طبی اخلاقیات

طب کے میدان میں ڈاکٹروں ، اسپتالوں ، تشخیصی مراکز (لیباریٹری وغیرہ) اور دوا ساز کمپنیوں کا طرز عمل کچھ یوں ہے:
(۱) ایک ڈاکٹر دوسرے ڈاکٹر کو مریض حوالے(Refer)کرتا ہے، مگر اس وقت جب دوسرا ڈاکٹر پہلے ڈاکٹر یعنی حوالے کرنے والے کو اپنے بل کا ۲۰ سے ۳۰ فی صد دے۔ اگر کوئی ایسا نہیں کرتا تو اسے کیس ریفر نہیں کیے جاتے، بل کہ کئی بار تو اس میں مقابلے کی کیفیت ہوتی ہے، یعنی جو زیادہ دیتا ہے اسے مریض ریفر کیے جاتے ہیں ۔ یہ مارکیٹ کا تقریباً طے شدہ اصول ہے اور اس کی ادائی باضابطہ چیک سے ہوتی ہے۔
(۲) تشخیصی مراکز کا بھی یہی معاملہ ہے۔ ایک ڈاکٹر مخصوص مرکز سے ہی اپنے مریضوں کے ٹسٹ کرواتا ہے، جہاں سے اسے بل کا طے شدہ حصہ ملتاہے، جو کبھی کبھی ۴۰ فی صد تک ہوتا ہے۔ اس میں عموماً مریض سے جو کچھ لیا جاتا ہے وہ یکساں رہتاہے۔ ڈاکٹر لے یا نہ لے اور گاہے ڈاکٹر کے کہنے پر کچھ تخفیف بھی کردی جاتی ہے، جس سے مریض کو تھوڑا فائدہ ہوتا ہے، مگر ایسا بہت کم ہوتا ہے۔
(۳) دوا ساز کمپنیاں اپنی مصنوعات کو بڑھا وا دینے کی خاطر اطباء کو کچھ مراعات (مثلاً تحفے جو معمولی سے لے کر کار، بیرون ملک سفر اور دوسرے خاطر خواہ فوائد، جو تجارتی زبان میں Incentivesکہلاتے ہیں ) دیتی ہیں ۔ یہ ڈھکی چھپی بات نہیں ، بل کہ اس بات کے لیے کمپنیوں میں باضابطہ فنڈ ہوتا ہے۔
(۴) پھر کچھ کمپنیاں کھلے طور سے یہ کہتی ہیں کہ جتنا زیادہ ہماری مصنوعات کو بڑھاوا دیں گے اسی قدر آپ کو زیادہ سے زیادہ Incentive دیا جائے گا۔
(۵) کچھ اطبا دوا ساز کمپنیوں سے اپنی مشتہری کا کام کرواتے ہیں ، جس پر تمام پیسہ کمپنی خرچ کرتی ہے۔ اس کے عوض ڈاکٹر اس مخصوص کمپنی کی مصنوعات تجویز کرنے میں امتیاز سے کام لیتے ہیں ۔
ان حالات کے مد ِ نظر درج ذیل سوالات پیدا ہوتے ہیں :
٭ کیا اس طرح کا لین دین، جو ڈاکٹروں کے مابین ہو، یا تشخیصی مراکز اور اطباء کے مابین ہو، جائز ہے یا نہیں ؟
٭ کیا دواساز کمپنیوں سے مراعات لی جاسکتی ہیں ؟
٭ کیا دوا ساز کمپنی سے اپنے کاروبار / کسب کے بڑھاوے کے لیے مشتہری کا کام لیا جاسکتا ہے؟
ان امور میں قرآن و سنت کی رہ نمائی مطلوب ہے۔ اللہ آپ کو بہترین بدلہ عطا کرے اور اپنا قرب بخشے۔

ناقص الخلقت جنین کا اسقاط

ایسا ناقص الخلقت جنین، جس کے بارے میں الٹرا ساؤنڈ سے یقین ہوگیا ہو کہ وہ پیدا ہوگا تو مختصر عرصے میں مرجائے گا یا زندہ رہے گا تو معمول کی زندگی نہیں گزار سکے گا۔ کیا اس کا اسقاط کرانا جائز ہے؟
بہ راہِ کرم اس مسئلے میں شریعت ِاسلامیہ کی روشنی میں رہ نمائی فرمائیں ۔

ازدواجی تعلقات اور حقوق

زید کی شادی ۲۷، ۲۸ سال پہلے ہوئی تھی۔ زوجین نے پر مسرت ازدواجی زندگی گزاری۔ ان کے درمیان کسی طرح کی ناچاقی یا ناخوش گواری نہیں تھی۔ اس عرصے میں ان کی پانچ اولادیں ہوئیں ، جو بحمد اللہ اب جوان ہیں ۔ ان میں سے ایک بیٹی کی شادی بھی ہوچکی ہے۔ زید کی بیوی نے گزشتہ دس سال سے اس کے کمرے میں سونا چھوڑ دیا ہے۔ وہ اپنے جوان بچوں کے ساتھ الگ کمرے میں سوتی ہے اور شوہر دوسرے کمرے میں اکیلا سوتا ہے۔ زید اسے بار بار اللہ اور رسولؐ کا واسطہ دے کر اس کا فرض منصبی یاد دلاتا ہے اور اسے اپنے کمرے میں سلانا چاہتا ہے۔ مگر وہ کہہ دیتی ہے کہ بچے اب بڑے ہوگئے ہیں ، وہ کیا سوچیں گے؟ پھر انھیں اکیلے الگ کمرے میں رکھنا مناسب نہیں ، ان کا خیال رکھنا ضروری ہے۔ زید عمر کے اس مرحلے میں پہنچ چکاہے، جہاں وہ چاہتا ہے کہ اس کی بیوی زیادہ اوقات اس کے ساتھ رہے۔ شادی صرف جنسی تعلق قائم کرنے کے لیے تو نہیں کی جاتی۔ اس کی بیوی بھی اس بات کو تسلیم کرتی ہے، لیکن عملاً وہ شوہر کے حقوق ادا کرنے سے غفلت برتتی اور جوان اولاد کی دیکھ بھال کو ترجیح دیتی ہے۔ اب وہ صرف اپنے بچوں کی ماں بن کر رہ گئی ہے۔ اس صورت حال میں درج ذیل امور جواب طلب ہیں :
۱- کیا زید اور اس کی بیوی کے درمیان زن و شوہر کی حیثیت باقی ہے؟ یا ختم ہوگئی ہے؟
۲- بیوی کا رویہ کہیں شوہر سے خلع حاصل کرنے کے زمرے میں تو نہیں آتا؟
۳- کیا دونوں ایک مکان میں رہ سکتے ہیں اور بلاکراہت ایک دوسرے سے بات چیت کرسکتے ہیں ؟
میں سمجھتا ہوں کہ ازدواجی تعلقات کا مطلب ہی یہ ہے کہ عام حالات میں بیوی ہمیشہ رات اپنے شوہر کے ساتھ گزارے۔ الا ّیہ کہ کوئی شرعی مجبوری آڑے آگئی ہو۔

بگڑے ہوئے شوہر کی اصلاح کا صحیح طریقہ

میری شادی ایک جانے پہچانے خاندان میں ہوئی ہے۔ میری والدہ اور ساس بہت قریبی سہیلیاں تھیں ۔ پچیس سال سے ان کے درمیان تعلقات تھے۔ میرے والد کا انتقال میرے بچپن میں ہوگیا تھا۔ میرے بھائی نے میری کفالت اور تعلیم و تربیت کی، پھر میری شادی کے تمام مصارف برداشت کیے۔ شادی سے قبل میرے شوہر نے مجھے دیکھ کر اپنی رضا مندی دی تھی۔ شادی کے بعد کچھ عرصے تک میری سسرال والوں کے تعلقات میرے میکے والوں سے ٹھیک رہے۔ لیکن پھر میرے شوہر میرے میکے والوں سے چڑنے لگے۔ وہ اپنی بہن اور بہنوئی سے تو خوب ربط ضبط رکھتے ہیں ، لیکن میرے بھائی، والدہ اور دوسرے رشتے داروں سے نہ خود کبھی ملتے ہیں نہ فون پر ہی ان کی خیریت لیتے ہیں ۔ بل کہ ان کا مجھ سے ملنے کے لیے آنا بھی پسند نہیں کرتے۔ البتہ میرے ساتھ ان کا رویہ اچھا رہتا ہے۔ وہ مجھ سے بہت محبت کرتے ہیں ۔ انھوں نے شادی کی سال گرہ پر مجھے لیپ ٹاپ کا تحفہ دیا۔ وہ جو کچھ کماتے ہیں میرے حوالے کردیتے ہیں اور مجھے پوری آزادی ہوتی ہے کہ اس میں سے جو چاہوں خرچ کروں ۔
میں اپنے شوہر کے ساتھ دوسرے شہر میں رہتی ہوں ۔ جب میں وطن جاتی ہوں تو سسرال کے تمام رشتے داروں کے لیے تحائف لے کر جاتی ہوں ، لیکن میرے شوہر میرے میکے والوں کے لیے کوئی تحفہ دیں ، یہ تو دور کی بات ہے، پوچھتے تک نہیں کہ میں ان کے لیے کچھ لے کر جا رہی ہوں یا نہیں ۔
میں پہلی مرتبہ امید سے ہوئی تو میرے شوہر نے دباؤ ڈالا کہ میں اسقاط کر والوں ۔ میں تیار نہیں ہوئی۔ وضع حمل کے دن قریب آئے تو میں اپنے میکے چلی گئی۔ وہیں ایک بچی کی ولادت ہوئی۔ یہ خبر سن کر میرے بھائی، جو دوسری جگہ سروس کرتے ہیں ، وہ تو فوراً گھر پہنچ گئے، لیکن میرے شوہر ایک مہینے کے بعد آئے۔ مجھے محسوس ہوتا ہے کہ وہ بچی کی ولادت سے خوش نہیں ہوئے۔
میرے شوہر کی ایک بری عادت یہ ہے کہ وہ جب میرے ساتھ باہر نکلتے ہیں تو دوسری عورتوں کو یا پوسٹروں اور ہارڈنگس میں ان کے فوٹو دیکھ کر مختلف تبصرے کرتے رہتے ہیں ۔ میری بھنویں موٹی ہیں اور ہاتھوں اور پیروں میں بال ہیں ۔ مجھے احساس ہوتا ہے کہ انھیں یہ پسند نہیں ہے۔ کیا میں اپنی بھنویں پتلی کراسکتی ہوں ؟ اور ہاتھوں پیروں میں Waxing کرسکتی ہوں ؟
اپنے شوہر کے بارے میں جب سے مجھ پر ایک معاملے کا انکشاف ہوا ہے، میرا سارا سکون غارت ہوگیا ہے اور میں شدید ذہنی الجھن کا شکار ہوگئی ہوں ۔ یہاں تک کہ مجھے ڈپریشن کا مرض لاحق ہوگیا ہے۔ ایک مرتبہ میرے دل میں یہ تجسس پیدا ہوا کہ میرے شوہر کے لیپ ٹاپ میں کیا کیا ہے؟ انھوں نے Password لگا رکھا تھا۔ میں نے اسے دریافت کیا، لیکن انھوں نے نہیں دیا۔ میں کوشش کرتی رہی، یہاں تک کہ میں نے اسے جان لیا۔ لیپ ٹاپ کھولا تو میں چکرا کر رہ گئی۔ انھوں نے انتہائی فحش فلمیں اور گندے گانے لوڈ کر رکھے تھے۔ میرے اللہ! میرے شوہر اتنے برے ہیں ۔ میں سوچ بھی نہیں سکتی تھی۔ میں نے ان سے خوب جھگڑا کیا۔ بالآخر انھوں نے وعدہ کیا کہ آئندہ وہ ان گندے کاموں سے بچیں گے۔ میں نے ان پر اعتبار کرلیا، لیکن یہ میری خام خیالی تھی۔ کچھ دنوں کے بعد میں نے پھر انھیں گندی تصویریں دیکھتے اور فحش گانے سنتے ہوئے پکڑ لیا۔ پھر تو میں بہت روئی اور انھیں بھی خوب سخت سست کہا۔ انھوں نے پھر وعدہ کیا کہ اب وہ خود کو سدھار لیں گے۔ اس صورت حال سے مجھے شدید کوفت ہونے لگی۔ میری کچھ سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ میں کیا کروں ؟ اپنے شوہر کی برائی میں کسی سے کر بھی نہیں سکتی تھی۔ صرف اپنی بہن اور بھائی سے اپنی الجھن بیان کی، لیکن ان سے بھی مجھے کچھ رہ نمائی نہیں مل سکی۔
اب میرے شوہر میں ایک دوسری برائی یہ پیدا ہوگئی ہے کہ وہ گھر میں ہر وقت ٹی وی آن رکھتے ہیں ۔ شام کو آفس سے آتے ہی ٹی وی چلا دیتے ہیں ، جو سوتے وقت تک برابر چلتا رہتا ہے، بل کہ بسا اوقات سوجاتے ہیں اور ٹی وی چلتا رہتا ہے۔ اس پر آنے والے پروگرام بہت زیادہ فحش اور عریاں تو نہیں ہوتے، لیکن انھیں اچھا پروگرام بھی نہیں کہا جاسکتا۔ میں انھیں منع کرتی ہوں تو وہ مانتے نہیں ۔ جھگڑنے پر آمادہ ہوجاتی ہوں تو کہتے ہیں کہ ٹی وی کو پیک کردیں گے یا بیچ دیں گے۔
کچھ دنوں قبل میں نے اپنا ایک فوٹوFacebook پر ڈال دیا۔ اسے صرف میرے قریبی رشتے دار یا کالج کے زمانے کے دوست و احباب دیکھ سکتے تھے، لیکن میرے شوہر کو معلوم ہوا تو انھوں نے مجھے بہت ڈانٹا اور میرے کردار پر شبہ کرنے لگے۔ میں نے صفائی دی اور بات نہ بڑھے، اس لیے ان سے معافی مانگ لی۔
میرے شوہر پنج وقتہ نمازوں سے غافل ہیں ۔ وہ صرف جمعے کی نماز پڑھتے ہیں ۔ میں کبھی ان سے نماز پڑھنے کے لیے کہتی ہوں تو جواب دیتے ہیں کہ تم پڑھ لو، میں بعد میں پڑھ لوں گا۔ میں الحمد للہ! نمازوں کی پابندی کرتی ہوں ۔ قرآن مجید کی تلاوت اور اذکار کا اہتمام کرتی ہوں ۔ رات میں اٹھ کر تہجد بھی پڑھتی ہوں ۔ اللہ تعالیٰ سے خوب دعائیں بھی کرتی ہوں کہ میرے شوہر کی عادتیں سدھار دے اور انھیں سچا پکا مسلمان بنا دے۔ لیکن میری دعائیں قبول ہوتی ہوئی نظر نہیں آ رہی ہیں ۔
میں نے دل پر جبر کرکے اپنے اور اپنے شوہر کے بارے میں تفصیل سے اتنی باتیں آپ سے اس لیے لکھ دی ہیں ، تاکہ آپ ان کی روشنی میں مناسب رہ نمائی فرمائیں کہ ان حالات میں میں کیا کروں ؟ مجھے ڈر لگا رہتا ہے کہ کہیں میری ازدواجی زندگی برباد ہوکر نہ رہ جائے۔ بہ راہِ کرم اپنے مشوروں سے نوازیں ۔ اللہ تعالیٰ آپ کو جزائے خیر عطا فرمائے۔

نو مولود کے کان میں اذان دینا

ہمارے یہاں بعض علماء کہتے ہیں کہ بچے کی ولادت کے بعد سب سے پہلے اس کے کان میں اذان دینی چاہیے۔ یہ حضرات اسے سنت بتاتے ہیں ۔ بہ راہ کرم اس کی مشروعیت کے بارے میں بتایے۔ کیا اس سلسلے میں کوئی حدیث مروی ہے؟

کیا عقیقے میں بال مونڈنا ضروری ہے؟

میں نے اپنے پوتے کے عقیقے کی تاریخ طے کردی اور رشتہ داروں کو اس کی اطلاع دے دی۔ تاریخ ِ عقیقہ سے کچھ دنوں قبل بچے کے سر میں دانے نکل آئے۔ ڈاکٹر سے رجوع کیا تو اس نے سر کے بال منڈوانے سے منع کیا۔ کیا سر کے بال منڈوائے بغیر بچے کا عقیقہ ہوجائے گا؟ کیا میرے لیے کفایت کرے گا کہ میں اس کے بالوں کا اندازہ کرکے اس کے ہم وزن چاندی کی مالیت کی رقم خیرات کردوں ؟

بچے کی پرورش اور تعلیم و تربیت کا حق

ایک حدیث نظر سے گزری ہے جس کا مضمون کچھ یوں ہے: ’’ایک عورت اپنے دودھ پیتے بچے کو لے کر اللہ کے رسول ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئی اور عرض کیا: اے اللہ کے رسول! یہ میرا بیٹا ہے۔ میں نے حمل اور وضع حمل کی تکلیفیں برداشت کی ہیں ، ابھی یہ میرا دودھ پیتا ہے اور میری آغوش تربیت کا محتاج ہے، لیکن اس کا باپ، جس نے مجھے طلاق دے دی ہے، چاہتا ہے کہ اسے مجھ سے چھین لے۔ یہ سن کر آپؐ نے ارشاد فرمایا:
’’تم اس کی زیادہ حق دار ہو جب تک تمھارا کہیں اور نکاح نہ ہوجاے۔‘‘
اس حدیث کے ضمن میں درج ذیل سوالات ابھرتے ہیں :
۱- اگر ماں کسی اور سے نکاح کرلے تو ایسی صورت میں کیا ماں کا حق حضانت پوری طرح ساقط ہوجاتا ہے اور بچے کو مطلقہ سے لے لینے کا باپ پوری طرح حق دار ہوگا؟ حدیث کے الفاظ سے تو یہی بات مترشح ہوتی ہے۔
۲- بچہ ماں کے پاس ہو یا ماں جس کے پاس بھی اسے پرورش کے لیے رکھے، وہ مقام کہیں اور ہو اور بچے کا باپ جہاں اپنے اہل خاندان مثلاً بچے کی دادی، دادا، پھوپھی اور چچا وغیرہ کے ساتھ مقیم ہو اور وہیں اس کا پھیلا ہوا کاروبار بھی ہو وہ مقام بچے کی جاے قیام سے ہزاروں کلو میٹر کے فاصلے پر ہو، تب بھی بچے کی ماں اگر فقہ کے اس مسئلے کا حوالہ دے کہ ماں کے بعد بچے کی پرورش کا حق نانی کو منتقل ہوجاتا ہے اور بچے کو اپنی ماں کے پاس رکھنے پر مصر ہو تو یہ کہاں تک صحیح اور درست ہوگا؟ جب کہ بچے کی پرورش اس کی صحت اور تعلیم و تربیت پر نگاہ رکھنا اور وقتاً فوقتاً بچے سے ملنا اور ملتے رہنا اور بچے کو اپنے سے مانوس رکھنا، طویل فاصلے کی بنا پر باپ کے لیے ممکنات میں سے نہ ہو۔ ایسی صورت میں ماں کا یہ طرز عمل اور اس پر اصرار کیا شرعاً صحیح اور درست ہوگا؟
۳- پھر یہ کہ طلاق کے بعد بچے کی ماں کے گھر والوں یعنی نانا، نانی وغیرہ سے اس کے باپ کے تعلقات انتہائی کشیدہ ہوچکے ہوں اور وہ ان کے گھر میں قدم رکھنا بھی پسند نہ کرتا ہو تو ایسی صورت میں بچے کو نانی کے پاس رکھنا بچے سے باپ کے تعلق کو کیا عملاً ختم کردینے کے مترادف نہیں ہوگا۔ شرعاً یہ کہاں تک درست ہے؟
۴- پھر ایک بات اور یہ کہ اگر نانی اپنے گھر کی اکیلی خاتون ہوں ، لڑکیوں کی شادی ہوچکی ہو، بڑے لڑکے شادیوں کے بعد ماں باپ سے علیٰحدہ رہتے ہوں ، ایسی صورت میں نانی پر بچے کی پرورش کی ذمہ داری ڈالنا کہاں تک صحیح اور درست ہوگا، جب کہ بچے کا باپ اس کے لیے بالکل تیار نہ ہو اور اس کو وہ اپنی اور اپنے بچے کی بہت بڑی حق تلفی قرار دیتا ہو۔ سوال یہ ہے کہ کیا شریعت اس طرح کے جبر کی اجازت دے گی؟
۵- دوسری طرف بچے کے باپ کے گھر والے مثلاً بچہ کی دادی، دادا، پھوپھی، چچا وغیرہ بچے کو اپنانے اور دل و جان سے اس کی پرورش اور نگہداشت کرنے کے لیے تیار ہوں تو شرعاً ترجیح کس کو دی جائے گی؟ جب کہ بچے کا باپ بھی اپنے والدین ہی کے ساتھ رہتا ہو اور کاروبار بھی مشترک ہو اور بچے کا باپ بھی دل و جان سے یہی چاہتا ہو کہ اس کا لخت جگر ہر قسم کے ضرر سے محفوظ رہے اور پیار و محبت کے ماحول میں اس کی راست نگرانی میں بچے کی پرورش، تعلیم و تربیت اور تعمیر اخلاق کا نظم ہو اور عمدہ سے عمدہ اور اعلیٰ سے اعلیٰ سہولتیں اور آسائشیں بھی بچے کو ملیں ۔
بہ راہ کرم حدیث بالا کے ضمن میں ابھرنے والے سوالات کے جوابات مرحمت فرمائیں ۔

نقل ِ مکانی کی صورت میں عورت کا حق حضانت

’بچے کی پرورش اور تعلیم و تربیت کا حق‘ کے زیر عنوان بعض سوالات کے جو جوابات دیے گئے ہیں ، ان کی ایک شق سے متعلق کچھ وضاحت مطلوب ہے۔
لکھا گیا ہے کہ ’’عام حالات میں بچے کو وہیں رکھنا ضروری ہے، جہاں اس کے باپ کا قیام ہو، اس لیے ماں باپ میں سے کوئی بھی اگر دوسری جگہ منتقل ہو رہا ہو تو ماں کا حق ِ حضانت ساقط ہوجائے گا۔‘‘ آگے اس کی مزید وضاحت ان الفاظ میں کی گئی ہے:
’’بچے کا حقیقی ولی باپ ہے، اگرچہ ماں یا اس سلسلے کی کوئی دوسری عورت بچے کا حق حضانت رکھتی ہو، لیکن بچے کی نگرانی اور تعلیم و تربیت کا حق باپ کا ہے۔ اگر وہ بچے کو کسی ایسی جگہ (لے جانا چاہے) جہاں باپ اس کی نگرانی اور نگہ داشت نہیں کرسکتا تو وہ حق حضانت کھو دیتی ہے۔‘‘
موجودہ دور میں حالات پہلے کے مقابلے میں بہت بدل گئے ہیں ۔ شادیاں دور دراز کے علاقوں سے ہونے لگی ہیں ، پھر لڑکے کی ملازمت یا کاروبار اپنے وطن سے دور کسی جگہ ہو تو شادی شدہ جوڑا وہاں رہنے لگتا ہے۔ اب اگر نا اتفاقی کی بنا پر زوجین کے درمیان علیٰحدگی ہوجائے اور ان کے درمیان کوئی بچہ ہو تو ظاہر ہے کہ علاحدگی کے بعد محض بچے کی پرورش کے لیے اس کی ماں اس شہر میں نہیں رکے گی، جہاں بچے کا باپ رہتا ہے۔ بل کہ اس شہر میں آجائے گی جہاں اس کے ماں باپ یا کوئی قریبی عزیز رہتا ہے اور اگر اس کا دوسرا نکاح ہوجائے تو وہ اپنے شوہر کے شہر میں منتقل ہوجائے گی۔ کیا اس نقل ِ مکانی کی بنا پر عورت اپنے حق حضانت سے محروم ہوجائے گی؟

اگر ماں باپ کے حکم میں اختلاف ہو

اگر والدین (ماں باپ) اپنے بیٹوں یا بیٹیوں کو کوئی حکم دیں اور اس حکم میں دونوں (ماں باپ) کے درمیان اختلاف ہوجائے اور ان میں سے کوئی حکم معصیت پر مبنی بھی نہ ہو تو اولاد پر کس کے حکم کی تعمیل لازم ہے؟ بہ طور ِ مثال میری والدہ مجھ سے کہیں کہ تم دہلی سے علی گڑھ جاؤ اور والد صاحب وہاں جانے سے منع کریں تو مجھ پر کیا لازم ہے؟ مجھے کس کا حکم ماننا چاہیے؟
میں نے جمعہ کے ایک خطبے میں سنا ہے کہ خدمت ماں کی باپ پر مقدم ہے، مگر حکم باپ کا ماں کے حکم پر فوقیت رکھتا ہے۔ کیوں کہ باپ گھر کا ذمہ دار اور نگراں ہوتا ہے، اس لیے اس کے حکم کی تعمیل لازم ہے۔ امام صاحب نے یہ بھی کہا کہ ماں کا درجہ باپ کی نسبت تین گنا زیادہ ہے۔ میرا خیال ہے کہ یہ بات نہ قرآن میں کہیں مذکور ہے نہ حدیث میں ۔
آپ سے گزارش ہے کہ قرآن و حدیث کے حوالے سے تحریر فرمائیں کہ یہ دونوں باتیں کہاں تک صحیح ہیں ؟

دھوکا اور طلاق

ایک صاحب کا نکاح ہوا۔ انھوں نے بیوی کو مہر کے علاوہ ایک مکان بھی بہ طور تحفہ دیا اور اس کی گفٹ رجسٹری اس کے نام کروادی۔ مگر کچھ عرصہ گزر جانے کے بعد جب اس بیوی سے ان کے کوئی اولاد نہیں ہوئی تو ان کا دل پھر گیا۔ انھوں نے نہ صرف یہ کہ بیوی کو تین طلاقیں دے دیں ، بل کہ اسے اطلاع دیے بغیر تحفے میں دیے گئے مکان کی رجسٹری بھی منسوخ کروا دی۔ اب وہ کہتے ہیں کہ کسی کو دیا گیا تحفہ واپس لیا جاسکتا ہے، شریعت میں اس کی ممانعت نہیں ہے۔ بہ راہ کرم ہماری رہ نمائی فرمائیں ۔ کیا ان صاحب کی بات صحیح ہے؟