جِن اور انس اور خلافتِ ارضی

کیا انسانوں کے ساتھ جِن بھی خلافتِ ارضی میں شریک ہیں ۔ کیا ان کی نفسیات بھی انسانی نفسیات کے مماثل ہیں ۔ یہ مشہور ہے کہ فلاں شخص پر جِن سوار ہے، اس کی کیا حقیقت ہے؟ کیا ابلیس یا شیطان ہر جگہ حاضر و موجود ہے اور ہر انسان تک بیک وقت رسائی رکھتا ہے؟

شیطان کا سر

تفہیم القرآن جلد چہارم ،صفحہ ۲۸۹ (طبع اول) آیت۵۶، سورۂ الصّٰٓفّٰت ،ح۳۶ —— تشبیہ دینے والے (خدا) کے لیے توتشبیہ کے دونوں ارکان (مشبہ و مشبہ بہ) مشہود ہیں ۔ رہے انسان، تو انھوں نے شیطان کے سر نہیں دیکھے تو زقوم کے شگوفے تو دیکھ رکھے ہیں ۔ مشبہ بہ کی مناسبت سے مشبہ کے متعلق کچھ نہ کچھ تصور قائم کیا جا سکتا… لہٰذا اسے ’’تخیلی تشبیہ‘‘ قرار دینا موزوں نظر نہیں آتا… اس سلسلے میں جو مثالیں مفسر محترم نے پیش کی ہیں وہ اس لیے غیر متعلق ہیں کہ ان کے بیان کرنے والے انسان ہیں جنھوں نے واقعی ان چیزوں کو نہیں دیکھ رکھا۔ لیکن اللّٰہ تعالیٰ نے تو شیطان اور اس کا سر دیکھ رکھا ہے۔

قرآن کا مطلوب انسان

کن اُصول،خطوط اور بنیادوں پر ہندستانی مسلمانوں کی سیاسی ومعاشی اصلاح، ان حالات کے اندر رہتے ہوئے جن میں وہ گھرے ہوئے ہیں ،اسلامی اُصول،روایات اور نقطۂ نظر کے مطابق ممکن ہے؟براہِ کرم حسبِ ذیل خطوط پر اپنی تفصیلی راے تحریر کیجیے:
[۱] ایک ایسا قابلِ عمل دستور تجویز کیجیے جس کے ذریعے قومی احیا کے مشترکہ مقصد کے لیے مسلمانوں کے مختلف فرقوں اور مدارسِ فکر کو متحد اور مربوط کیا جاسکے۔
[۲] ایک ایسا اقتصادی نقشہ ونظام مرتب کیجیے جو اُصولِ اسلام کے ساتھ مطابقت رکھتا ہو۔
[۳] ہندستانی مسلمان جن مخصوص حالات میں گھرے ہوئے ہیں ،انھیں ذہن میں رکھ کر بتایئے کہ کیا یہ ممکن ہے کہ اگر اور جب وہ ایسی آزاد ریاستیں حاصل کرلیں جن میں ان کی اکثریت ہو،تو ایک ایسا نظامِ حکومت قائم کرسکیں جس میں مذہب اور سیاست کے درمیان ایک خوش آئندہم آہنگی پیدا ہوجائے۔
[۴] اسلامی اُصول، روایات، تصورات اورنظریات کے مطابق ایک ایسی اسکیم مرتب کیجیے جو مسلمانوں کے معاشرتی،تہذیبی اور تعلیمی پہلوئوں پر حاوی ہو۔
[۵] مجموعی قومی بہبودی کی خاطر مذہبی ادارات یعنی اوقاف اور دوسرے ذرائع آمدنی کو ایک مرکز کے ماتحت منظم کرنے کے لیے طریقِ کار اور نظام اس طرح مرتب کیجیے کہ ان اداروں پر قبضہ رکھنے والے اشخاص کے احساسات، میلانات، اغراض اورمختلف نظریات کا لحاظ رہے۔({ FR 2598 })

فرد اور معاشرے کی کش مکش

فرد اور سوسائٹی کے باہمی تعلقات کی نسبت مندرجہ ذیل خیال اسلامی نقطۂ نظر سے کہاں تک صائب ہے؟
’’شہد کی مکھیوں ،چیونٹیوں اور دیمک کے برعکس انسان معاشرے میں زندگی گزارنے کے لیے نہیں بنایا گیا ہے۔وہ زیادہ سے زیادہ حد تک ایک فرد ہے۔بدرجۂ آخر یوں سمجھ لیجیے کہ وہ گلوں میں بٹ کر جینے کی جبلت رکھتا ہے۔ یہی راز ہے فرد اور معاشرے کے غیر مختتم تصادم کا! کوئی مذہب عدم توافق کی اس گرہ کو کھولنے پر قادر نہیں ہے۔ کیوں کہ یہ گرہ کھلنے والی ہے ہی نہیں ! کیا خود قرآن نے نہیں کہا کہ ہم نے انسان کو احسن تقویم پر پیدا کیا۔ (التین:۴)اور پھر اسی کے ساتھ ساتھ یہ بھی… کہ ہم نے انسان کو بڑی مشقت میں پیدا کیا (البلد:۴)۔ میری راے میں ان آیات کی بہترین تأویل یہ ہے کہ ایک مشین — نظام جسمانی — کی حیثیت سے آدمی اشرف المخلوقات ہے۔لیکن معاشر ے کا رکن ہونے کی حیثیت سے وہ معاشر ے کے ساتھ ہمہ وقت متصادم رہنے والا ہے۔‘‘

سورة المائدہ،آیت ۱۲کی تفسیر

’’خطبات‘‘ میں آیت وَقَالَ اللہُ اِنِّىْ مَعَكُمْ۝۰ۭ لَىِٕنْ اَقَمْــتُمُ الصَّلٰوۃَ ({ FR 2265 }) (المائدہ:۱۲) کی آپ نے جو تفسیرکی ہے وہ عام مفسرین سے مختلف ہے۔آپ نے اِنِّیْ مَعَکُمْکو لَئِنْ اَقَمْتُمْ کا جواب بتایا ہے۔حالاں کہ عام مفسرین نے اِنّیْ مَعَکُمْ کو جملۂ مستانفہ قرا ردیا ہے اور لَئِنْ اَقَمْتُمْ کا جواب لَاُکَفِرَّنَّ عَنْکُمْ بتایا ہے۔آ پ نے تو نہ صرف لَاُکَفِّرَنَّکا جواب نہیں لکھا ہے،بلکہ خطبات میں آیت کے اس آخری حصے کو بالکل چھوڑ ہی دیا ہے۔ معترضین کا دعویٰ ہے کہ نحوی قاعدے کے مطابق بھی اِنِّی مَعَکُمْ کا ٹکڑا لَئِنْ اَقَمْتُمْ کا جواب نہیں ہو سکتا، کیوں کہ اِنّیِ مَعَکُمْ اور لَئِنْ اَقَمْتُمْ کے درمیان وقف جائز ہے،حالاں کہ شرط وجواب کے درمیان تووقف جائزنہیں ہوسکتا۔ہم اس اعتراض کا کوئی جواب دیتے ہیں تو حضرات علما فوراًیہ کہہ کر ہمارا منہ بند کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ تم مودودی صاحب کے اندھے مقلد ہو اور عربی کے نحوی قواعد کا انکار کرکے بھی ان کی ’’تفسیر بالرأے‘‘ کی حمایت میں دلیلیں لاتے ہو۔براہ کرم واضح فرمایئے کہ آپ کی تفسیر صحیح ہے تو کن دلائل کی بنا پر؟اور کیا متقدمین میں سے بھی کسی نے یہ تفسیر کی ہے؟نہیں تو وہ کیا اسباب تھے کہ آپ نے اس نئی تفسیر کی ضرورت محسوس کی؟فصیح عربی زبان میں اس کی کوئی نظیر ہو تو اس سے ضرور مطلع کیجیے۔

بنی اسرائیل کا فتح فلسطین سے گریز

سورئہ البقرہ کی آیت ۲۴۳ أَلَمْ تَرَ إِلَی الَّذِیْنَ خَرَجُوْا مِنْ دِیَارِہِمْ وَہُمْ أُلُوْفٌ حَذَرَ الْمَوْتِ({ FR 2266 }) کی تشریح کرتے ہوئے آپ نے حاشیہ ۲۶۶ تحریر فرمایا ہے کہ اس میں بنی اسرائیل کے اس خروج کی طرف اشارہ ہے جس کے بعد انھوں نے فلسطین میں جہاد کرنے سے انکار کر دیا۔ اللّٰہ تعالیٰ نے ان کو صحراے سینامیں نظر بند کر دیا۔ ان کے مرنے کے بعد ان کی نئی نسل جوان ہوئی، انھوں نے حضرت یوشع کی قیادت میں فلسطین کو فتح کیا۔ یہ واقعہ تو اپنی جگہ صحیح ہے لیکن آیت زیر بحث کا انطباق اس واقعے پر نہیں ہوسکتا۔ کیونکہ اس آیت میں خوفِ موت کو علت خروج قرار دیا ہے۔ لیکن مصر سے بنی اسرائیل کی خروج کی علت خوفِ موت نہ تھی بلکہ موسیٰ علیہ السلام کو خدا کا حکم تھا۔ وَاَوْحَیْنَا اِلٰی مُوْسٰی اَنْ اَسْرِبِعِبَادِیْ({ FR 2267 }) ( الشعرا:۵۲) دوسری بات یہ کہ آیت زیر بحث میں خروج کو قابل مذمت قرار دیا گیا ہے۔ لیکن مصر سے خروج قابل مذمت نہ تھا بلکہ ہجرت تھی۔ تیسری بات یہ کہفَقَالَ لَھُمُ اللّٰہُ مُوْتُوْا ثُمَّ اَحْیَاھُمْ({ FR 2268 }) (البقرہ:۲۴۳) کے الفاظ کا متبادر مفہوم یہی ہے کہ جن لوگوں پر موت طاری کر دی گئی، انھی کو پھر زندہ کر دیا گیا۔ میں نے تفاسیر کا مطالعہ کیا، کہیں بھی آپ والی بات نہیں ملی۔ بلکہ بنی اسرائیل کے ایک گروہ کی طرف اشارہ بتاتے ہیں اور لکھتے ہیں کہ طاغوت کے خوف سے بھاگتے ہوئے نکلے۔ راستے میں ان کو موت دی گئی۔ پھر انھی کو زندہ اٹھایا گیا۔ مہربانی فرما کر اس اشکال کو حل فرمائیں ۔‘‘

آیۃ الکرسی اور دیگر دُعاؤوں کی تاثیر

احادیث میں قرآن مجید کی بعض آیات کے بارے میں بڑے بڑے وعدے پائے جاتے ہیں ۔ مثلاً آیت الکرسی ہی کو لیجیے۔ اس کے متعلق بخاری، مسلم وغیرہ میں معمولی اختلافات سے یہ بیان موجود ہے کہ جو کوئی اس کو پڑھ لے اس کے لیے ایک فرشتہ بحیثیت محافظ و نگراں مقرر کر دیا جاتا ہے۔ اسی طرح چوری سے حفاظت اور مال کے محفوظ رہنے کا مضمون بھی مشہور ہے۔ مگر اس کے باوجود بعض اوقات چوری بھی ہوجاتی ہے اور آدمی کو نقصان بھی پہنچ جاتا ہے۔
اسی طرح احادیث میں مذکور ہے کہ جو شخص یہ کلمات پڑھے گا اُسے کوئی چیز گزند نہیں پہنچا سکتی: بِسْمِ اللّٰہِ الَّذِی لَایَضُرُّ مَعَ اسْمِہٖ شَیْئٌ فِی الْاَرَضِ وَلَافِی السَّمَائ، وھُو السّمیعُ العَلیمُ({ FR 2269 })
مقصد صرف اس قدر ہے کہ باوجود ان شہادتوں کے معاملات کا وقوع مطابقِ وعدہ نہیں ہوتا۔ از راہِ مہربانی اس اُلجھن کو حل فرما دیں ۔

حَتّٰی یُثْخِنَ فِی الْاَرْضِ کے معنی

مَا كَانَ لِنَبِيٍّ اَنْ يَّكُوْنَ لَہٗٓ اَسْرٰي حَتّٰي يُثْخِنَ فِي الْاَرْضِ۝۰ۭ تُرِيْدُوْنَ عَرَضَ الدُّنْيَا۝۰ۤۖ وَاللہُ يُرِيْدُ الْاٰخِرَۃَ۝۰ۭ وَاللہُ عَزِيْزٌ حَكِيْمٌo لَوْلَا كِتٰبٌ مِّنَ اللہِ سَبَقَ لَمَسَّكُمْ فِــيْمَآ اَخَذْتُمْ عَذَابٌ عَظِيْمٌo فَكُلُوْا مِمَّا غَنِمْتُمْ حَلٰلًا طَيِّبًا۝۰ۡۖ وَّاتَّقُوا اللہَ۝۰ۭ اِنَّ اللہَ غَفُوْرٌ رَّحِيْمٌ o (الانفال:۶۷-۶۹)
عام طور پر اس کا ترجمہ کیا جاتا ہے: نبی کے لیے زیبا نہیں ہے کہ اس کے پاس قیدی ہوں جب تک وہ زمین میں اچھی طرح خون ریزی نہ کرلے۔
اس مفہوم کو ادا کرنے کے لیے اِثْخَان فِی الْاَرْضِ کے الفاظ قطعی طور پر مناسب نہیں ہیں ۔ اگر یہی بات کہنا ہوتی تو حَتّٰی یُثْخِنَہُمْ کے الفاظ استعمال کیے جاتے۔
لَوْ لَاکِتٰبٌ مِّنَ اللّٰہِ کے الفاظ بھی قرآن حکیم میں بالعموم کفار کے لیے اِمہال کی سنت الٰہیہ کو بیان کرنے کے لیے استعمال ہوئے ہیں اور واقعہ یہی ہے کہ بدر میں اِثخان کچھ کم نہیں ہوا تھا۔
فِیْمَا اَخَذْتُمْ اس طرح کے اسلوب میں روش اختیار کرنے، طریقہ اپنانے کے معنی میں استعمال ہوتا ہے۔
آیات کا پس منظر یہ ہے کہ بدر کے بعد جب فدیے پر معاملہ ہوا تو قریش نے پروپیگنڈا کرنا شروع کر دیا کہ یہ تو بس دنیا کے طالب ہیں ۔ یہ جنگ وجدال حق کی خاطر نہیں ، مالِ غنیمت سمیٹنے کے لیے برپا کیا گیا ہے۔ قیدیوں کو پکڑا ہے تو اب انھیں بھی فدیہ لے کر چھوڑ رہے ہیں ۔ نبوت کا توبس ادعا ہی ہے، اصل سوال تو روپے کا درپیش ہے جس کے لیے جتھہ بندی کی گئی ہے۔ اسی پروپیگنڈے کی تردید میں ارشاد ہوا:
’’یہ نبی کا مقام نہیں ہے کہ اس کے پاس قیدی ہوں یہاں تک کہ وہ اس کے لیے زمین میں خوں ریزی کرے۔ (اے قریش مکہ) یہ تم ہو جو دنیا کے طالب ہو، اللّٰہ تو بس آخرت کو چاہتا ہے اور اللّٰہ عزیز و حکیم ہے۔ اگر اللّٰہ کے ہاں پہلے ہی تمھارے لیے (اِمہال کا) نوشتہ نہ ہوتا تو جو روش تم نے اختیار کی تھی، اس کی پاداش میں تمھیں عذاب عظیم آلیتا۔‘‘

حرام مہینوں کی حُرمت کا حکم

قرآن مجید میں اَشْہُرِ حُرُم (التوبہ:۳۶) میں قتال سے منع کیا گیا ہے لیکن شاہ ولی اللّٰہ اور مولانا ثناء اللّٰہ پانی پتی (صاحبِ تفسیر مظہری) متاخٔرین میں ، اور عطا اور امام بیضاوی متقدمین میں ، بس یہی ملے جنھوں نے آیت کے حکم کو باقی رکھا ہے۔ ان کے علاوہ صاحبِ بدائع و صنائع، زمخشری، جصاص، ابن العربی مالکی اور دوسرے مفسرین اور فقہا نے اس آیت کو منسوخ قرار دیا ہے۔ حتیٰ کہ کتاب الُام میں امام شافعیؒ کا رجحان بھی اس طرف معلوم ہوتاہے جب کہ ان کے فقہی اصول (مذکورہ بیضاوی) کی رُو سے اس آیت کو منسوخ نہ سمجھنا چاہیے۔
مجھے جناب سے یہ دریافت کرنا ہے کہ تفہیم القرآن کا مصنف اس مسئلے میں کیا راے رکھتا ہے۔ تفہیم القرآن کی خاموشی سے بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ یہ آیت منسوخ نہیں ۔ اس کے بعد درج ذیل باتیں مزید توضیح طلب ہیں :
(۱)کیا اس حکم کو اسلامی قوانینِ جنگ میں وہی حیثیت حاصل ہے جو دوسرے قوانین کو حاصل ہے؟
(۲)اَشْہُر حُرُم میں قتال کی ممانعت کا تعلق صرف اہلِ عرب سے ہے یا دنیا کی ہر اسلامی حکومت کے لیے ضروری ہے کہ وہ اس حکم کو پیش نظر رکھے؟
(۳)تفسیروں سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ اَشْہُرِ حُرُم میں قتال سے اس لیے منع کیا گیا کہ خود عربوں میں بھی یہی رسم باقی تھی اور وہ ان محترم مہینوں کا خیال کرتے تھے۔ اگر دنیا کی تمام اسلامی حکومتوں کو اس حکم کا مخاطب سمجھا جائے تو اس کی علت عربوں کی ’’مخصوص‘‘ رسم کے علاوہ کچھ اور بھی ہونا چاہیے؟ قرآن و حدیث میں اس کی طرف اشارہ کیا گیا ہے یا نہیں ؟
مجھے جناب کے مشاغل میں دخل اندازی پر ندامت ہے لیکن امید ہے کہ جناب اس خلش کو (خصوصاً دوسرے نکتے سے متعلق) دُور فرمائیں گے۔