بعض احادیث پر اشکالات

دو احادیث پر کچھ اشکالات پیدا ہورہے ہیں ، بہ راہِ کرم تشفی بخش جواب سے نوازیں :
(۱) ایک حدیث میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’اگر میں اللہ تعالیٰ کے سوا کسی کے لیے سجدے کا حکم دیتا تو بیوی کو حکم دیتا کہ وہ اپنے شوہر کو سجدہ کرے۔‘‘ (ابو داؤد)
اس حدیث پر درج ذیل اشکالات پیدا ہو رہے ہیں :
الف: یہ حدیث اسلام کے تصور ِ توحید کے منافی ہے۔
ب: ہندوؤں کے یہاں عورت کے بارے میں تصور ہے کہ وہ شوہر کی داسی ہے ۔ پتی ورتا ہونا اس کا دھرم ہے اور پتی ورتا کے معنیٰ یہ ہیں کہ شوہر اس کا معبود اور دیوتا ہے۔ اس حدیث سے بھی یہی تصور ابھرتا ہے۔
ج: یہ حدیث قرآن کی اس تعلیم کے خلاف ہے: ’’اللہ نے تم کو ایک نفس سے پیدا کیا اور اس کی جنس سے اس کے جوڑے کو پیدا کیا۔‘‘ (النساء: ۱)
د: اس حدیث سے عورت کی تذلیل و توہین معلوم ہوتی ہے۔
(۲) ایک حدیث ہے کہ حضرت سہل بن سعدؓ روایت کرتے ہیں : ’’میں کچھ لوگوں کے ساتھ رسول اللہ ﷺ کے پاس بیٹھا ہوا تھا کہ ایک عورت آئی اور اس نے عرض کیا: ’اے اللہ کے رسولؐ! میں اپنے آپ کو آپ کے لیے ہبہ کرتی ہوں ۔‘ آپؐ نے اسے کوئی جواب نہیں دیا۔ کچھ دیر کے بعد ایک شخص نے اٹھ کر عرض کیا: ’اے اللہ کے رسولؐ! آپؐ اس سے میرا نکاح کرادیجیے۔‘ آپؐ نے فرمایا: ’کیا تمھارے پاس کوئی چیز ہے؟ (یعنی اسے مہر میں کیا دوگے؟)‘ اس نے کہا: ’کچھ بھی نہیں ۔‘ آپؐ نے فرمایا: ’جاکر تلاش کرو، کچھ نہیں تو لوہے کی انگوٹھی سہی۔‘ اس نے جاکر ڈھونڈا اور کچھ دیر کے بعد واپس آکر کہا۔ ’حضوؐر! مجھے کوئی چیز نہیں ملی، یہاں تک کہ لوہے کی انگوٹھی بھی مہیا نہیں کرسکا ہوں ، البتہ میرا یہ تہبند حاضر ہے۔ اس عورت کو میں آدھا تہبند دے دوں گا۔‘ آپؐ نے فرمایا: ’تیرا یہ تہبند کس کام کا؟، اگر اسے تو پہنے گا تو تیری بیوی برہنہ ہوجائے گی اور اگر اسے اس نے پہنا تو پھر تم کیا پہنوگے؟‘‘ پھر آپؐ نے اس سے فرمایا: ’تمھیں قرآن کا کچھ حصہ یاد ہے؟‘ وہ بولا: ’ہاں ! فلاں فلاں سورتیں یاد ہیں ۔‘ آپؐ نے فرمایا: ’جاؤ، میں نے قرآن کی ان سورتوں کے بدلے اس عورت سے تمھارا نکاح کردیا۔‘ (بخاری و مسلم)
اس حدیث پر کئی اشکالات وارد ہوتے ہیں :
۱- عورت نے اپنے آپ کو رسول اللہ ﷺ کو ہبہ کیا تھا۔ آپؐ کی خاموشی کے بعد حاضرین میں سے کسی شخص کا خواہش نکاح ناقابل فہم ہے۔
۲- عورت کی رائے معلوم کیے بغیر رسول اللہ ﷺ کا اس سلسلے کو آگے بڑھانا کیسے ممکن ہے؟
۳- مہر جو مرد پر فرض ہے اور عورت کا حق ہے، اس کو لوہے کی انگوٹھی جیسی حقیر چیز پر محمول کرنے کی کیا شریعت اجازت دیتی ہے؟
۴- اس شخص کا مہر میں تہبند پیش کرنا، اس سے زیادہ بیہودہ مذاق اور کیا ہوسکتا ہے؟
۵- اگر موصوف اس قدر مفلس تھے تو وہ اپنی بیوی کا نفقہ کس طرح ادا کرسکتے تھے؟ ایسے شخص کے لیے تو اللہ کے رسول ﷺ کی یہ تعلیم ہے کہ: ’’جو شخص نکاح کی ذمے داریاں ادا کرنے کی استطاعت نہ رکھتا ہو وہ روزہ رکھے، کیوں کہ یہ اس کے شہوانی جذبات کو کم کردے گا۔‘‘ (بخاری و مسلم)
۶- کیا ان حالات میں مہر مؤجّل پر عمل نہیں کیا جاسکتا تھا؟

تحریکی خواتین کا دائرہ عمل

میں الحمد للہ جماعت اسلامی ہند کی رکن ہوں ، دس سال سے زیادہ عرصے سے جماعت سے وابستہ ہوں اور اس کی سرگرمیوں میں حسب توفیق حصہ لیتی ہوں ۔ لیکن پچھلے کچھ وقت سے میں ایک الجھن میں مبتلا ہوں ۔ میری الجھن خواتین کے دائرۂ عمل سے متعلق ہے۔ میں کچھ سوالات آپ کی خدمت میں بھیج رہی ہوں ۔ آپ سے گزارش ہے کہ قرآن و سنت کی روشنی میں میری رہ نمائی کرکے الجھن دور فرمائیں ۔
۱- جماعت کے بڑے اجتماعات میں ، جو علاقے، حلقے یا مرکز کی سطح پر منعقد ہوتے ہیں ، مردوں کے ساتھ خواتین بھی شریک ہوتی ہیں ۔ کیا ایسے مشترک اجتماعات میں کوئی عورت درسِ قرآن یا درسِ حدیث دے سکتی ہے، تقریر کرسکتی ہے یا مذاکرے میں حصہ لے سکتی ہے؟ کہا جاتا ہے کہ نماز باجماعت میں اگر امام سے کوئی غلطی ہوجائے اور اس کو متنبہ کرنا ہو تو مردوں کو سبحان اللہ کہنے کا حکم ہے، مگر عورتوں کو ہدایت کی گئی ہے کہ وہ صرف دستک دیں ، زبان سے کچھ نہ بولیں ۔ جب نماز جیسی عبادت میں عورتوں کا آواز نکالنا ممنوع ہے تو مردوں کے درمیان ان کا تقریر کرنا اور درس دینا کیوں کر جائز ہوسکتا ہے؟ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ عورت کا آواز کا بھی پردہ ہونا چاہیے، کیوں کہ اس میں بھی بہ ہر حال کشش ہوتی ہے۔
۲- میں اپنے شہر کی ناظمہ ہوں ۔ اس ذمّے داری کی وجہ سے مجھے امیر مقامی، ناظم شہر، ناظم علاقہ اور کچھ دیگر مردار کان سے خواتین کے سلسلے میں فون پر بات کرنی ہوتی ہے اور ان لوگوں کے بھی فون آتے ہیں ۔ کیا میرا ان سے فون پر بات کرنا صحیح ہے؟ کہیں یہ شرعی حدود سے تجاوز تو نہیں ؟
۳- کہا جاتا ہے کہ عورت کا دائرۂ کار اس کا گھر ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے: ’’اور اپنے گھروں میں قرار سے رہو‘‘ (الاحزاب: ۳۳) مولانا سید ابوا لاعلیٰ مودودیؒ نے اپنی کتاب ’پردہ‘ میں اس موضوع پر تفصیل سے اظہار خیال فرمایا ہے۔ انھوں نے لکھا ہے: ’’عورت کو ایسے تمام فرائض سے سبک دوش کیا گیا ہے، جو بیرون خانہ کے امور سے تعلق رکھنے والے ہیں ۔ مثلاً اس پر نماز جمعہ واجب نہیں ہے، اس پر جہاد بھی فرض نہیں ، اس کے لیے جنازوں میں شرکت بھی ضروری نہیں ۔ بل کہ اس سے روکا گیا ہے۔ اس پر نماز باجماعت اور مسجدوں کی حاضری بھی لازم نہیں کی گئی، اگرچہ چند پابندیوں کے ساتھ مسجد میں آنے کی اجازت ضرور دی گئی، لیکن اس کو پسند نہیں کیا گیا۔ اس کو محرم کے بغیر سفر کی بھی اجازت نہیں دی گئی۔ غرض ہر طریقے سے عورت کے گھر سے نکلنے کو ناپسند کیا گیا ہے اور ا س کے لیے قانون ِ اسلامی میں پسندیدہ صورت یہی ہے کہ وہ گھروں میں رہے۔‘‘ ان باتوں کی روشنی میں وضاحت فرمائیں کہ جب اللہ تعالیٰ نے خواتین کو اپنے گھروں میں ٹِک کر بیٹھنے کا حکم دیا ہے تو خواتین کا مقامی سطح کے ہفتے وار اور ماہانہ اجتماعات اور علاقے اور حلقے کی سطح کے اجتماعات میں شرکت کے لیے گھر سے نکلنا کس حد تک درست ہے؟ اور وہ دعوتی کاموں میں کس حد تک سرگرم رہ سکتی ہیں ؟ کیا ان کا دیگر خواتین کی اصلاح کے لیے اور ان سے انفرادی ملاقاتوں کے لیے بار بار ان کے گھروں میں جانا صحیح ہے۔
حدیث کی روٗ سے عورت اپنے شوہر کے گھر کی نگراں ہے اور وہ اس کے دائرے میں اپنے عمل کے لیے جواب دہ ہے۔ گویا گھر سے باہر کی خواتین کے درمیان تبلیغ و اصلاح کی ذمے داری ہماری نہیں ہے، تو پھر ہم خواتین کو اپنے گھر سے باہر جاکر دیگر خواتین کو اکٹھا کرکے اجتماعات کرنے کی کیا ضرورت ہے؟
۴- میں نے ایم اے تک پڑھائی کی ہے۔ میرے شوہر چاہتے ہیں کہ آگے بھی پڑھائی جاری رکھوں یا ٹیچنگ کروں ۔ اعلیٰ تعلیم کے حصول کے لیے گھر سے باہر تو نکلنا پڑے گا۔ بسا اوقات ان اداروں میں مخلوط تعلیم کا نظم ہوتا ہے۔ کیا ان اداروں کو جوائن کیا جاسکتا ہے؟ پردے کے اہتمام کے ساتھ اعلیٰ تعلیم کے حصول کے لیے کوشش جائز ہے یا غیر ضروری ہے؟
۵- میں نے انٹر کرنے کے بعد جماعت کے ایک پرائمری اسکول میں دو سال ٹیچنگ کی۔ اس وقت تک مجھے دین کے بارے میں بہت کم معلومات تھیں ۔ وہاں پڑھانے کے دوران اسکول کے پرنسپل، منیجر اور بعض دیگر افراد نے میری تربیت کی، مجھ میں دین کا شعور پیدا کیا اور میری زندگی کو تحریک سے جوڑدیا۔ ان لوگوں کی حیثیت میرے نزدیک معلم جیسی ہے۔ آج بھی میں اپنے دینی مسائل کا حل جاننے کے لیے ان حضرات سے مدد لیتی ہوں ۔ میں ان سبھی کے سامنے رو در رو بیٹھ کر بات کرتی ہوں ۔ اس موقع پر میں ساتر لباس میں تو ہوتی ہوں ، مگر چہرہ نہیں ڈھانپتی۔ یہ سبھی حضرات تحریک اسلامی کے رکن ہیں اور عمر دراز ہیں ۔ میری رہ نمائی فرمائیں کہ مجھے اسی طریقے پر رہنا چاہیے یا ان لوگوں سے ملنا جلنا ختم کردینا چاہیے؟
محترم! مجھے ڈر لگتا ہے کہ جن کاموں کو میں نیکی سمجھ کر کر رہی ہوں ، کہیں ان سے میرے گناہ تو نہیں بڑھ رہے ہیں ؟ میری آخرت تو نہیں خراب ہو رہی ہے؟ میں کوئی ایسا کام نہیں کرنا چاہتی جس سے اللہ کے عائد کردہ حدود پامال ہوں ۔ بہ راہِ کرم میری رہ نمائی فرمائیں کہ میں کیا کروں ؟

قرآن کے بوسیدہ اوراق کے ساتھ کیا کیا جائے؟

گزشتہ دنوں اخبار میں ایک خبر شائع ہوئی ہے کہ ممبرا کے ایک علاقے میں قرآن کے اوراق کوڑے دان میں ملتے ہیں اور کوڑا چننے والی ایک غیر مسلم عورت انھیں جمع کرکے ایک مسلمان دوکان دار کو دیتی ہے۔ یہ کام وہ نیکی سمجھ کر کرتی ہے۔ مسلم اکثریت والے علاقے میں یہ کام مسلمانوں کا ہی معلوم ہوتا ہے۔ افسوس ہوتا ہے ان مسلمانوں پر جو دانستہ یا نادانستہ طور پر قرآن کے اوراق کے ساتھ یہ معاملہ کرتے ہیں ۔
اس موقع پر بعض علما کی طرف سے یہ اپیل شائع کی گئی کہ اگر قرآن کے بوسیدہ اوراق کو ضائع کرنے کی ضرورت پڑ جائے تو انھیں زمین میں دفن کردیا جائے یا سمندر میں پھینک دیا جائے۔ مگر یہ معلوم ہے کہ سمندر کوئی چیز اپنے پیٹ میں نہیں رکھتا۔ اسے واپس کنارے پر لگا دیتا ہے۔ یعنی پھر وہی بے حرمتی۔
آپ سے گزارش ہے کہ اس کا کوئی بہتر حل ہمیں بتائیں ۔ صحابۂ کرامؓ کے دور میں بھی ایسا مسئلہ پیش آیا ہوگا۔ انھوں نے اس وقت کیا رویہ اختیار کیا تھا؟ امید ہے قرآن و حدیث کی روشنی میں جواب دیں گے۔

تعمیر ِ مسجد میں غیر مسلم کا مالی تعاون

ہمارے شہر کی جامع مسجد کے لیے ایک ہندو صاحب اپنی خوشی سے بورویل ڈلوانا چاہتے ہیں ۔ ان کے زراعت اور سونے چاندی کے کاروبار ہیں ۔ انکار کے باوجود وہ صاحب مصر ہیں کہ ثواب کے کام میں میرا پیسہ استعمال کرکے مسجد کے لیے بورویل ڈلوالو۔ شریعت ِ مطہرہ میں اس کا کیا حکم ہے؟ بہ راہِ کرم جواب عنایت فرمائیں ۔

بعثت ِانبیاء کا مقصد

سورۃ الحدید میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
لَقَدْ اَرْسَلْنَا رُسُلَنَا بِالْبَیِّنٰتِ وَ اَنْزَلْنَا مَعَہُمُ الْکِتٰبَ وَالْمِیْزَانَ لِیَقُوْمَ النَّاسُ بِالْقِسْطِج (الحدید: ۲۵)
’’ہم نے اپنے رسولوں کو صاف صاف نشانیوں اور ہدایات کے ساتھ بھیجا اور ان کے ساتھ کتاب اور میزان نازل کی، تاکہ لوگ انصاف پر قائم ہوں ۔‘‘
اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ موجودہ زندگی کی حد تک قیام عدل و انصاف ہی رسولوں کی بعثت کا مقصد ہے۔ عام طور پر پایا جانے والا یہ خیال ناقص ہے کہ بعثت ِرسل کی غرض ایک اللہ کی پرستش کرنے اور دوسروں کو غیر اللہ کی پرستش سے روکنے تک محدود ہے۔ دوسری طرف قرآن حکیم کی بہت سی آیات اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ ایمان تقویٰ کی پیدائش کا ذریعہ ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ ایمان خود مطلوب نہیں ، بلکہ بطور وسیلہ مطلوب ہے۔
بہ راہ کرم وضاحت فرمائیں ۔ کیا میری یہ سوچ درست ہے؟

ظہور مہدی کی حقیقت

میں گزشتہ آٹھ ماہ سے دہلی کی تہاڑ جیل نمبر ۴ میں پابند سلاسل ہوں اور ایک پیچیدہ مسئلے کا شکار ہوں ۔ کسی بھی دینی حلقے سے کوئی رابطہ نہیں ہے۔ ہماری جیل میں ۶۵ آدمیوں پر مشتمل پاکستانی بھائیوں کی ایک جماعت ہے، جو خود کو امام مہدی کا پیروکار بتاتے ہیں ۔ ان لوگوں کا کہنا ہے کہ امام مہدی، جن کا اصلی نام ریاض احمد گوہر شاہی ہے، پاکستان میں پیدا ہوئے۔ جب انھوں نے اپنے دعوے کا اعلان کیا تو پاکستانی علماء اور حکومت کے افراد ان کے دشمن بن گئے، چنانچہ انھوں نے مجبور ہوکر لندن میں مستقل سکونت اختیار کرلی۔ ان لوگوں کے بہ قول ریاض احمد گوہرشاہی (امام مہدی) کے پاس بہ راہ راست اللہ کی طرف سے تعلیمات آتی ہیں ۔ یہ لوگ خود کو طریقت کا پیرو بتاتے ہیں ، شریعت کا ان کی زندگیوں میں شائبہ تک نہیں ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ وہ اللہ کا ذکر عام کر رہے ہیں ۔ اس کے ذریعہ لوگوں کے دلوں میں اللہ کا نور آتا ہے اور باطن پاک ہوجاتاہے۔ دل میں نور آنے کے لیے ایمان لانا شرط نہیں ہے۔ نور کسی کے دل میں بھی آسکتا ہے، چاہے وہ ہندو ہو، سکھ ہو، یہودی ہو یا عیسائی ہو۔ ان کے بہ قول اللہ نے ازل سے ہی مومن روحیں پیدا کی ہیں ، جو ہر قوم و ملت میں ہیں ۔ یہ لوگ یہ بھی کہتے ہیں کہ دنیا میں حضرت آدم اوّلین انسان نہیں تھے، بلکہ ہر قوم کا اپنا اپنا آدم ہے۔ مختلف رنگوں اور نسلوں کے لوگ اس وجہ سے الگ الگ ہیں کہ ہر قوم کا آدم الگ ہے۔ یہ لوگ خود کو ذکروالے بتاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ریاض احمد گوہر شاہی (امام مہدی) دین الٰہی کے علم بردار ہیں ۔ ان کے بہ قبول اللہ تعالیٰ نے نبوت ختم کی ہے، خلافت نہیں اور امام مہدی آخری خلیفہ ہیں ۔
گزارش ہے کہ قرآن و سنت کی روشنی میں امام مہدی کے ظہور کے سلسلے میں ہماری رہ نمائی فرمائیں ۔ موجودہ دور میں یہ بہت بڑے مسئلہ کی صورت اختیار کرتا جارہا ہے۔

خود نمائی اور خود ستائی کا مظاہرہ

میرے لیے جو بات انتہائی تشویش ناک اور ناقابل فہم ہے وہ یہ ہے کہ دوسرے دنیا پرست مصنفین کی اتباع میں ہمارے تحریکی مصنفین نے بھی اپنی ذاتی شہرت کو لازم قرار دے رکھا ہے۔ اور تو اور، نوبت بایں جا رسید کہ انھیں توجہ دلایئے اور کل آخرت میں خداوند قدوس کے حضور جواب دہی کی بات کیجیے تو ارشاد ہوتا ہے کہ ’آپ ہی کو خدا کا خوف اور آخرت کا احساس ہے، کیا ہمیں نہیں ہے؟‘
ان کی کتابوں پر ان کے تعارف میں جو کچھ لکھا جاتا ہے اس میں مبالغہ آمیزی کی جاتی ہے اور تعریف و توصیف میں زمین و آسمان کے قلابے ملائے جاتے ہیں ۔ بعض کتابوں پر ان کے فوٹو بھی چھاپ دیے جاتے ہیں ۔
آپ فرماسکتے ہیں کہ خودستائی اور خود نمائی کی یہ تحریریں ، جن کا تم حوالہ دے رہے ہو، مصنف کے علم میں لائے بغیر شائع کردی گئی ہیں ۔ یہ کام ناشر کا ہوسکتا ہے، وہی مبالغہ آمیز طور پر اس طرح کی تحریریں شائع کرسکتا ہے۔ فوٹو شائع کرنے کا بھی ناشر ہی مجرم ہے۔ مصنف تو بے قصور اور لا علم رہتا ہے۔‘ میں تھوڑی دیر کے لیے فرض کیے لیتا ہوں کہ مصنف خود اپنے منہ میاں مٹھو نہیں بنا۔ یہ کیا دھرا ’ناشر‘ کا ہے۔ یہاں اصل سوال یہ ہے کہ کیا واقعی آپ پسند نہیں کرتے کہ آپ کاکوئی رفیق آپ کی تعریف و تحسین اور قصیدہ خوانی میں زمین و آسمان کے قلابے ملائے۔ اگر پسند کرتے ہیں تو معلوم یہی کرنا ہے کہ کیا قرآن و سنت میں اس کی گنجائش نکلتی ہے؟ اور دوسری اہم بات یہ کہ آپ کے نزدیک اس کی افادیت کیا ہے؟ کیا آپ کی کسی تحریر، کتاب اور تقریر کی اہمیت آپ کی اسناد اور بایو ڈاٹا کی وجہ سے ہے؟ اور اگر آپ اس رجحان اور بدعت کو غلط اور آخرت فراموشی کی علامت تصور کرتے ہیں تو کیا کسی ’ناشر‘ کی یہ جسارت اور جرأت ہوسکتی ہے کہ آپ کی مرضی کے خلاف کوئی قدم اٹھا سکے؟

ایک حدیث کا صحیح مفہوم

صحیح مسلم کی ایک حدیث ہے:
’’اگر تم گناہ نہیں کروگے تو اللہ تعالیٰ تمھیں ختم کردے گا اور تمھاری جگہ ایسے لوگوں کو لے آئے گا جو گناہ کریں گے، پھر اللہ سے استغفار کریں گے تو اللہ ان کی مغفرت فرمائے گا۔‘‘
اس حدیث کو سمجھنے میں دشواری پیش آرہی ہے۔ اس سے تو لگتا ہے کہ گناہ کرنے پر ابھارا جا رہا ہے، گناہ سے بچے رہنا کوئی خوبی نہیں ہے، بل کہ گناہ کا ارتکاب کرنا پسندیدہ ہے۔ بہ راہ کرم اس حدیث کا صحیح مفہوم واضح فرمادیں ۔

ایک حدیث کی تحقیق

میں جس مسجد میں جمعہ کی نماز پڑھتا ہوں اس میں خطبہ میں یہ حدیث پڑھی جاتی ہے: السُّلْطَانُ ظِلُّ اللّٰہِ فِی اَرْضِہ، مَنْ نَصَحہ ھَدَی وَ مَنْ غَشَّہ ضَلَّ۔ (حکم راں اللہ کی زمین میں اس کا سایہ ہے۔ جس نے اس سے خیرخواہی کی وہ راہ یاب ہوا اور جس نے اس کی بدخواہی کی وہ گم راہ ہوا)۔ جس مسجد میں یہ حدیث پڑھی جاتی ہے وہ ایک معروف مدرسے کی بڑی مسجد ہے۔
براہ کرم اس حدیث کے متعلق تفصیل سے تحریر فرمائیں ۔ جواب پاکر ممنوں ہوں گا۔

موبائل فون میں قرآنی آیات کی ریکارڈنگ یا رِنگ ٹون

فی زمانہ سیل فونس (Cell Phones)کا استعمال بہت عام ہوگیا ہے۔ بعض مسلمان اپنے فون میں پورا قرآن مجید یا اس کا کچھ حصہ آواز کی شکل میں ریکارڈ رکھتے ہیں ، نیز قرآن لکھا ہوا بھی محفوظ کرلیا جاتا ہے۔ کیا ایسے فون کو بیت الخلاء میں لے جایا جاسکتا ہے؟ اس سے قرآن کی بے حرمتی اور گناہ تو نہیں ہوگا؟ یہ نکتہ ملحوظ رہے کہ گم شدگی اور چوری کے اندیشے سے سیل فون کو اپنے ساتھ ہی رکھنا پڑتا ہے۔ بہ راہِ کرم یہ بھی بتایئے کہ کیا قرآنی آیات کو سیل فون میں رِنگ ٹون (Ring Tone) بنایا جاسکتا ہے؟