مظاہر ِ تقوٰی کی اہمیت کی نفی اور عوام پر اس کا اثر
’’ حالیہ اجتماع دارالاسلام({ FR 1808 }) کے بعد میں نے زبانی بھی عرض کیاتھا اور اب بھی اقامت دین کے فریضے کو فوق الفرائض بلکہ اصل الفرائض اور اسی راہ میں جدوجہد کرنے کو تقویٰ کی رُوح سمجھنے کے بعد عرض ہے کہ ’’مظاہر تقویٰ‘‘ کی اہمیت کی نفی میں جو شدت آپ نے اپنی اختتامی تقریر میں برتی تھی وہ ناتربیت یافتہ اراکین جماعت میں ’’عدم اعتنا بالسنۃ‘‘کے جذبات پیدا کرنے کاموحب ہوگی اور میں دیانتاً عرض کرتا ہوں کہ اس کے مظاہر میں نے بعد از اجلاس ملاحظہ کیے۔ اس شدت کا نتیجہ بیرونی حلقوں میں اوّلاً تویہ ہوگا کہ تحریک کومشکو ک نگاہوں سے دیکھا جائے گا۔ کیوں کہ اس سے پہلے بھی بعض داعیین تحریک نے’’استہزاء بالسنۃ‘‘ کی ابتدا اسی طرح کی تھی کہ بعض مظاہر تقویٰ کو اہمیت دینے اور ان کامطالبہ کرنے میں شدت اختیار کرنے کی مخالفت جوش وخروش سے کی۔دوسرے یہ کہ شرارت پسند عناصر کو ہم خود گویا ایک ایسا ہوائی پستول فراہم کردیں گے جو چاہے درحقیقت گولی چلانے کا کام ہرگز نہ کرسکے مگر اس کے فائر کی نمائشی آواز سے حق کی طرف بڑھنے والوں کو بدکایا جاسکے گا۔ خود نبی ﷺ نے اس طرح کے معاملات میں عوام کے مبتلاے فتنہ ہوسکنے کا لحاظ رکھا ہے۔چنانچہ بیت اﷲ کی عمارت کی اصلاح کا پروگرام حضورؐ نے محض قوم کی جہالت اور جدید] حدیث[ العہد بالاسلام ہونے کے باعث ملتوی کردیا تھا اور پھر اتنی احتیاط برتی کہ کبھی کسی وعظ اور خطبے میں لوگوں کو اس کی طرف توجہ تک نہیں دلائی،بجز اس کے کہ درون خانہ حضرت عائشہ صدیقہؓ سے آپؐ نے اس کا تذکرہ ایک دفعہ کیا۔
علاوہ بریں مظاہر تقویٰ کے معاملے میں بھی دوسرے مسائل کی طرح خود داعی ومصلح اوّل صلوات اللّٰہ علیہ کے ذاتی اسوہ کا اتباع ہی راہِ ہدایت ہے۔اس امر کو تسلیم کرنے کے بعد یہ روایت مدنظر رکھیے کہ کَانَ رَسُولُ اللّٰہِ صِلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ… کَثَّ الِلّحْیَۃِ‘‘ ({ FR 2046 }) اس اسوۂ رسولؐ کا اتباع کرتے ہوئے اگر آپ افراط وتفریط کی اصلاح کریں تو پھر اِدھر تو معترضین کو عیب چینی کے مواقع کم ملیں گے اور اُدھر مغربیت زدہ لوگوں کے لیے طغیانِ نفس واِبائے اطاعت کے لیے کم تر مواقع حاصل ہوں گے۔ اسی بِنا پر میں نے بوقت ملاقات عرض کیاتھا کہ آپ کا ذاتی تعامل باعفاء اللحیہ ودیگر پہلوئوں سے تکمیل ظواہر سنن بالیقین دین کے لیے مفید ہوگا۔ اس کا خیال ہے کہ اِدھر مذہبی مخالفین کا گروہ ہے جس کی اصلاح اس انداز سے کرنی ہے کہ مختلف اُمور دین کو ان کے اصل مقام پر رکھ کر انھیں ان کی صحیح حیثیت اور ان کی صحیح اہمیت سے آگاہ کرنا ہے، لیکن دوسری طرف جدید تعلیم یافتہ طبقہ ہے جس کے نزدیک مظاہر تقویٰ کے معاملے میں سنتِ انبیا خصوصاً ڈاڑھی کی سنت کا اتباع کرنا نہ صرف غیر ضروری بلکہ ذریعۂ نفرت وتمسخر ہے۔اس گروہ کی اصلاح بھی تو آخر ہمارے ہی ذمے ہے، تو پھر کیا یہ فرض پورا کرنے کے لیے وہی اثباتی شدت زیادہ کارآمد نہیں ہے جو مظاہر تقویٰ کے تحفظ میں قدیم دین دار طبقے کی تلقینات کی رُوح تھی؟
مزید یہ کہ ہم اسلام کی اساسی حقیقتوں ہی کوجب پوری وسعت سے نہیں پھیلا چکے ہیں اور ابھی بے شمار بندگانِ خدا کے سینوں میں اُترنے کی مہم سر کرنی باقی ہے، تو کیا بہتر یہ نہ ہوگا کہ ہم فروعی اُمور کے کانٹوں سے دامن بچا کر بڑھتے جائیں اور اصل مقصد کی طرف بڑھتے ہوئے اپنا ایک لحظہ بھی ضائع نہ ہونے دیں ۔ورنہ مجھے خطرہ ہے کہ ہم لوگ جن کا دن رات واسطہ کجی اور فتنہ وتأویل کے متلاشیوں سے ہے،صرف انھی زائد از ضرورت مسائل میں اُلجھ کر رہ جائیں گے اور اصل مقصد فوت ہوجائے گا۔ پس بہتر یہی ہے کہ ’’مظاہر تقویٰ‘‘وغیرہ قسم کے مباحث پر تحریروں اور تقریروں میں درشت اور شدید طریقے سے بحث نہ کی جائے۔