فقہی اصطلاحات اور فقہاے کرام

یہ بات مشہور ہے او رکتب متداولہ نیز ابن حزمؒ کی اجتہاد وقیاس کے خلاف یورش سے بھی اس بات کی تائید ہوتی ہے کہ وہ امام دائود ظاہریؒ اوران کے اتباع،اجتہاد، استنباط، قیاس او ر استحسان کے شدیدمخالف ہیں ۔ لیکن خود ابن حزمؒ ہی کی کتابوں سے یہ بھی مترشح ہوتا ہے کہ وہ خود بھی اجتہاد کے عادی ہیں ۔ دریافت طلب امر یہ ہے کہ حقیقت الامر کیا ہے؟کیا یہ کوئی تعبیر کا فرق ہے یا سچ مچ وہ اجتہاد کے قائل نہیں ہیں ؟ اور اگر نہیں ہیں تو ان کے اپنے اجتہاد کی توجیہ اورپس منظر کیا ہے؟
جواب

اجتہاد واستنباط اور قیاس واستحسان ایک ایسی چیز ہے جس سے کسی طرح مفر نہیں ہے۔ جو شخص بھی محدود احکام منصوصہ کو غیر محدوداحوالِ انسانی پرمنطبق کرنے کی کوشش کرے گا ،اسے لامحالہ ان چیزوں سے کام لینا پڑے گا۔ اصل اختلاف ان چیزوں کے بالفعل استعمال میں نہیں ہے بلکہ استعمال کی کثرت وقلت میں ہے۔ یا پھر ان الفاظ واصطلاحات میں ہے جن سے ان معانی کو تعبیر کیا جاتا ہے۔ایک شخص کی تعبیر پر دوسرا شخص قدح کرتا ہے،اور لوگوں میں مشہور ہوجاتا ہے کہ وہ سرے سے اس چیز کا قائل ہی نہیں ۔ ایک شخص استکثار پر عملاً یا قولاً زور دیتا ہے اور دوسرا اس پر کچھ اس شان سے معترض ہوتا ہے کہ گویا اس کا اعتراض کثرت استعمال پر نہیں بلکہ نفس شے کے استعمال پر ہے۔ان اشارات کو نگاہ میں رکھ کر آپ نہ صرف امام دائود ظاہریؒ اور ابن حزمؒ کے مسلک کو سمجھ سکتے ہیں بلکہ ان اختلافات کی حقیقت کو بھی پا سکتے ہیں جو مثلاًا ہل الرأے اور اہل الحدیث میں قیاس وراے کے استعمال پر، اور امام مالکؒ اور امام شافعی ؒ میں استحسان و مصالح مرسلہ کے مسئلے پر ہوئے ہیں ۔
(ترجمان القرآن ، مارچ ۱۹۵۴ء)