنفی اور شافعی نقطۂ نظر کے درمیان اختلاف ہو تو کیا یہ ضروری ہے کہ حنفیوں کے معاملے میں صرف حنفی نقطۂ نظر ہی قبول کیا جائے؟ اور خاص کر جہاں عدالت اس راے پر پہنچے کہ شافعی نقطۂ نظر زیادہ وزن دار ہے؟